فکر و نظر

اُدے ندھی اسٹالن پر حملہ کر کے بی جے پی اپنے لیے مصیبت مول لے رہی ہے

انیسویں صدی میں آریہ سماج اور برہمو سماج جیسی اصلاح پسند تنظیموں کے خلاف تحریک کے دوران ہندو قدامت پسندوں (آرتھوڈاکسی) نے اس وقت سناتن دھرم کے تصور کو تشکیل دینےکا کام کیا تھا، جب ان اصلاح پسند تنظیموں نے ستی پرتھا، مورتی پوجا اور بچوں کی شادی  جیسے رجعت پسندانہ رسم و رواج  پر سوال اٹھائے تھے۔

اُدے ندھی اسٹالن۔ (تصویر بہ شکریہ: Twitter/@Udhaystalin)

اُدے ندھی اسٹالن۔ (تصویر بہ شکریہ: Twitter/@Udhaystalin)

نئی دہلی: تمل ناڈو کے اسپورٹس اور یوتھ ڈیولپمنٹ کے وزیر اور دراوڑ منیترا کزگم (ڈی ایم کے) کےلیڈر اُدے ندھی اسٹالن کے سناتن دھرم پر کیے گئے تبصرے نے سیاسی ہنگامہ برپا کر دیا ہے۔ سناتن دھرم پر اسٹالن کی تنقید کے بعد حکمراں بی جے پی کے کئی سینئر لیڈروں نے دعویٰ کیا کہ دراوڑ لیڈر نے ‘ہندوؤں’ کے قتل عام کی اپیل کی ہے۔

لیکن اگر ہم دیکھیں تو اس سیاسی جنگ کی جڑیں جہاں  ایک طرف  ہندوتوا اور سماجی انصاف کے مفکرین کے درمیان پرانی نظریاتی کشمکش میں پیوست ہیں، وہیں دوسری طرف ہندو قدامت پسندوں (آرتھوڈاکسی) اور 19ویں صدی کےسماجی مصلحین کے درمیان تاریخی اختلافات  بھی ہیں۔

گزشتہ 2 ستمبر کو تمل ناڈو پروگریسو رائٹرز اینڈآرٹسٹ ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام سناتن دھرم کے تصور پر بحث وتمحیص کے لیے ‘سناتن اوزیپو ماناڈو’ (سناتن خاتمہ کانفرنس) کے عنوان سے منعقدہ کانفرنس میں اُدے ندھی اسٹالن نے کہا، ‘میں منتظمین کو کانفرنس کا عنوان سناتن دھرم کی مخالفت کے بجائے سناتن دھرم کا خاتمہ ‘ رکھنے کے لیے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

انہوں نے آگے بڑھ کر کہا، ‘کچھ چیزیں ایسی ہیں، جنہیں ہمیں مٹانا ہے۔ ہم ان کی مخالفت محض نہیں کر سکتے۔ مچھر، ڈینگو، کورونا اور ملیریا ایسی چیزیں ہیں،جن کی ہم صرف مخالفت نہیں کر سکتے۔ ہمیں ان کا خاتمہ کرنا ہے۔ سناتن بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ صرف مخالفت کرنا نہیں، سناتن کا خاتمہ ہی  ہمارا اولین مقصد ہونا چاہیے۔’

پوری بی جے پی اس بیان کے خلاف میدان میں اتر آئی اور اس کے آئی ٹی سیل چیف  امت مالویہ نے اُدے ندھی کے بیان کو سناتنیوں، جو  کہ ان کے مطابق ‘ہندوستان کی 80 فیصد آبادی’ ہیں کے ‘قتل عام  کی اپیل‘سے تعبیر کیا۔

راجستھان میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے اس معاملے پر اپوزیشن کے ‘انڈیا’ اتحاد کو چیلنج کیا۔

شاہ نے کہا، ‘ایک وزیر اعلیٰ کے بیٹے (وہ اُدے ندھی کا حوالہ دے رہے تھے، جو تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن کے بیٹے بھی ہیں) سناتن دھرم کے خاتمے کی بات کر رہے ہیں…ان لوگوں نے ووٹ بینک اور اپیزمینٹ کی سیاست کے لیے سناتن دھرم کے خاتمے کی اپیل کی  ہے۔ یہ ہماری ثقافت، تاریخ اور سناتن دھرم کی توہین ہے۔’

