فکر و نظر

آج کا ہندوستان 1938 کا جرمنی بن چکا ہے، یہ بار بار ثابت ہو رہا ہے

مظفر نگر کی معلمہ سے پوچھ سکتے ہیں کہ وہ طالبعلم کے لیے ‘محمڈن’ کی صفت کیوں استعمال کر رہی ہیں؟ وہ کہہ سکتی ہیں کہ ان کی ساری فکرمسلمان بچوں کی پڑھائی کے حوالے سے تھی۔ ممکن ہے کہ اس کااستعمال یہ پروپیگنڈہ کرنے کے لیےہو کہ مسلمان تعلیم کے معاملے میں سنجیدہ نہیں ہیں اور جب تک انہیں سزا نہیں دی جائے گی، وہ نہیں سدھریں گے۔

(السٹریشن : پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

(السٹریشن : پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

ایک مسلمان بچے کو اسی کی کلاس کے ہندو بچوں سے پٹوانے کے ویڈیوسے پیدا ہوئے ابتدائی صدمے کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے لوگ  اور ان کےحامی مظفر نگر کے  اسکول کے واقعہ کی ‘سیکولر’ تشریح میں لگ گئے ہیں۔

دینک جاگرن کی رپورٹ کے مطابق، ‘ویڈیو میں کرسی پر بیٹھی معلمہ  طالبعلم کے مذہب کو لے کر قابل اعتراض تبصرہ کر رہی ہیں۔ وہ پہلے ایک طالبعلم سے اس کے گال پر تھپڑ لگواتی ہیں۔ اس کے بعد وہ دو اور طالبعلموں کو بلا کرگال پر اور دوسرے سے پیٹھ پرپٹائی کراتی ہیں۔متاثرہ  طالبعلم کھڑا آنسو بہا رہا ہے، جبکہ اس کے قریب بیٹھا شخص ہنس رہا ہے۔’

انڈین ایکسپریس کے مطابق، کیمرے کے پیچھے کےآدمی سے معلمہ یہ کہتی سنی جاتی ہیں، ‘میں نے تو ڈکلیئر کر دیا، جتنے بھی محمڈن بچے ہیں، ان کے وہاں چلے جاؤ…’ کیمرے کے پیچھے والا شخص اس سے اتفاق کرتا معلوم ہوتا ہے۔

آگے رپورٹ  کے مطابق،  طالبعلم کو مارنے کے بعد جب ایک بچہ واپس اپنی جگہ پر بیٹھتا ہے تو تیاگی اس سے کہتی ہیں، ‘کیا تم مار رہے ہو؟ زور سے مارو نہ۔‘پھر وہ پوچھتی ہیں، ’چلو اور کس کا نمبر ہے۔‘جب وہ رونے لگتا ہے، تو وہ کہتی ہیں، ’اب کی بار کمر پر مارو… چلو… منھ پر مت مارو اب منھ لال ہو رہا ہے… کمرپر مارو سارے۔’

واضح ہے کہ معلمہ بچے کو قاعدے سے سزا دینا چاہتی ہیں تاکہ اسے یہ سبق یاد رہ جائے۔ سزا حقیقی ہونی چاہیے،علامتی نہیں۔

معلمہ  ہندو ہیں۔ یہ ان کا اپنا اسکول ہے۔ وہ جس بچے کوپٹوا رہی ہیں وہ مسلمان۔ پیٹنے والے بچے ہندو  ہی ہوں گے،یہ ہندی اخبار کا کہنا ہے۔ویڈیو کے نشر ہونے کے بعد پولیس حرکت میں آئی اور محکمہ تعلیم بھی۔

پولیس نے تحقیقات میں ابتدائی جانکاری میں معلمہ کابیان پیش کیا ہے۔ ایک افسر کے مطابق ابتدائی تفتیش میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ معلمہ یہ کہہ رہی تھیں کہ جن مسلمان بچوں کی مائیں ان کی پڑھائی پر توجہ نہیں دیتی ہیں، ان کی پڑھائی تباہ ہو جائے گی…’ افسر کے مطابق معلمہ کے قریب بیٹھے شخص نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے۔

معلمہ معذور ہیں۔ایک دلیل یہ دی جارہی ہے کہ بچے نے اپنا کام نہیں کیا تھا جس کی وجہ سے وہ اسے سزا دینا چاہتی تھیں۔ لیکن بیچاری معذور ہونے کی وجہ سے خود بچے کو مار نہیں سکتی تھی، اس لیے انہوں نے باقی بچوں سےوہ کروا یا جو وہ خود کرتیں۔ اس دلیل کے مطابق بچے کو مسلمان ہونے کی وجہ سے نہیں، بلکہ اسکول کا کام نہ کرنے کی سزا دی گئی۔

معلمہ کی جسمانی معذوری کو ذہن میں رکھنا چاہیے۔ ممکن ہے کہ معلمہ کو سزا دینے کے مطالبے کے خلاف ان کی معذوری کی مجبوری کو دلیل بنایا جائے۔ یہ بھی کہ وہ بالآخر بچے کی بھلائی کے لیےیہ ناپسندیدہ حرکت کرنے پر مجبور ہوئیں۔ ان کے ارادے کو دھیان میں رکھا جانا چاہیے۔

