ادبستان

استفسار: نیر مسعود کی ہمہ رنگی پر ایک یادگار شمارہ

بک ریویو: ’استفسار‘ کا یہ شمارہ ثبوت ہے اس کے مدیران کی اہلیت اور محنت کا، اور اس یقین کا کہ نیر مسعود جیسے نقاد، محقق اور فکشن نگار پر وہ ایک ایسا بھرپور اورخصوصی شمارہ  نکال سکتے ہیں، جو  آنے والے دنوں میں طلباء کے لیے اور شائقین ادب کے لیے ریفرنس کا ایک قیمتی ذریعہ بن سکے۔

فوٹو بہ شکریہ فیس بک، السٹریشن؛ دی وائر

فوٹو بہ شکریہ فیس بک، السٹریشن؛ دی وائر

چوٹی کے نقاد، محقق اور فکشن نگار نیر مسعود کے انتقال کے بعد ، ان کی حیات و خدمات پر گوشے تو شائع ہوئے ، لیکن عرصے تک ان کی زندگی اور ادبی خدمات کے تفصیلی جائزہ پر مشتمل کسی ادبی پرچے کا – میری معلومات کی حد تک – کوئی خصوصی شمارہ  شائع نہیں ہوا۔ کیوں؟

میرے خیال سے یہ دو وجہ سے تھا ؛ ایک تو اِس لیے کہ نیر مسعود پر ، چاہے اُن کی حیات ہو یا ادبی خدمات ، لکھنے کے لیے اُنہیں سمجھنا لازمی ہے، لیکن لکھنے والوں میں اکثر ایسے ہیں جنہیں نیر مسعود مرحوم کی زندگی کے اتار چڑھاؤ سے کم ہی واقفیت ہے ، اور اکثر ایسے ہیں جو مرحوم کی تنقید ، تحقیق یا اُن کے سماجی و نیم تاریخی مضامین پر تو کچھ لکھ بھی لیں ، لیکن ان کے فکشن پر لکھنا اُن کے لیے ٹیڑھی کھیر ہے ۔

دوسری وجہ یہ تھی کہ کسی اچھے سے ادبی پرچے کے کسی قابل مدیر نے اس جانب توجہ نہیں دی ، شاید اس لیے کہ نیر صاحب پر لوگوں سے اچھی تحریریں لکھوانا آسان نہیں تھا ۔ لیکن مدیران ’استفسار‘ شین کاف نظام اور عادل رضا منصوری نے  کچھ نئی اور کچھ پرانی تحریروں کو جمع کرکے ، یہ کام کر دکھایا ہے ۔

’استفسار ‘ کا یہ تازہ شمارہ ثبوت ہے اس کے مدیران کی اہلیت اور محنت کا، اور اس یقین کا کہ نیر مسعود جیسے نقاد ، محقق اور فکشن نگار پر وہ ایک ایسا بھرپور اور خوبصورت خصوصی شمارہ  نکال سکتے ہیں ، جو آنے والے دنوں میں طلباء کے لیے اور شائقین ادب کے لیے ریفرنس کا ایک قیمتی ذریعہ بن سکے ۔

’استفسار‘ کا یہ شمارہ ’ بیادِ نیر مسعود ‘ کے عنوان سے ہے ، اور یہ عنوان اس شمارے کے ابواب اور ابواب کے تحت دیے گئے مضامین کے لحاظ سے درست ہے ۔ یادوں پر مشتمل جو مضامین ہیں وہ تو ہیں ہی، اور مضامین بھی، چاہے وہ اُن کی تنقید پر ہوں ، تحقیق پر یا فکشن پر ، نیر مسعود کی یاد سے خالی نہیں ہیں ۔

شمارے کو پانچ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے، ایک چھٹا باب بھی ہے ’ بُک شیلف‘ کے عنوان سے ، جو نیر مسعود پر نہیں مدیر ’استفسار ‘ عادل رضا منصوری کے شعری مجموعے ’سناٹے کی پرچھائیاں‘ پر کیے گئے تبصروں پر مشتمل ہے ۔ اگر بُک شیلف کے تحت کتابوں پر نیر مسعود کے کیے گئے تبصرے شامل کر لیے جاتے تو یہ شمارہ مکمل طور پر نیر صاحب ہی کے نام ہو جاتا ۔