ڈی ایم کے لیڈر نے جلد ہی اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ان کے بیان کو ‘توڑ مروڑ’ کر پیش کیا جا رہا ہے۔

اُدے ندھی نے کہا، ‘میں نے سناتن دھرم کی پیروی کرنے والے لوگوں کےقتل عام کے بارے میں کبھی بات نہیں کی۔ سناتن دھرم ایک ضابطہ ہے، جو لوگوں کو ذات پات اور مذہب کے نام پرتقسیم کرتا ہے۔ سناتن دھرم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا انسانیت اور انسانوں کے درمیان اتحاد قائم کرنے کے مترادف ہے۔’

ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘میں کسی بھی چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہوں۔ چاہےقانون کی  عدالت میں ہو یا عوام کی عدالت میں۔ فیک  نیوز پھیلانا بند کیجیے’۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے سناتن دھرم کو ‘بہت سی برائیوں کے لیے ذمہ دار’ قرار دیا۔

دراصل تمل ناڈو کے وزیر نے اسی تقریر میں جس پر بی جے پی حملہ آور ہے،سناتن دھرم کو ایک مفصل نظریاتی چیلنج دیا تھا۔

اُدے ندھی نے کہا، ‘ سناتنم کیا ہے؟ یہ نام سنسکرت سے مستعارہے۔ سناتن مساوات اور سماجی انصاف کے خلاف ہے، اس  کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔ سناتن کا کیا مطلب ہے؟ یہ مطلق  ہے، یعنی اسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ اس پر کوئی سوال نہیں کر سکتا۔ یہی اس کا مفہوم ہے۔’

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا، ‘ سناتن نے عورتوں کے ساتھ کیا کیا؟ اس نے عورتوں کو ان کے شوہروں کی موت کے بعد آگ کے حوالے کر دیا (ستی پرتھا)، اس نے بیواؤں کے سر منڈوائے اور انہیں سفید ساڑی پہننے پر مجبور کیا۔ بچوں کی شادیاں بھی ہوتی رہیں۔’

اُدے ندھی نے سناتن کی شدت پسندی کا موازنہ دراوڑی نظریے سے کیا، جسے انہوں نے مساوات اور بھائی چارے کا داعی قرار دیا۔

اُدے ندھی نے مزید کہا، ‘ہمارے کلائگنار(پارٹی کے آنجہانی رہنما ایم کروناندھی) ایک قانون لائے ، جس کے ذریعے تمام ذات کے لوگوں کو مندر کے پجاری بننے کا حق دیا گیا، ہمارے وزیر اعلیٰ (سٹالن) نےاس کے لیے تربیت مکمل کرنے والے لوگوں کو مندر کے پجاری کے طور پرمقرر کیا ہے؛یہ دراوڑی ماڈل ہے۔’

انہوں نے مزید کہا، ‘دراوڑم (ڈی ایم کے کا نظریہ) نے کیا کیا، اس نے خواتین کو بسوں میں مفت سفر کرنے کی سہولت دی، اس نے کالج کی تعلیم کے لیے لڑکیوں کو 1000 روپے کی ماہانہ امداد دی۔’

اس زبانی جنگ میں اُدے ندھی نہ صرف اپنے موقف پر قائم ہیں  بلکہ سناتن دھرم اور اس کی کتابوں میں درج مبینہ امتیازی سلوک پر بھی اپنے حملے کو شدیدکر دیے۔ اگرچہ یہ معاملہ ایک اور پولرائزنگ کا معاملہ بن گیا ہے، لیکن بی جے پی کی ہندو قوم پرست سیاست اور دراوڑی نظریہ کے درمیان اختلاف کی ایک قدیم  تاریخ ہے۔

سناتن پر امبیڈکر اور ہندوتوادیوں کے نظریات متضاد ہیں

سناتن دھرم کو ہندوستان میں ذات پات کے نظام کو متعارف کرانے کا سہرا دیا جاتا ہے، جو کمیونٹیز (ذات) کے فرائض، پیشے اور کردار کو تقسیم کرتا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ سناتن کے رسوم ورواج ابدی قوانین کے بارے میں بات کرتے ہیں، لیکن حقیقت میں اس نے امتیازی کاسٹ سسٹم کو ادارہ جاتی  بنا دیا ہے اور ہندو سماج میں برہمنی غلبہ کو برقرار رکھا ہے۔

ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کے مطابق، سناتن ‘قدامت پسنداور انتہا پسند ہندو  دھرم  کا قدیم نام ہے۔’ 1943 میں انھوں نے لکھا، ‘یہودیوں کے خلاف نازیوں کی سامی مخالفت ،نظریات کے معاملے میں اچھوتوں کے خلاف ہندوؤں کے سناتن دھرم سے کسی بھی طرح سے مختلف نہیں ہے۔

حالیہ دنوں میں ہندوتوا تنظیموں نے سناتن دھرم کا استعمال ہندو پہچان کی  معیاری بندی  کے لیے کیا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے وہ اکثر ملک بھر میں مذہبی رسومات کے تنوع کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ فطری طور پر ذات مخالف تنظیموں نے ہندوتوا طاقتوں کی اس طرح کی معیار بندی کی مخالفت کی ہے، اور اس کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ  جدید دور میں  یہ ذات پات کو استحکام بخشنے کا کام کر رہا ہے۔

بھلے ہی بی جے پی نے اُدے ندھی کے تبصروں کی تشریح اپنے سیاسی فائدے کے لیے کی ہو، لیکن ایسا کرتے ہوئے اس نے مصیبت کی گھٹری  میں بھی ہاتھ ڈال  دیا ہے۔ عرصہ دراز تک  برہمن—بنیا کی پارٹی کہی جانے والی بھارتیہ جنتا پارٹی وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں اس شبیہ سے نجات پانے کی شعوری کوشش کر رہی ہے۔

تاریخی طور پر ہندوتوا اور ذات پات مخالف سیاست ایک دوسرے کے خلاف رہی ہے۔ ہندوتوا کے فطری طور پر برہمنی اور امتیازی ہونے کے تصور نے دراوڑ، امبیڈکرائٹ اور منڈل پارٹیوں کو بھگوا چھتری سے دور رکھا تھا۔

لیکن مودی نے قوم پرستی اور’ وکاس’ کے اردگرد ایک سیاسی بیانیہ تشکیل دیا،  جو ان تضادات پر پردہ ڈال سکتا ہے۔ مودی کی قیادت میں بی جے پی نے اس بات کا خیال رکھا ہے کہ وہ سیاسی دائرے  میں ان تضادات سے متصادم نہ ہوں۔ یہ  ہندوتوا کو مقبول بنانے کے لیے کسی بھی چیز سے زیادہ مسلم مخالف جذبات کو بھڑکانے پر زیادہ بھروسہ کرتی رہی  ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ حالیہ انتخابات میں بی جے پی کی جیت کا سہرا— او بی سی اور دلت برادریوں کے ایک بڑے طبقے، جن کے لیے ذات پات کی تفریق ایک زندہ حقیقت ہے، کو اپنی طرف راغب کرنے میں اس کی کامیابی کو دیا جاتا ہے ۔ اب، جس طرح سے بی جے پی سناتن دھرم میں موجود ذات پات کے نظام کے خلاف تبصرہ کرنے پر اُدے ندھی پر حملہ آور ہے، اس سے نادانستہ طور پر سماجی انصاف کی سیاست کو اہمیت مل سکتی ہے، جس نے ماضی میں اسے کئی بار شکست دی ہے۔

اسی امکان کے پیش نظر بی جے پی لیڈروں کے مسلسل حملوں کے باوجود اُدے ندھی نے اپنے بیان  سے پیچھے ہٹنے سے انکار کر دیا ہے۔ اس پس منظر میں سب سے دلچسپ ردعمل تمل ناڈو بی جے پی کے صدر کے انامالائی کاہے۔ مالویہ اور شاہ کے برعکس، انامالائی اُدے ندھی پر اپنے حملے میں محتاط تھے اور اپنے الفاظ کو احتیاط سے استعمال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ڈی ایم کے لیڈر نے سناتن دھرم کی ‘غلط تشریح’ کی ہے اور یہ اتنا امتیازی نہیں ہے، جتنا  وہ بتا رہے ہیں۔

