فکر و نظر

ایم – 20: جی– 20 رہنماؤں کوسمجھنا ہوگا کہ آزاد پریس کے بغیر عالمی مسائل کا حل ناممکن ہے

جی–20 اور اس سے باہر کے ممالک میں بھی میڈیا کو درپیش مشکلات اور خطرات کے باوجود، نہ ہی جی–20 سرکاروں کی – اور یقینی طور پر نہ ہی جی–20 کے موجودہ  صدر کی میڈیا کی آزادی پر بات کرنے میں کوئی دلچسپی ہے۔

(السٹریشن: دی وائر)

(السٹریشن: دی وائر)

(یہ متن 6 ستمبر 2023 کو دہلی میں ایم–20 آرگنائزنگ کمیٹی کے زیر اہتمام آن لائن منعقد کیے گئے میڈیا فریڈم سمٹ میں مصنف کے بیان کا جزوی طور پر ترمیم شدہ ورژن ہے،ایم–20 آرگنائزنگ کمیٹی میں ہندوستان کے 11 مدیران اور سپریم کورٹ کے ایک سابق جج شامل ہیں۔)

میں ایم–20 کے اس تاریخی اجلاس میں آپ تمام حضرات  کا استقبال کرتا ہوں-ایم–20، ایک ایسا گروپ جسے ہم نے آج اجتماعی طور پر اپنے ملکوں اور خطوں میں میڈیا کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے بنایا ہے۔

بین الاقوامی سیاست میں ایسا ہوتا رہتا ہے کہ کثیر الجہت ایسوسی ایشن وجود میں آتی ہیں اور ختم ہو جاتی ہیں یا بعض دفعہ عصری معنویت سے محروم ہونے کے باوجود قائم رہتی ہیں، یا اپنے ایجنڈے میں نئے معنی اور مقصد شامل کر کے زندہ رہتی ہیں۔ جی–20 2008 کے عالمی مالیاتی بحران کے بعد وجود میں آیا تھا اور اس کے نسبتاً من مانے طور پر منتخب اراکین نے سماجی، صنفی اور ماحولیاتی جیسےشعبوں میں اپنے تعاون کا دائرہ  بڑھانے کی کوشش کی ہے۔

جی–20 کی ہندوستان کی سربراہی اس گروپ کے ایجنڈے کو وسیع کرنے اور ‘گلوبل ساؤتھ’ کے نظریے کو زیادہ واضح طور پر پیش کرنےکی مثبت خواہش کی عکاسی کرتی ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی اُن بحث و مباحثے،جو اس طرح کے دائرہ کو وسیع کرنے کے لیےانتہائی ضروری ہوتے ہیں–پر پابندی عائد کرنےحتیٰ کہ ان پر قابو پانے کی سرکار کی خواہش بھی اس میں نظر آتی ہے۔

جب خواتین کے لیے ڈبلیو–20، سول سوسائٹی کے لیےسی–20، کاروباریوں کے لیے بی–20، موسمیاتی تبدیلی کے لیےسی–20 اور اسی طرح کی بیٹھکیں منعقد ہوئی ہیں۔ اگرچہ یہاں سرکاری قسم بحثیں ہوتی  ہیں، جہاں جی–20 کو ‘تماشہ’ بنانے کے مقصد سے شماریاتی نظریہ حاوی رہتا ہے – گویا ایک طرح سےسیاسی بیان دینے کی کوشش کی جا رہی ہے، بجائےاس پلیٹ فارم کی طرح  استعمال کرنے کے،جہاں ہمارے سامنے درپیش عام چیلنجز پر سنجیدگی سے اپنا جائزہ لیا جاسکے اور  بامعنی بحث کی جا سکے۔

جی–20 اور اس کے باہر کے ممالک میں بھی میڈیا کو درپیش اسی طرح کی مشکلات اور خطرات کے باوجود نہ ہی  جی–20 سرکاروں  میں سے کوئی— اور یقینی طور پر نہ ہی موجودہ صدر — میڈیا کی آزادی پر بحث کرنے میں خاص دلچسپی رکھتے ہیں۔ اور شاید یہ ٹھیک ہی ہو، کیونکہ پولرائزڈ سیاست اور پولرائزڈ میڈیا کے موجودہ ماحول میں کسی ایم–20 گروپ کو بنانے کے لیے ایسے  میڈیا گروپوں کو ساتھ لانا  مشکل ہوتا جو باقی میڈیا، جسے وہ ناپسند کرتے ہیں، کی پریس کی آزادی کے تحفظ کی  اہمیت کو نہیں سمجھتے ہیں۔