پہلا باب ’یاد کے جھروکے میں: نیر مسعود‘ کے عنوان سے ہے ، اس میں دو صفحات پر پھیلا ہوا نیر مسعود کا ’ زندگی نامہ ‘ ہے ، یعنی پیدائش سے لے کر موت تک کے سفر کے کوائف ۔ اس میں ان کی تعلیم ،ملازمت ، کتابیں ، ایوارڈ اور خاندان کا ذکرتاریخی ترتیب سے آ گیا ہے۔

مضامین کی تعداد چار ہے ، غلام رضوی گردش کا ’ میر صاحب ‘ ، انیس اشفاق کا ’نیر مسعود ہمہ رنگ ہمہ داں ‘ کے چند اقتباسات‘ ، طارق چھتاری کا ’ نیر مسعود سے ملاقاتیں: کچھ باتیں کچھ یادیں‘، اور نیر صاحب کے صاحب زادے تمثال مسعود کا  ’نیر مسعود کے پندرہ رجسٹر‘۔ یہ چاروں مضامین نیر صاحب کی یادوں کے گاگر ہیں ، ان میں اُن کی ذات ، اُن کے عادات و اطوار ، خدمات اور اُن کے لکھنے کے معمولات سب سما گئے ہیں

رضوی صاحب کا مضمون 2002کا تحریرکردہ ہے ، اسے ایک شاندار خاکہ کہا جا سکتا ہے، اس لیے کہ اس میں نیر صاحب کا بچپن ، اُن کا حلیہ ، اُن کا مزاج ، حویلی ’ادبستان ‘ کی روایات ، بے مثال لائبریری ، لکھنے پڑھنے کا جنون ، دوستوں سے رشتے ، مراسلت غرض کہ سب کچھ سمو دیا گیا ہے ۔ اور بات اُن کے فکشن پر بھی کی گئی ہے ؛ لکھتے ہیں ;

اور سُنیے ، میر صاحب کے افسانوں کو پوسٹ ماڈرنسٹ رویے کا مظہر بھی ٹھہرایا گیا ، کسی کو اُن کا ہر افسانہ کلیڈیواسکوپ لگا جس میں ہلکی سی جنبش سے ایک نئی ترتیب پیدا ہوجاتی ہے ۔ کسی نے ان کی تشریح توضیح کے لیے فرانز روہ کی اصطلاح میجک ریالزم کا سہارا لیا جس کے مطابق افسانے میں بیانیہ کے توسط سے کوئی بعید ازقیاس پہلو داخل کر دیا جاتا ہے اور وہ بھی اس طرح کہ بیان معروضی اور بے کم و کاست رہتا ہے

ملحوظ خاطر ہوکہ یہ انداز بیان صرف حیرت اور ہیبت ناک کے داعیوں کو متحرک کرتا ہے ( ہمارے آپ جیسوں کو نہیں!) اور انہیں ایک انجانی مسرت کا احساس دلاتا ہے ۔ چلیے صاحب ، ہر دلیل سر آنکھوں پر ، لیکن افسانہ ، قصہ اور کہانی کہاں ہے ؟ رمزیت کا یہ مطلب تو ہرگز نہیں کہ قاری اپنا سر پیٹنے پر مجبور ہو جائے !‘

انیس اشفاق کی نیر صاحب پر لکھی گئی کتاب سے جو اقتباسات دیے گئے ہیں ، اُن میں نیر صاحب  کو اس انداز میں یاد کیا گیا ہے کہ پڑھنے والے پر ایک الم کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے ۔ مثلاً تیجے کی مجلس کے حوالے سے یہ سطریں ملاحظہ ہوں؛

