فکر و نظر

جمعیتہ علماء مہاراشٹر گلزار احمد اعظمی کے بعد

شکیل رشید لکھتے ہیں: گلزار اعظمی کی موت سے جو  ‘خلا’پیدا ہو گیا ہے، بھرنے کا کام  شروع ہوگیا، یا شروع کر دیا گیا، ذرا انتظار نہیں کیا گیا۔ لیکن ایک سوال یہ تو اٹھتا ہی ہے کہ کیا فوری طور پر  تبدیلیاں ضروری تھیں ؟ کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ گلزار صاحب نے جن افراد کو مامور کر رکھا تھا مرکز کو اُن پر اعتبار نہیں تھا، یا مرکز انہیں کام کا نہیں سمجھ رہا تھا ؟ یہ اہم سوال ہیں۔ ابھی مزید سوال سامنے آئیں گے  جب جمعیتہ علماء مہاراشٹر کے صدر  کا انتخاب ہوگا۔ایک بات  یہ بھی کہ؛ مولانا محمود مدنی کا کوئی تعزیتی بیان یا مراسلہ میری نظر سے نہیں گزرا، کیوں؟

گلزار احمد اعظمی، فوٹو: سوشل میڈیا

گلزار احمد اعظمی، فوٹو: سوشل میڈیا

الحاج گلزار احمد اعظمی کی تعزیتی نشست میں جانے کی مَیں ہمت نہیں کرسکا ۔ میں نے مرحوم ، جنہیں میں اوروں کی طرح گلزار بھائی کہتا تھا ، کے چھ بیٹوں میں سے ایک انوار اعظمی کے گلے لگ کر تعزیت کر لی تھی ، جمعیتہ کے دفتر پہنچ کر اظہارِ غم کر دیا تھا ، اور تنہائی میں جی بھر کر آنسو بہا لیے تھے ۔ کوئی اگر یہ پوچھے کہ تعزیتی نشست میں جانے میں کیا ہرج تھا ، تو میرا مختصر سا جواب ہوگا ’اب میں نے اُن تعزیتی نشستوں میں جانا بند کر دیا ہے ، جہاں اندازہ ہو کہ سچ کم بولا جائے گا ۔‘

حج ہاؤس میں، مَیں یہ نہیں کہتا کہ سچ نہیں بولا گیا، لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ جو کچھ بھی باتیں کہی گئیں، اُن میں بہت کچھ جھوٹ تھا ، بہت کچھ کہے اور بولے جانے کا مقصود صرف یہ تھا کہ لوگ سمجھیں اور جانیں کہ جمعیتہ علماء کے ذمہ داران کو مرحوم گلزار احمد اعظمی سے انتہائی لگاؤ تھا، اور اُن کی موت سے ایک ایسا خلا پیدا ہو گیا ہے ، جسے پاٹا جانا اب اُن کے لیےناممکن نہیں تو ازحد مشکل ضرورہے !میں نہیں جانتا کہ مرحوم کے اہلِ خانہ سے کس کس نے تعزیت کی، لیکن اتنا جانتا ہوں کہ ایک اہم ذمہ دار نے بڑے بیٹے مختار کو فون کرکے قبرستان بلا لیا کہ یہیں چلے آؤ مرحوم کی قبر پر جا کر فاتحہ پڑھ دیتے ہیں!انہیں مرحوم کے بیٹوں کے ساتھ بیٹھنے کی فرصت نہیں ملی!

یقیناً جمعیتہ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مفتی معصوم ثاقب آئے ، نماز جنازہ پڑھائی ، نائب صدر مولانا اسجد مدنی آئے، اظہارِ غم کیا، لیکن اتنا تو کرنا ہی تھا ورنہ تھو تھو ہوتی!ہاں، مرکز سے ذمہ داران کی آمد کے ساتھ اُس ’خلا ‘کے ، جو گلزار اعظمی کی موت سے پیدا ہو گیا ہے، بھرنے کا کام  شروع ہو گیا، یا شروع کر دیا گیا ، ذرا انتظار نہیں کیا گیا ۔ خیریہ اچھا ہی ہوا کیونکہ تاخیر ممکن تھا دفتری کاموں میں الجھن پیدا کر دیتی ۔