انامالائی نے سناتن دھرم کا دفاع کرتے ہوئےاسے ‘مساوات ‘ کا حامی  کہا۔ ایسا کرتے ہوئے وہ واضح طور پر جنوبی ریاستوں میں سناتن دھرم اور برہمنی غلبہ کے درمیان سمجھی جانے والی برابری کو زیادہ طول دینے سےبچنا  چاہتے تھے۔ انہوں نے بی جے پی کے قومی لیڈروں کے برعکس اُدے ندھی کے تبصروں کوقتل عام کی اپیل قرار نہیں دیا۔

بی جے پی تمل ناڈو میں اپنی بنیاد کو بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے اور اس کے ریاستی صدر کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ہندوتوا پر بہت زیادہ زور اس کے امکانات کو متاثر کر سکتا ہے۔

اس کے علاوہ انیسویں صدی میں آریہ سماج اور برہمو سماج جیسی اصلاح پسند تنظیموں کے خلاف تحریک کے دوران ہندو قدامت پسندوں (آرتھوڈاکسی) نے اس وقت سناتن دھرم کے تصور کو تشکیل دینےکا کام کیا تھا، جب ان اصلاح پسند تنظیموں نے ستی پرتھا، بت پرستی اور بچوں کی شادی  جیسے رجعت پسندانہ رسم و رواج  پر سوال اٹھائے تھے۔

ہندو قدامت پسندوں نے اصلاح پسند تنظیموں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکنے کے لیے بھارت دھرم مہامنڈل، سناتن دھرم راکشنی سبھا اور لاہور سناتن دھرم سبھا جیسی تنظیمیں بنائیں۔ ان تنظیموں نے زیادہ تر سناتن دھرم کے اصولوں کے مطابق ہندو شناخت کو ہم آہنگ—حتیٰ کہ اس کی معیاربندی —کی کوشش کی۔

بی جے پی اور آر ایس ایس نے شروع سے ہی ان  کو اپنےرہنما کے طور پر دیکھا ہے اور او بی سی اور دلت برادریوں کے اندر سیاسی دخل بڑھانے کی مودی اور شاہ کی کوششوں کے باوجود موجودہ دور میں ہندو رسومات کی ان کی وکالت اور 19ویں صدی کے ہندوؤں  قدامت پسندوں  کی کوششوں کے درمیان مماثلت دیکھی جا سکتی ہے۔

آریہ سماج اور رادھا سوامی اور یہاں تک کہ رام کرشن مشن جیسی اصلاح پسند تنظیمیں اپنی 19ویں صدی کی تاریخ سے آگے نکل کر نئی شکلوں میں تیار ہوچکی ہیں۔ قدامت پسندوں اور ان گروپوں کے درمیان اختلافات حالیہ برسوں میں ختم  ہوتے گئے ہیں، اور ان میں سے بہت سی تنظیمیں خود کو کسی بھی دوسری پارٹی کے مقابلے بی جے پی کے زیادہ قریب پاتی ہیں۔

لیکن پھر بھی، اگر بی جے پی سناتن دھرم پر زور دے کر ہندو شناخت کی معیاری بندی پر اصرار کرتی ہے، تو ان دونوں کے درمیان تاریخی اختلافات ایک بار پھرسے عیاں ہو سکتے ہیں۔

اسی طرح 19ویں صدی کے سوامی وویکانند اور نارائنا گرو جیسے سماجی مصلحین-جن دونوں  کے نام کا تذکرہ سنگھ پریوار نے بار بار ہندو دھرم  کے مبلغ کے طورپر کیاہے-نے سناتن مت کے  ذات پات کے نظام کی جارحانہ انداز میں تنقید کی ہے—اُدے ندھی نے بھی ٹھیک اسی حوالے سے سناتن دھرم کی تنقید کی ہے۔

حال ہی میں منظر عام پر آئی  کتاب ویویکانند: دی فلاسفر آف فریڈم کے مصنف گووند کرشنن وی نے دی وائر سے بات کرتے ہوئےکہا، ‘وویکانند نے کھشتریوں اور برہمنوں کے ہاتھوں  نام نہاد نچلی ذاتوں کے سماجی اور معاشی جبر کو دنیا کی اہم تہذیبوں میں سے ایک کی کرسی سے ہندوستان کے زوال کی بنیادی وجہ مانا۔ مغرب سے ہندوستان واپس آنے کے بعد جنوبی ہندوستان میں کی گئی تقریروں کی ایک سیریز میں وویکانند نے  ذات پات کے تمام مراعات اور چھواچھوت کو ختم کرنے کی اپیل کی تھی۔’