’ مجلس سے قبل لکھنؤ کے معروف شعرا نے نیر مسعود کو منظوم خراجِ عقیدت پیش کیا ۔ شمس الرحمٰن فاروقی بھی اس مجلس میں شریک ہونے الہٰ آباد سے آئے تھے ، مولانا کے منبر پر بیٹھنے سے قبل انہیں اظہارِ خیال کی زحمت دی گئی ۔ توقع تھی کہ ایک بڑے مجمع کے سامنے وہ اس موقع پر اپنے دوست کی فضیلتوں کے بارے میں ضرور کچھ کہیں گے لیکن مائک کے سامنے آ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے اور جو کچھ وہ کہنا چاہتے تھے وہ سیلِ گریہ میں کہیں ’گُم‘ ہو گیا ۔ مجلس ختم ہونے کے بعد جب مجمع چھٹ گیا اور امام باڑے میں چند منتخب لوگ رہ گئے تو مولانا کلبِ صادق نے جنہوں نے نیر مسعود کی مجلس پڑھی تھی ، ان منتخب لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ؛ ’افسوس ! لکھنؤ سے علم رخصت ہوگیا ۔‘

‘نیر صاحب کے بیٹے تمثال مسعود نے مرحوم کے اُن پندرہ رجسٹروں کو اپنے مضمون کا موضوع بنایا ہے ، جو نیر صاحب کی حیات میں بہتوں کے لیے ’اسرار ‘ کا باعث رہے ہوں گے کہ ان میں کیا لکھا ہے !

یہ بہت شاندار مضمون ہے ، شاندار اس معنیٰ میں کہ اس میں مرحوم کی حیات ، ان کے اطوار ، مزاج ، عادتوں اور ان کے افسانوں کی ’بنیاد‘ کے حوالے سے دلچسپ باتیں سامنے آتی ہیں ۔ یہ رجسٹر مذہب سے اُن کے لگاؤ ، اُن کی پسندیدہ اسلامی شخصیات ، اُن کی دعاؤں ، اوراد و وظائف ، رنگوں سے اُن کی دلچسپی بلکہ رنگوں کے ذریعے علاج ، طبی نسخے ، نقش ، اور مافوق سے ان کی دلچسپی ، ان کی مُصوری ، پسندیدہ فلموں ، اداکاروں وغیرہ پر روشنی ڈالتے ہیں ۔

اس مضمون سے نیر صاحب کی ایک ’ہمہ رنگ ، ہمہ داں ‘ کی مگر پیچیدہ سی شخصیت سامنے آتی ہے ، اُتنی ہی پیچیدہ جس قدر پیچیدہ کہ ان کے افسانے سمجھے جاتے ہیں ۔لیکن طارق چھتاری کے مضمون میں ایک ایسے نیر صاحب سامنے  آتے ہیں جو شفقت اور محبت سے بھرے ہوئے ہیں ، جو اپنے چھوٹوں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں ، جن کے اندر کوئی پیچیدگی نہیں پائی جاتی ۔

 اس شمارہ کے دوسرے باب ’نظر ثانی: جیسا سمجھا، جیسا جانا ‘ میں مرحوم شمیم حنفی اپنےمضمون ’جاگتے سوتے کا قصہ‘ میں نیر صاحب کو ’شانت سبھاؤ ‘ کا کہتے ہیں ، اور ان کی کہانیوں کی نثر کو ’ہر قسم کی سجاؤٹ سے عاری ، روزمرہ سے گلے ملتی ہوئی ، بہت بے تصنع نثر ‘ قرار دیتے ہیں ۔

شمیم حنفی کے بقول نیر صاحب ،’علم کو اپنے باطن کا نور اور واقعے کو کہانی بنانے کا ہنر جانتے ہیں ۔‘ اس باب میں شمیم حنفی کے مذکورہ مضمون سمیت کُل چودہ مضامین ہیں ، اور ان کے لکھنے والوں میں عتیق اللہ ، قاضی افضال حسین ، سید محمد اشرف ، محمد حمید شاہد ، شافع قدوائی ، ناصر عباس نیر ، شہنشاہ مرزا ، امجد طفیل ، سکندر احمد ، ایم – خالد فیاض ، اسد عباس عابد ، ایلیزا بیتھ بیل اور محمد عامر سہیل کے نام شامل ہیں ، یہ سب بڑے لکھنے والے ہیں ، لیکن بعض اوقات بڑے لکھنے والے ’کام چلاؤ ‘ تحریر، کسی پرچے کا پیٹ بھرنے والی، دے دیتے ہیں، مگر اس شمارہ میں شامل مذکورہ لکھنے والوں کی تمام تحریریں وقیع ہیں ، شاندار ہیں ، اور نیر صاحب کی افسانوی دنیا کی تفہیم میں مدد دیتی ہیں ۔