لیکن ایک سوال یہ تو اٹھتا ہی ہے کہ جس انداز میں ’فوری فیصلے‘ لیے گئے ، کیا اُس سے جمعیتہ کے وہ کارکنان اور ملازمین ، جو اب تک ذمہ داریاں سنبھالتے چلے آ رہے تھے ، دباؤ میں نہیں آئے ہوں گے ؟

مزید سوال ہیں ، کیا انہیں یہ احساس نہیں ستائے گا کہ وہ کبھی بھی چلتا کیے جا سکتے ہیں ؟ اور کیا عدمِ تحفظ کا یہ احساس جمعیتہ کے کام کاج کو متاثر کرنے کا سبب نہیں بنے گا ؟ ان سوالوں کے جواب مجھے نہیں جمعیتہ علما ء کے جو بھی کرتا دھرتا ہیں اُنہی کو دینا ہوگا، اور اس طرح سے دینا ہوگا کہ سارے خدشات رفع ہو سکیں ۔

گلزار بھائی کے بعد کیا تبدیلیاں ہوئیں، اس پر بات کرنے سے قبل 2006 کا ذکر کرنا چاہوں گا ۔ حضرت مولانا سید اسعد مدنی کا انتقال ہو چکا تھا ، اُن کے چھوٹے بھائی مولانا سید ارشد مدنی 8  فروری 2006 سے جمعیتہ علماء ہند کی صدارت کی کرسی پر بیٹھ چکے تھے، جمعیتہ کے کچھ حلقوں میں خوشی کی ایک لہر تھی، کچھ حلقوں میں مایوسی کی فضا چھائی ہوئی تھی۔ بعد میں کچھ ایسی باتیں بھی ہوئیں جو جمعیتہ کی ٹوٹ پھوٹ کا سبب بن گئیں، اور ایک ملّی جماعت جو جنگِ آزادی میں شریک تھی ، جس کے اکابر نے ملک اور قوم کی خدمت میں رات دن ایک کر دیے تھے ، دیکھتے ہی دیکھتے دو دھڑوں میں بٹ کر ایک ایسی جنگ میں جُٹ گئی ، جو جنگِ آزادی سے  زیادہ نقصاندہ ثابت ہوئی ۔

 جنگِ آزادی نے تو اکابر علماء کی جانیں لی تھیں، انہیں کال کوٹھڑیوں میں محبوس کرایا تھا ، یہ جنگ عزتیں خاک میں ملا رہی ہے ۔ ملک کے بٹوارے سے سنبھلنے والے مسلمان جماعت کے دودھڑوں میں تقسیم ہونے سے سنبھل نہیں سکے، بٹتے چلے گئے ، اور نہ جانے کب تک بٹتے جائیں گے ! بڑے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ دونوں دھڑوں کے درمیان اس قدر دوریاں آ گئی ہیں کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اللہ کے رسول نے کاٹنے کی بجائے جوڑنے کا حکم دیا ہے، کاٹنے کا ہی کام کیا جا رہا ہے۔

گلزار اعظمی پر ایک الزام لگتا ہے کہ وہ دونوں دھڑوں میں ’اتحاد ‘ کے شدید خلاف تھے ۔ بات کچھ حد تک سچ ہو سکتی ہے، لیکن اس سے بھی بڑا سچ یہ ہے کہ بندوق گلزار اعظمی کے کندھے پر تھی، اور وہ لوگ جو واقعی اتحاد نہیں چاہتے تھے ، مقاصد اپنے پورے کر رہے تھے ۔ خیر اب گلزار بھائی نہیں رہے ، گویا یہ کہ اب اتحاد کو ’روکنے ‘ والا نہیں رہا ، اب ’ اتحاد ‘ کر لیں ۔

بات مولانا سید ارشد مدنی کے جمعیتہ علما کا صدر بننے کی تھی مگر کہیں اور جا پہنچی ۔ سن  2006 کے وہ دن ملک کے لیے بالعموم اور مسلمانوں کے لیے، وہ بھی ممبئی کے مسلمانوں کے لیے بالخصوص مشکلات سے بھرے ہوئے تھے ۔1992-93 کے سلسے وار بم دھماکوں نے شہر کو دہلا دیا تھا ، 257جانیں گئی تھیں ، بڑے پیمانے پر تباہی مچی تھی ، اس میں ایک بڑی تعداد میں مسلم نوجوان گرفتار کیے گئے تھے ۔اس کے بعد 1997 میں جامع مسجد کے قریب ایک دھماکہ ہوا تھا جس میں کوئی ہلاک تو نہیں ہوا لیکن تین افراد زخمی ہوئے تھے ۔