انہوں نے مزید کہا، ’اس کا ذات پات کے خلاف پہلی غیر جماعتی عوامی تحریک – کیرالہ کے ازہوا تحریک پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ ذات کے حوالے سے نارائن گرو اور وویکانند کے خیالات میں کافی مماثلت ہے، خاص طور پر اس لیے کہ یہ  دونوں ویدانتی تھے۔ وویکانند کا خیال تھا کہ آخر کار ہندوستان میں ذات پات ناپید ہو جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ذات پات کی تفریق ہندوستان کی ترقی کی راہ میں ایک رکاوٹ ہے اور یہ بالآخر جمہوری نظریات کے پھیلاؤ کے ساتھ ختم ہو جائے گی۔’

لیکن حقیقت میں، ذات پات ختم ہونے کے بجائے آج کے ہندوستانی سماج اور سیاست میں اندر تک پیوست ہیں۔ اُدے ندھی کے تبصرے نےآگے بڑھتے ہوئے اس اہم مسئلے کو دوبارہ مرکز یت عطا کر دی ہے، جو ظلم، تشدد اور محرومی کا ایک تاریخی سبب رہا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ دراوڑ لیڈر پر بی جے پی کے حملہ آور موقف کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے اسی سناتن خاتمہ  سمیلن میں ہندوستان  کی آزادی کی جدوجہد میں آر ایس ایس کے کردارپر مبنی  ایک کتاب کا رسم اجرا کیا تھا۔

اس کتاب کے سرورق پر گاندھی کے قتل اور جوتے چاٹ رہے ایک شخص کی کی تصویر ہے۔ اس کتاب کے اندر کے صفحات مکمل طور پر خالی تھے، جن پر اُدے ندھی نے تین بڑے زیرو بناتے ہوئے  انگریزوں کے خلاف ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد میں آر ایس ایس کے کردار کی جانب اشارہ کیا۔

گجرات میں سناتن دھرم کے پرچار کرنے والوں اور اس کے مخالفین کے درمیان پھوٹ تصادم تک پہنچ گئی، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مودی کی آبائی ریاست-  جو ہندوتوا کی تجربہ گاہ ہے – میں بھی لڑائیاں ختم نہیں ہوئی ہیں۔ خبروں کے مطابق سوامی نارائن فرقے کی جانب سے سالنگ پور میں ہنومان کے سب سے اونچے مجسمے کی بنیادمیں بنائی گئی پینٹنگ پر تنازعہ بڑھتا جا رہا ہے اور میڈیا کے اس مقام پر جانے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔

ایسے میں جبکہ بی جے پی امبیڈکر کو بھگوا رنگ دینے کی کوشش کر رہی ہے اور دلت سیاست کے اپنے ورژن کو ایک طرف دھکیلنے کی کوشش کر رہی ہے تو یہ مسئلہ بی جے پی کے لیے مزید پریشانی کا باعث بن سکتا ہے۔ کرناٹک کے لنگایت، جو کہ بی جے پی کی حمایت کرنے والی سب سے بااثر برادریوں میں سے ایک ہے، اس معاملے پر ایک پیچیدہ نظریہ رکھتے ہیں۔

جب اسےاو بی سی کی ذیلی زمرہ بندی سے متعلق روہنی کمیشن کی رپورٹ  جمع کرنے اور سپریم کورٹ میں بہار کی ذات پر مبنی  مردم شماری پر مودی حکومت کے یو ٹرن کے ساتھ جوڑتے ہیں ، تویہ ایک ایسے مسئلے کے طور پر ابھرتا ہے جس کے ہندوستان کی انتخابی تاریخ پرنمایاں  اثرات  مرتب ہو سکتے ہیں۔

بغیر سوچے سمجھے اُدے ندھی اسٹالن پر حملہ کرکے بی جے پی نے نہ صرف تمل ناڈو کی سیاست میں حاشیہ پر جانے کا خطرہ مول  لے لیا ہے ،بلکہ اس سے وہ  ملک کے باقی حصوں میں بھی کئی جال میں پھنس سکتی ہے۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)