میں یہاں صرف ایلیزا بیتھ بیل کے مضمون ’ثقافتی تجربے سے ماورا بے سیاق فنکار : نیر مسعود کا تجربہ ‘ کا ذکر کروں گا ۔ اس مضمون کو انگریزی سے سفینہ بیگم نے بڑی خوب صورتی سے ترجمہ کیا ہے ۔

ایلیزابیتھ بیل نے نیر صاحب کی کہانیوں کے ’واحد متکلم ‘ راوی کا ، جو ’میں‘ میں بات کرتا ہے ، اُن کے افسانوں کی ذوجہتی ، غیر معین اور متضاد عناصر کا ذکر کرتے ہوئے جہاں افسانوں کی مختلف جہتیں واضح کی ہیں وہیں ’نسلی تقابل کے عادی مثالی مغربی قاری‘کے ذہنوں میں اٹھنے والے ممکنہ  سوال بھی پیش کیے ہیں ، اور یہ اصول پیش کیا ہے کہ ’اردو افسانہ اور عام مغربی قاری کے درمیان تفاعل بھی ارتقا کی منزل میں ہے ۔‘یہ ایک مغربی اسکالر کی نظر سے نیر صاحب کے فکشن کو سمجھنے کی ایک شاندار مثال ہے ۔

بعد کے تین ابواب ہیں ’افسانہ اور تحریر‘ ، ’افسانے سے الگ ‘ اور ’گفتگو ‘ ہیں ، ان میں سے اولالذکر باب میں عرفان صدیقی ، عابد سہیل ، مہدی جعفر ، قاضی افضال حسین ، شافع قدوائی ، شعیب نظام ، اسد عباس عابد اور عمر فرحت کی نیر صاحب کے افسانوں پر یادگا تحریریں ہیں ۔ دوسرے والے باب میں نیر صاحب کی ’انیسیات‘ پر ، اُن کی غالب شناسی پر اور ان کے کلاسیکی ادب کے مطالعے پر شارب رودولوی ، معید الرحمٰن اور تمثال مسعود کے مضامین ہیں ۔

گفتگو کے باب میں نیرصاحب سے آصف فرخی اور ساگری سین گپتا کی بات چیت ہے ۔ زمرد مغل نے خالد جاوید سے نیر صاحب کے افسانوں پر گفتگو ریکارڈ کی تھی اُسے ’نیر مسعود کی افسانہ نگاری پر خالد جاوید کی تنقید‘کے عنوان سے تمثال مسعود نے تحریری شکل دی ہے ۔ خالد جاوید کا کہنا ہے ؛

’نیر مسعود کو جتنا جدید کہا جا سکتا ہے اتنا ہی مابعد جدید بھی کیونکہ مابعد جدیدیت اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ ایک معنیٰ نہ ہو کر بہت سے معنیٰ ہوں اور پڑھنے والے کو آزادی ہو کہ وہ اپنی مرضی کے معنیٰ کا انتخاب کر لے ۔ نیر مسعود کی کہانیاں ایک جادو کی طرح ہیں ، ایک سحر ہیں ۔ وہ اپنے پڑھنے والے کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہیں ۔‘

میں اس شمارے کے لیے عادل رضا منصوری کو دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہوں، بہت بہت شکریہ ۔ یہ شمارہ 448 صفحات پر مشتمل ہے، قیمت 600 روپے ہے۔ اس شمارہ کو موبائل نمبر 9829088001 پر رابطہ کرکے حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ممبئی میں اسے ’ کتاب دار‘سے موبائل نمبر 9869321477 پر رابطہ کر کے منگوایا جا سکتا ہے ۔

(شکیل رشید ممبئی اردو نیوز کے ایڈیٹر ہیں۔)