یہ بھی پڑھیں: گلزار اعظمی: دہشت گردی کے معاملوں میں غلط طریقے سے پھنسائے گئے ملزمین کے مددگار


پھر 1998 میں دو بلاسٹ ہوئے تھے ملاڈ اور ویرار میں ، ان میں9 افراد ہلاک ہوئے تھے ۔ سال2002 میں ممبئی سینٹرل اسٹیشن اور گھاٹ کوپر میں دو بلاسٹ ہوئے تھے ، جن میں مرنے والوں کی تعداد تین تھی ۔ لیکن 2003 میں شہر ممبئی ایک کے بعد ایک چھ دھماکوں سے لرزا تھا، یہ دھماکے الگ الگ مہینوں میں ولے پارلے ، ملنڈ اسٹیشن ، باندرہ ، گھاٹ کوپر ، گیٹ وے آف انڈیا اور زویری بازار میں ہوئے تھے ، آخرالذکر دھماکے ایک ہی دن ہوئے تھے ، ان میں مرنے والوں کی مجموعی تعداد68 تھی ۔ ان دھماکوں کے بعد 2006 میں ممبئی کی لوکل ٹرینوں میں دھماکے ہوئے تھے جن میں 181 افراد مارے گئے تھے ۔ اور مالیگاؤں کا دھماکہ بھی تھا جس میں 40 لوگوں کی جانیں گئی تھیں ۔

ان تمام دھماکوں کا الزام مسلمانوں کے ہی سر آیا ، ہر دھماکے کے بعد حکومت کے وزراء کسی نہ کسی مسلم جماعت کا نام لے لیتے تھے ! ان دھماکوں کو بابری مسجد کی شہادت سے جوڑ کر دیکھا جا رہا تھا ، مسلم قوم بے بس تھی، اور اُسے کہیں سے روشنی کی کوئی کرن نظر نہیں آ رہی تھی۔ ان حالات میں مولانا سید ارشد مدنی جب ممبئی آئے ، تو مولانا فضل الرحمٰن، جو اُن دنوں ممبئی کے کرلا کے علاقہ میں رہا کرتے تھے، کے مکان پر گلزار اعظمی نے، شہید ایڈوکیٹ شاہد اعظمی کے ہمراہ مولانا محترم  سے ملاقات کی اور انہیں بتایا کہ مسلمانوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کی گئی ہیں، ان کے مقدمے لڑے جانے چاہیے، مولانا نے فوراً حامی بھر لی ، اور چار لاکھ روپے مرکز سے دینے کا وعدہ کیا، اور دیے بھی، اس طرح گلزار اعظمی مرحوم نے شاہد اعظمی کے ساتھ مل کر مقدمات لڑنے کا آغاز کیا ۔

اس موقع پر میں بھی گلزار بھائی کے ساتھ تھا اور مولانا محمود دریابادی بھی اس دعوت میں مدعو تھے۔ اس ملاقات سے قبل مرحوم کچھ مقدمے سماج وادی پارٹی کے قائد اور رکن اسمبلی ابوعاصم اعظمی کی مدد سے دیکھ رہے تھے، لیکن جمعتیہ علماءاس سے قبل فسادات کے مقدمے تو دیکھتی تھی دہشت گردی کے ماخوذین کے مقدمات نہیں ۔

 مرحوم گلزار اعظمی نے جمعیتہ علماء مہاراشٹر کے پلیٹ فارم سے تین بڑے کام کیے ، اُن میں پہلا کام جمعیتہ علماء کی قانونی امداد کمیٹی کو ایک مضبوط شکل دینا تھا ۔ مجھے خوب یاد ہے کہ ملک بھر کے مقدمات لڑنے کے لیے مرحوم نے  تقریباً ہر ریاست سے جانے مانے وکلاء کو جمع کیا تھا، ممبئی کے ایک ہوٹل میں ان کی میٹنگ رکھی تھی ، اور مقدمات کیسے لڑیں جائیں اس سوال پر غوروخوض کیا تھا۔

