ادبستان

مائی نیم از سیلما: یہ صرف اس یہودی خاتون کی داستان بھر نہیں ہے …

سال2021 میں 98 سال کی عمر میں ایک یہودی خاتون سیلما نے اپنے نام کو سرنامہ بناکر کتاب تحریر کی اور جرمنی اور یورپ میں 1933 سے 1945 کے درمیان یہودیوں کے حالات کو قلمبند کیا۔ ہزاروں کلومیٹر اور کئی دہائیوں کی مسافت کے باوجود یہ کتاب 2023 کے ہندوستان میں کسی نامانوس دنیا کی سرگزشت نہیں لگتی۔

(تصویر بہ شکریہ: Simon & Schuster)

(تصویر بہ شکریہ: Simon & Schuster)

اٹھانوے سال کی عمر میں یہودی خاتون سیلما وین ڈی پیری نے 2021 میں اسی نام سے اپنی یادداشت تحریر کی تھی۔ اس کتاب میں ہٹلر کے دورحکومت میں 1933 سے 1945 کے درمیان جرمنی اور یورپ میں یہودیوں کی حالت زار کاگرافک السٹریشن پیش کیا گیا ہے۔

نیدرلینڈ کے ایک متوسط یہودی گھرانے میں پیدا ہونے والی سیلماجرمن سیاست کے ہنگاموں سے بے خبر عام  زندگی بسر کر رہی تھیں ۔ 1933 میں جرمنی میں ہٹلر کے اقتدار میں آتے ہی یہودیوں پر ظلم و ستم کی خبریں نیدر لینڈ کے یہودیوں کےدرمیان بھی  پہنچنے لگی تھیں۔ایسے میں سیلما کے والدین اور رشتہ دار بھی فکرمند تھے۔ لیکن پھر خود کو یہ باور کراتے ہوئے کہ یہ توجرمنی میں ہو رہا ہے، وہ اپنی ‘نارمل’ زندگی بسر کرنے لگے تھے۔

پھر اچانک 1941 میں ہٹلر نے نیدرلینڈ پر حملہ کر دیا اور ایک لمحے میں سب کچھ بڑی سرعت سے بدلنے لگا۔ ہٹلر کا پہلا فرمان یہ آیا کہ یہودیوں کے بچے اب ‘آریائی نسل’ کے بچوں کے ساتھ تعلیم حاصل نہیں کریں گے۔ یہودیوں کو لگا کہ شاید اس کے بعد حالات معمول پر آجائیں گے۔ چند مہینوں میں ہی ہٹلر کا دوسرا فرمان آیا کہ یہودی پبلک ٹرانسپورٹ استعمال نہیں کر سکیں گے۔ ایک ہی لمحے میں یہودیوں کو کئی کلومیٹر پیدل سفرکے لیے مجبور ہونا پڑا۔

سیلما کو بھی اپنی پڑھائی اور روزگار کے لیے سڑکوں پر پیدل ہی کلومیٹرکلومیٹر چلنےکو مجبور ہونا پڑا۔ یہودی سوچنے لگے کہ اب اس سے زیادہ کیا ہوگا۔ چلو یہ بھی برداشت کر لیتے ہیں۔ پھر ہٹلر کا تیسرافرمان آیا کہ یہودیوں کو ‘اسٹار آف ڈیوڈ’ پہن کر سڑکوں پر نکلنا ہو گا تاکہ ان کی یہودی شناخت کو یقینی بنایا جا سکے۔

اور اس کے بعد وہ وقت آیا جس سے ہم سب واقف ہیں۔ یعنی یہودیوں/کمیونسٹوں اور ہٹلر کے مخالفین کو پکڑ پکڑ کر ‘ٹارچر کیمپوں’ میں بند کرنا اور پھر انہیں بدنام زمانہ ‘آش ویگ گیس چیمبر’ میں لے جا کر قتل کرنا۔ سیلما اس کواس طرح قلمبندکرتی ہیں—

‘میں یہاں لندن میں خاموش بیٹھی 1940 میں کھینچی گئی  فیملی البم  کو نہار رہی ہوں۔ یہ میری ماں، میری چھوٹی بہن اور میں ہوں۔ ہم ایمسٹرڈیم میں آنٹی سارہ کے باغیچے میں آرام فرما رہے ہیں۔ اس وقت یہ میرے لیے سب سے سکون بخش جگہ تھی۔ فیملی کے ساتھ گزارےلمحوں کی ایک مثالی تصویر: محبت، سلامتی، سکون اور ہر چیز جس کی توقع ہو۔ ہمارے چہروں پر اس بات کےکوئی آثار نہیں تھی کہ اگلے تین سالوں میں کیا ہونے والا ہے۔ لیکن انہی تین سالوں میں میری والدہ، والد اور چھوٹی بہن کلارا کا انتقال ہو گیا۔ مزید برآں، میری دادی،آنٹی  سارہ، ان کے شوہر ایری اور ان کے دو بچے اور بہت سے دوست اور خاندان کے افراد بھی مارے گئے۔