آپ پوچھ سکتے ہیں کہ وہ طالبعلم کے لیے ‘محمڈن’ کی صفت کیوں استعمال کر رہی ہیں؟ وہ کہہ سکتی ہیں کہ ان کی ساری فکر مسلمان بچوں کی تعلیم کے حوالے سے تھی کیونکہ وہ کام نہیں کر رہے تھے۔ اس لیے انہوں نے اس بات کا الگ سے ذکر کیا۔

یہ بھی بہت ممکن ہے کہ اس  بات کااستعمال پھر سے یہ پروپیگنڈہ کرنے کے لیےکیا جائے کہ مسلمان تعلیم کے معاملے میں سنجیدہ نہیں ہیں اور جب تک انہیں سزا نہ دی جائے ،  وہ  نہیں سدھریں گے۔

ہو سکتا ہے کہ ہمیں یہ بھی بتایا جائے کہ اپنے ہم جماعتوں کے ہاتھوں مار  کھانے کا تجربہ ہم سب کاہے۔ اساتذہ اکثر دوسرے بچوں سے  ان کے ہم جماعتوں کو پٹواتے ر ہے ہیں۔ ہمیں یاد ہے کہ پہلے اساتذہ کس طرح بینت کی چھلائی خود بچوں سے کرواتے تھے اور اسے انہیں کلاس کے دوسرے بچوں پر آزمانے کا کام ہم جماعتوں کو ہی دیا کرتے تھے۔ زور سے نہیں مارنے پر وہ اس بچے کو بینت لگا کر بتلاتے تھے کہ ٹھیک سے کیسے مارا جاتا ہے۔کتاب کے سبق سے زیادہ طالبعلموں کو وہ  سبق کو یاد رہ گیا ہے۔

یہ سب کچھ ہمیں بتایا جائے گا، ان کو ایک نیک نیت والی معلمہ ثابت کرنے کے لیے، جن کے ذہن میں صرف طالبعلم کی بھلائی کا خیال تھا۔ یہ ثابت کر دیا جائے گا کہ ان کو سزا دینے کا جو شوراٹھ رہا  ہے، وہ ‘ماب لنچنگ’ ہے اورمعلمہ کے ساتھ ناانصافی ہے۔ ممکن ہے ان کے حق میں کوئی مہم ہی  چلائی جائے۔

بچوں کے حقوق کے قومی کمیشن نے بچے کے ساتھ ہونے والی ناانصافی اور تشدد پر تشویش یا ناراضگی کا اظہار کرنے کے بجائے ان تمام لوگوں کو قانونی کارروائی کے لیے خبردار کیا ہے جو اس ویڈیو کونشرکر رہے ہیں۔ بہانہ یہ ہے کہ اس سے واقعہ میں شامل بچوں کی شناخت اجاگرہورہی ہے۔ حیرانی نہیں چاہیے  اگر ان سب کو قانونی نوٹس بھیجے جا رہے ہوں۔

اس واقعہ نے مسلمانوں کو ان کے اسکول کے تجربات کی یاد تازہ کر دی ہے۔ ان کے ہم جماعت کیسے ان کا مذاق اڑاتے تھے، ان کے مذہب کی وجہ سے ان کی توہین کرتے تھے، انہیں پاکستانی کہہ کرلعنت ملامت کیا کرتےتھے، یہ سب کچھ مسلمانوں کی ہر نسل کی یادداشت  میں عام سا تجربہ ہے۔ ان میں سے بہت سے کہہ رہے ہیں کہ ہم جماعت ضرورایسا کرتے تھے، لیکن اساتذہ ایسے نہیں تھے۔ لیکن کیا یہ سچ ہے؟

ایک طالبہ نے دہلی کے ایک ترقی پسند اسکول کا اپنا تجربہ بیان کیا۔ چھٹی جماعت میں ایک پکنک پر اس کی ٹیچر نے کہنا شروع کیا کہ مسلمان اس ہر چیز  کاالٹا کرتے ہیں جو ہندو کرتے ہیں۔ اس طالبہ نے بچکانہ معصومیت سے پوچھا کہ یہ بھی ممکن ہے کہ ہندو  ہی مسلمان جو کرتے ہیں، ان کا الٹا کرتے ہوں! جب میں نے خود اس بارے میں اسکول کی پرنسپل کو آگاہ کیا اور اپنی تشویش کا اظہار کیا تو انہوں نے لڑکی کے بیان کو سچ ماننے سے انکار کردیا۔

اب آپ 90 سال پہلے 8 نومبر 1938 کی برلن کی کلاس روم  میں چلیے۔ گلبرٹ اس کلاس میں ایک یہودی طالبعلم ہے۔ ٹیچر اسے بلا کر اس کے ہوم ورک کے لیے ڈانٹتا ہے اور اسے پچھلی بنچ پر بٹھا دیتا ہے۔ اسے پوری کلاس کے سامنے نشان نمایاں کیا جاتا ہے۔ اس کے سامنے ایک دوسرے آریائی بچے کی تعریف کی جاتی ہے۔

سال 2023 کا ہندوستان 1938 کا جرمنی ہے۔ یہ بار بار ثابت ہو رہا ہے۔ لیکن ایسا کہنے والے کو ہندوستان کو بدنام کرنے کے لیے جیل بھیجا جا سکتا ہے۔ جیل بھیجنے والے چاہتے وہی  ہیں، لیکن پتہ نہیں کس فریسٹریشن کی وجہ سے  خود کو فاشسٹ نہیں کہنا چاہتے۔

(اپوروا دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)