اُن کے سامنے کئی بڑے مقدمات تھے ، جن میں مالیگاؤں کے دونوں2006 اور2008  کے بم دھماکوں کے علاوہ ممبئی کے تمام دھماکے شامل تھے ۔   مالیگاؤں کے 2008 کے دھماکے میں وہ سادھوی پرگیا سنگھ ٹھاکر ایک ملزم ہے، جو آج کے دنوں میں بی جے پی کی ممبر پارلیامنٹ ہے ۔ مقدمات کا لڑنا کوئی کھیل نہیں تھا، وکلاء کو رام کرنا، ملزمان اور اُن کے اہلِ خانہ کو حوصلہ دینا، اور اکثر مالی امداد فراہم کرنا، پولیس پر دباؤ بنائے رکھنا یہ سب کُل وقتی کام تھا، اور گلزار صاحب اس کے لیے کُل وقت دیتے تھے۔

ایک بات یاد رکھی جائے، ان دھماکوں میں شہید اے ٹی ایس چیف ہیمنت کرکرے نے جب ’ بھگوا دہشت گردی ‘ کا پردہ فاش کیا تھا، تب جمعیتہ علماء کے لیے بھی ، اور گلزار صاحب کے لیے بھی ان مقدمات کا لڑنا بےحد دشوار ہو گیا تھا ۔ دھمکیاں ملنے لگی تھیں ، اور ایڈوکیٹ شاہد اعظمی کی شہادت کے بعد مشکلیں مزید بڑھ گئی تھیں، پولیس، ایجنسیوں اور سیاست دانوں  کا دباؤ بھی بڑھنے لگا تھا، لیکن اِدھر قانونی امداد کمیٹی کے سکریٹری کی حیثیت سے گلزار صاحب جمے رہے، ان کے قدموں کو کوئی دھمکی یا دباؤ ہلا نہیں سکا، اور اُدھر جمعیتہ کے صدر مولانا سید ارشد مدنی ثابت قدم رہے، گلزار صاحب کا ساتھ دیتے رہے ۔ اور دونوں کا یہ ساتھ اُس وقت بھی برقرار رہا جب نریندر مودی وزیراعظم بنے اور دہشت گردی کے مقدمات کا لڑنا ازحد دشووار بنا دیا گیا۔

گلزار صاحب کم از کم پانچ سو ماخوذین کو سزاؤں سے بچانے کا مثالی کارنامہ انجام دے کر اس دنیا سے گئے ہیں ۔ چند سطروں میں مقدمات کی تفصیل یوں دی جا سکتی ہے ؛  مرحوم کے دور میں 300 ملزمین کو دہشت گردی کے الزامات سے رہائی ملی ۔ دو سو ملزمین نے ضمانت پائی ۔ چھ سو ملزمین کے مقدمات کی پیروی جاری تھی ۔ اور انہوں نے30 مسلمانوں کو پھانسی کے پھندے سے بچایا اور 76 ، پھانسی اور 125 عمر قید کی سزا پانے والے ملزمین کی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں پیروی کررہے تھے ۔ کُل چھ سو ملزمین کے مقدمات کی نچلی عدالت سے لے کر سپریم کورٹ تک پیروی کررہے تھے ۔


یہ بھی پڑھیں: گلزار اعظمی: ایسے دیوانے شخص کا نعم البدل تلاش کرنا آسان نہیں ہوگا


مرحوم نے شری کرشنا کمیشن میں ، جو  ممبئی 93 فسادات کی تفتیش کر رہا تھا جمعیتہ کی طرف سے نمائندگی کی تھی، اور دیگر کمیشن میں اپنے نمائندے بھیجے تھے ۔ بات یہیں نہیں رُکتی ؛ بابری مسجد مقدمہ ، طلاق ثلاثہ مقدمہ ، مرکز نظام الدین کورونا معاملہ، متعصب میڈیا پر لگام کسنے کا معاملہ ، لو جہاد معاملہ، غیر قانونی بلڈوزر کارروائی معاملہ ، ماب لنچنگ معاملہ و دیگر ایسے ہی معاملات میں انہوں نے سپریم کورٹ آف انڈیا میں پٹیشنز داخل کی تھیں، مداخلت کار بنے اور  پیروی کی تھی۔