ان میں سے کوئی بھی موت قدرتی یا حادثے کی وجہ سے نہیں ہوئی تھی۔ یہ اس بربریت کا نتیجہ تھی جس نے اس وقت یورپ کے بیشتر حصے کو اپنی گرفت میں لےلیا تھا اور جب یہ ہماری فیملی فوٹولی گئی تھی۔ اس بربریت کا قہر اب نیدرلینڈ پر نازل ہی ہونے والا تھا۔ اس تباہی سے پہلے ہم یہ بالکل نہیں سمجھ سکتے تھے کہ ایک نارمل  زندگی بسر کرناکسی کے لیے  کس قدرمراعات کی بات ہو سکتی ہے۔ میرے لیے یہ یقین کرنا اب بھی بہت مشکل ہے کہ جو لوگ بغیر کوئی نقش چھوڑےاپنی زندگی گزار دینے والے تھے،ان  سب کے نام  آج یادگاروں پرنقش ہیں، کیونکہ وہ دنیا کی سب سے منظم نسل کشی کا شکار ہوئے۔’

سیلما بالآخر نیدرلینڈز میں انڈرگراؤنڈ مزاحمتی دستے کا حصہ بن جاتی ہیں، جہاں ان کا بنیادی کام ‘کوریئر’ کاہوتا ہے، کیونکہ وہ ‘یہودی’ جیسی نہیں لگتیں۔ سیلما نے کورئیر کے طور پر انتہائی خطرناک کام انجام دیا اور بہت سے کمیونسٹوں اور یہودیوں کی جان بچائی۔ لیکن آخر کار انہیں گرفتار کر لیا گیا اورانہیں  عورتوں کے لیےبنے ایک حراستی کیمپ ریوینس بروک میں رکھا گیا۔ ہٹلر کی موت کے بعد ہی وہ یہاں سے آزاد ہو سکیں اور تبھی انہیں یہ  جانکاہ اطلاع ملی کہ ان  کے خاندان یعنی ماں، باپ، چھوٹی بہن اور دیگر افراد کو گیس چیمبر میں بے رحمی سےقتل کر دیا گیا۔

سیلما نے ‘ریوینس بروک’ حراستی کیمپ کی بھی بہت واضح تصویر کشی کی ہے۔ جہاں ایک طرف جہنم  جیسی  زندگی ہے، تو دوسری طرف بہناپا (سسٹرہڈ) اور مزاحمت بھی ہے۔ سیلما نے بہناپے کا بہت اچھا نام ‘کیمپ سسٹر’ رکھا ہے۔ یہاں بھی سیلما اور دیگر خواتین کی مزاحمت جاری رہتی ہے۔ پوچھ گچھ کے دوران جرمن زبان اچھی طرح جاننے کے باوجود وہ کہتی ہیں کہ وہ جرمن زبان نہیں جانتی ہیں۔ لہذا ان کے لیے ترجمان کا انتظام کرنا  پڑتا ہے۔ جب انہیں فوج کے لیے ماسک بنانے کےکارخانے میں لگایا جاتا ہے ، تو وہ پیچ کو جان بوجھ ک تھوڑا ڈھیلا چھوڑ دیتی ہیں، تاکہ وہ  میدان جنگ میں کام نہ آ سکے۔

سیلمایہاں بھی ایک اہم جانکاری دیتی ہیں۔ اس ٹارچر کیمپ میں جو لیبر کیمپ تھا، وہاں مشہور جرمن کمپنی ‘سیمنز’ کے لیے کام ہوتا تھا۔ اسی طرح مشہور ’فلپس‘کمپنی کے لیےبھی لیبر کیمپ بنائے گئے تھے۔ اسی وجہ سے ہٹلر کو ان سرمایہ داروں کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ اس موضوع پر ڈیوڈ ڈی یونگ نے اپنی کتاب ‘نازی بلینیئر‘ میں تفصیل سے لکھا ہے۔

آج کے دور کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کتاب کو پڑھنے کی اشد ضرورت ہے۔ اور تب ہی ہم سمجھ سکتے ہیں کہ یہ صرف ‘سیلما’ کی داستان نہیں، ہم سب کی کہانی ہے۔

یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ جس دن (5 ستمبر 2023) میرے گھر پر این آئی اے کا چھاپہ پڑا،اس سے پچھلی  رات میں یہی کتاب پڑھ رہا تھا اور میرے خواب میں’ایس ایس’ [نازی پارٹی کا مسلح دستہ] کے بوٹوں کی آواز گونج رہی تھی۔

(منیش آزاد سماجی و سیاسی کارکن اور مصنف ہیں۔)