خبریں

ہریانہ: نوح فرقہ وارانہ تشدد معاملے میں کانگریس ایم ایل اے مامن خان گرفتار

فیروز پورجھرکا کے کانگریس ایم ایل اے مامن خان نے گرفتاری سے تحفظ کا مطالبہ کرتے ہوئے  12 ستمبر کو پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا ۔ انہوں نے کہا ہے کہ انہیں اس معاملے  میں جھوٹا پھنسایا جا رہا ہے، کیونکہ جس دن تشدد برپا ہوا وہ نوح میں تھے ہی نہیں۔

مامن خان۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

مامن خان۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

نئی دہلی: نوح فرقہ وارانہ تشدد معاملے میں کانگریس ایم ایل اے مامن خان کو ہریانہ پولیس نے جمعہ (15 ستمبر) کی صبح گرفتار کرلیا ہے۔ اس سے ایک دن پہلے ریاستی حکومت نے پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کو بتایا تھا کہ اس نے 31 جولائی کو نوح میں ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد سے متعلق ایک معاملے میں درج ایف آئی آر میں انہیں ملزم کے طور پر نامزد کیا ہے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، خان کو ہریانہ پولس کی ایس آئی ٹی نے گرفتار کیا ہے۔ انہیں جمعہ کو دن میں  نوح ڈسٹرکٹ کورٹ میں پیش کیا جائے گا۔ پولیس پوچھ گچھ کے لیے عدالت سے ان  کی حراست  کا مطالبہ کرے گی۔

مامن نے کہا ہے کہ انہیں اس کیس میں جھوٹا پھنسایا جا رہا ہے، کیونکہ جس دن تشدد ہوا وہ نوح میں تھے ہی  نہیں۔

فیروز پور جھرکا کے ایم ایل اے خان نے گرفتاری سے تحفظ کا مطالبہ کرتے ہوئے منگل (12 ستمبر) کو پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ انڈیا ٹوڈے کی رپورٹ کے مطابق کیس کی سماعت 19 اکتوبر کو مقرر کی گئی ہے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، مامن خان کو لے کرہریانہ حکومت نے جمعرات (14 ستمبر) کو ہائی کورٹ کو مطلع کیا تھا کہ نوح ضلع  کے تھانہ نگینہ میں عزیرات ہند (آئی پی سی) کی دفعہ 148، 149، 153اے، 379اے، 436 506 کے تحت ایک اگست 2023 کو درج ایف آئی آر نمبر 149 میں کل 52 ملزمین ہیں جن میں سے 42 افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

حکومت کے مطابق، ایف آئی آر میں توفیق نامی ملزم کو  9 اگست کوگرفتار کیا گیا تھا۔ توفیق نے اس کیس میں مامن خان کو ایک ملزم کے طور پرنامزد کیا تھا۔ اس کے بعد توفیق اور مامن خان کے موبائل فون اور ٹاور لوکیشن سے کال ڈیٹیل کی جانچ کی گئی تو پتہ چلا کہ 31 جولائی کو نوح میں تشدد شروع ہونے سے پہلے 29 اور 30 جولائی کو دونوں کے درمیان فون پر بات ہوئی تھی۔

اس کے مطابق، ٹاور کی لوکیشن کی لحاظ سے مامن خان 29 اور 30 جولائی کو جائے وقوعہ سے 1.5 کلومیٹر کے علاقے میں موجود تھے اور اس طرح عرضی میں یہ دعویٰ درست نہیں کہ وہ جائے وقوعہ کے قریب نہیں تھے۔

مزید کہا گیا کہ، درخواست گزار (مامن خان) کے سیکورٹی اہلکاریعنی کانسٹبل جئے پرکاش اور کانسٹبل پردیپ کے بیانات بھی سی آر پی سی کی دفعہ 161 کے تحت ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ ان دونوں نے 29 اور 30 جولائی کو جائے وقوعہ سے 1.5 کلومیٹر کے دائرے میں مامن خان کی موجودگی کے حوالے سے بھی تصدیق کی ہے۔

حکومت کے مطابق، اس کے علاوہ مامن خان نے 30 جولائی کو وہاٹس ایپ کے ساتھ ساتھ فیس بک پر بھی پوسٹ کیا تھا کہ ‘کسی کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ عرضی گزار (مامن خان) نے ان کے  لیے اسمبلی میں  لڑائی لڑی تھی،اور میوات میں بھی  ان کے لیے میں لڑیں گے۔ ‘

مزید عرض کیا گیا ہے کہ معاملے میں  عبداللہ خان بھی ایک ملزم ہے جسے تاحال گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ انہوں نے اپنے ایک پوسٹ میں ’انجینئر مامن خان ودھایک مشن پورا‘ کا ذکر کیا تھا۔

ہریانہ حکومت کے وکیل نے ہائی کورٹ کو بتایا کہ مامن خان کو 25 اگست کو پوچھ گچھ کے لیے نوٹس جاری کیا گیا تھا۔ انہوں نے 31 اگست کو جواب دیا کہ ان کی صحت ٹھیک نہیں ہے اور تفتیش میں شامل ہونے کے لیے 10 دن کا وقت مانگا۔ تاہم، اس کے بعد بھی وہ نہیں آئے۔

وکیل نے کہا، ‘چونکہ مامن خان تحقیقات میں شامل نہیں ہوئے  اور پورے مواد پر غور کرنے کے بعد انہیں 4 ستمبر 2023 کو خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) کے سربراہ کے ذریعے موجودہ ایف آئی آر میں ایک  ملزم کے طور پر نامزد کیاگیا۔ موجودہ معاملے میں سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی) نوح کی نگرانی میں ڈی ایس پی ستیش کمار، ایس ایچ او نگینہ اور ایس آئی ورندر کی ایس آئی ٹی نے تفتیش کی ہے۔’

ان کے مطابق، ‘یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ انسپکٹر جنرل آف پولیس (ساؤتھ رینج، ریواڑی) تحقیقات کی نگرانی کریں گے اور ہفتہ وار اپ ڈیٹ حاصل کریں گے۔ یہ بتایا گیا کہ تفتیش منصفانہ اور اچھی رفتار سے ہوئی ہے اور اب ضلع نوح میں امن ہے۔

تاہم، کانگریس ایم ایل اے مامن خان کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ‘حقیقت یہ ہے کہ درخواست گزار کو ایف آئی آر میں ملزم کے طور پر نامزد کیا گیا ہے، اس بارے میں درخواست گزار کو آج ہی مطلع کر دیا گیا ہے۔ اس طرح درخواست گزار کو اپنی آزادی کے تحفظ کے لیے مناسب اقدامات کا موقع دیا جانا چاہیے۔’