اس کے باوجود، ہم میں سے کچھ – ہندوستان میں میڈیا میں کام کر رہےبعض لوگوں کے دل میں یہ خیال آیا کہ  ہمیں خود آگے بڑھنا چاہیے اور جی–20کے اتحادیوں کو اکٹھا کرنا چاہیے تاکہ ہم آپس میں ان مسائل پر بات کر سکیں جن کا ہمیں سامنا ہے۔ اس کے ساتھ ہی، جی–20 کے رہنماؤں، جو جلد ہی اپنے جی–20 سربراہی اجلاس کے لیے اکٹھے ہوں گے، کویہ پیغام دے سکیں کہ اگر ان کے ملکوں میں میڈیا آزاد نہیں ہے، تووہ جن  مسائل کا حل تلاش کرنے کی توقع کر رہے ہیں، ان میں سے کسی کو  حل نہیں کیا جا سکتا ہے۔

تو ہمارے سامنےیہ چیلنجزکیا ہیں؟

سب سے پہلے جبر اور صحافت کو جرم قرار دینے کے لیے قانون کا غلط استعمال۔ اس کی مثال حال ہی میں کشمیر میں دیکھی گئی، جہاں ایک نیوز پورٹل – کشمیر والا، جس کےمدیر ایک سال سے زیادہ  سے جیل میں ہیں – کو من مانے طور پربند کر دیا گیا – اسی طرح  کنساس میں ‘میرین کاؤنٹی ریکارڈ‘ کے حوالے سے ایک  رپورٹ کے سلسلے میں  مقامی پولیس پارٹی نے چھاپہ مارا اور وہاں کے کمپیوٹر اور آلات ضبط کر لیے۔

روس اور چین جیسےاہم جی–20 ممالک میں آج آزاد میڈیا اداروں کے لیے کام کرنا تقریباًمحال ہے۔

جی–20 میں شامل کئی ممالک میں صحافیوں کو اسپائی ویئر کے ذریعے نگرانی کا نشانہ بنایاگیا ہے۔ امریکہ میں بھی وہسل بلوور پر مبنی تحقیقات کے بارے میں عدم برداشت میں اضافہ ہو رہاہے، جیسا کہ امریکہ کی جانب  سے جولین اسانج کے معاملے میں یا حال ہی یورپی یونین میں فن لینڈ میں ‘ہیلسنگن سنومات’ کے ایک مدیر کوقصوروار ٹھہرائے جانے کے معاملے میں دیکھا گیا۔

پھر، انتہائی دباؤ والا میڈیا بزنس ماڈل ایک الگ مسئلہ ہے۔ اس سے جڑا مسئلہ بگ ٹیک پلیٹ فارم اور گوگل، میٹا اور ٹوئٹر (ایکس) جیسے ثالثوں کی بڑھتی ہوئی طاقت بھی  ہے۔

فرضی خبریں اور پروپیگنڈہ ایک بڑھتی ہوئی بیماری کی طرح ہیں۔ٹکنالوجی کے محاذ پر ‘آرٹیفیشل انٹیلیجنس’ (اے آئی ) کا چیلنج بھی سامنے آ چکا ہے۔

ہمیں لگتا ہے کہ یہ وہ مسائل ہیں جن کےمتعلق ایم–20 کو سوچنے کی ضرورت ہے، اور مجھے امید ہے کہ آج کی چرچہ ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر درپیش رکاوٹوں کو دور کرنے کے بارے میں مزید سمجھ پیدا کرنے میں معاون ثابت  ہوگی۔

میں اس چرچہ  کے ورچوئل میڈیم میں ہونے کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ شروع میں ہم نے سوچا تھا کہ جی–20 سربراہی اجلاس سے قبل ایک روزہ آف لائن تقریب کا اہتمام کریں گے، لیکن اقتصادی وجوہات اور صحافیوں اور بین الاقوامی کانفرنسوں کے لیے ہندوستان کی ویزا پالیسی اس میں مانع رہی۔ (غیر ملکی شرکاء کے ساتھ تقریبات کے لیے حکومتی اجازت لازمی ہے۔) اس کے علاوہ،  گزشتہ دنوں جی–20 جیسی کانفرنسوں کے لیے حکومت کی عدم رواداری کا مشاہدہ بھی کیا جا چکا ہے، جب سماجی کارکنوں اور تنظیموں کی جانب سے ‘وی–20’ تقریبات  کودہلی پولیس نے روکنے کی کوشش کی تھی۔

حتیٰ کہ آن لائن ایونٹس کو بھی روکا جا سکتاہے، یہی وجہ تھی کہ آخری وقت تک ایم–20 کی اس  میٹنگ کے بارے میں جانکاری  عام نہیں کی گئی۔

ہمیں امید ہے کہ ایم–20 کی کارروائی آج  کے بعد بھی جاری رہے گی، اور ہمارا ساتھی برازیل، جو اگلے سال جی–20 کی صدارت کی ذمہ داری سنبھالے گا،وہ  2024 میں اس طرح کے ایم–20 کے انعقاد کی ذمہ داری اٹھائے گا۔

(دی وائر کے بانی مدیر سدھارتھ وردراجن،  ہندوستان میں ایم–20 آرگنائزنگ کمیٹی کے کنوینر ہیں۔)

جن مدیران نے ایم–20 میڈیا فریڈم سمٹ میں شرکت کی ان کے اسمائے گرامی اس طرح ہیں؛

Names

 (انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)