ان کاموں کے لیے پیسے جٹانے کا کام بھی وہ کرتے تھے ۔ کئی بار انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے اُن افراد کا جو اس کام کے لیے دامے درمے قدمے امداد کیا کرتے تھے شکریہ ادا کیا ، اور اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ کسی بے قصور کو نہ پھانسی چڑھنے دیں گے اور نہ جیل جانے دیں گے، چاہے اس کے لیے کسی کے آگے بھی ہاتھ پھیلانا پڑے ۔

یہ جذبہ اب کہاں سے آئے گا ؟ کون گلزار اعظمی کی جگہ لے گا ؟ شاید کوئی نہیں۔ قانونی امداد کمیٹی کو گلزار صاحب، مرحوم صدر مولانا مستقیم احسن اعظمی، ایڈوکیٹ شاہد ندیم اور ایڈوکیٹ نثار تمبولی کے مشوروں سے چلایا کرتے تھے، اب اس میں یہ تبدیلی کی گئی ہے کہ چھ افراد کی کمیٹی بنا دی گئی ہے جو اس کمیٹی کو چلائے گی ۔ کیا یہ ممکن نہیں تھا کہ ذمہ داری شاہد ندیم اور نثار تمبولی کو سونپ دی جاتی ؟

ایک اور کام جو گلزار اعظمی اور مرحوم صدر جمعیتہ مولانا مستقیم احسن اعظمی نے خوبی سے کیا تھا وہ تھا ’ جمعیتہ علماء حلال فاؤنڈیشن ‘ کو مضبوط کرنا ۔یہ فاؤنڈیشن ایک دودھ دیتی گائے ہے، اس میں کروڑوں روپے آتے ہیں ، اسی لیے اس پر بہتوں کی نظر ہے ۔اس میں بھی تبدیلی کی گئی ہے، اشفاق صاحب اس کی دیکھ ریکھ گلزار صاحب کے مشورے سے کرتے تھے، اب ان کی جگہ وسیم صاحب نے لے لی ہے ۔ اسی طرح دفتری امور مولانا رحمت اللہ دیکھتے تھے اُن کی جگہ مولانا معراج الحق کو دی گئی ہے ۔ یہ سب اچھے لوگ ہیں ، ایماندار ہیں، لیکن کیا فوری طور پر یہ تبدیلیاں ضروری تھیں ؟

کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ گلزار صاحب نے جن افراد کو مامور کر رکھا تھا مرکز کو اُن پر اعتبار نہیں تھا، یا مرکز انہیں کام کا نہیں سمجھ رہا تھا ؟ یہ اہم سوال ہیں ۔ ابھی مزید سوال سامنے آئیں گے جب جمعیتہ علماء مہاراشٹر کے صدر  کا انتخاب ہوگا ۔

کیا حافظ مسعود حسامی ، جو عارضی صدر ہیں برقرار رکھے جائیں گے یا مولانا حلیم اللہ کو صدارت ملے گی ؟

ایک اہم کام جمعیتہ کو متعارف کرانے ، معتبر بنانے کا، اور اس کے دفتر کو منظم ڈھنگ سے چلانے کا بھی کیا تھا ۔ بہرحال جو ہو گلزار صاحب کے بعد جو تبدیلیاں کی گئی ہیں اُن پر کچھ جمعیتیوں کا کہنا ہے کہ مرکز ریاستی جمعیتہ پر اپنا پنجہ مضبوط کر رہا ہے، اور اب اِسے مرکز سے چلایا جائے گا، اس کی حیثیت اب خودمختارانہ نہیں ہوگی، ہر فیصلہ کے لیے اسے مرکز کی طرف دیکھنا ہوگا ۔

لیکن ممکن ہے کہ یہ تبدیلیاں جمعیتہ کے لیے مثبت بن جائیں ، اس میں نئی روح پھونک جائیں ؛ دیکھتے ہیں ۔

چلتے چلتے ایک بات ؛ مولانا محمود مدنی کا کوئی تعزیتی بیان یا مراسلہ میری نظر سے نہیں گزرا، کیوں؟

(شکیل رشید ممبئی اردو نیوز کے ایڈیٹر ہیں۔)