آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا شرما نے کہا کہ ‘میاں’ لوگ ان کی، وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی کی حمایت کرتے ہیں اور وہ انہیں ووٹ دیے بغیر بھگوا بریگیڈ کے حق میں نعرے لگانا جاری رکھ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب وہ خاندانی منصوبہ بندی پر عمل کریں گے، چائلڈ میرج کو روکیں گے اور انتہا پسندی کو ترک کر دیں گے تب ہمیں ووٹ دیں۔
نئی دہلی: آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا شرما نے اتوار (1 اکتوبر) کو کہا کہ بی جے پی کو اگلے 10 سالوں تک ‘چار’ (ندی کے ریت والے حصے) علاقے کے ‘میاں’ لوگوں کے ووٹوں کی ضرورت نہیں ہے، جب تک کہ وہ چائلڈ میرج جیسی رسموں کو ترک کر کے اپنی اصلاح نہیں کرلیتے۔
تاہم، شرما نے کہا کہ ‘میاں’ لوگ ان کی، وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی کی حمایت کرتے ہیں اور وہ انہیں ووٹ دیے بغیر بھگوا بریگیڈ کے حق میں نعرے لگانا جاری رکھ سکتے ہیں۔
ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، انہوں نے کہا، ‘بی جے پی عوامی فلاح و بہبود کے کام کرے گی اور وہ ہماری حمایت کریں گے، لیکن انہیں ہمیں ووٹ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارا ساتھ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ انہیں ہمنتا بسوا شرما، نریندر مودی اور بی جے پی کے لیے ’زندہ باد‘ کے نعرے لگانے دیجیے۔
‘میاں’ بنیادی طور پر ایک توہین آمیز اصطلاح تھی، جس کا استعمال آسام میں بنگالی نژاد مسلمانوں کے لیے کیا جاتا تھا۔ ذات پات اور مذہبی بنیادوں پر سیاست کے ایک طبقے نے انہیں کئی بار نشانہ بنایا ہے۔
وزیر اعلیٰ نے کہا، ‘جب انتخابات ہوں گے تو میں خود ان سے درخواست کروں گا کہ وہ ہمیں ووٹ نہ دیں۔ جب آپ خاندانی منصوبہ بندی پر عمل کریں گے، بچوں کی شادی کو روکیں گے اور انتہا پسندی کو ترک کر دیں گے، تب آپ ہمیں ووٹ دیں گے۔
وزیر اعلیٰ نے کہا، ‘ان کو مکمل کرنے میں 10 سال لگیں گے۔ ہم ابھی نہیں 10 سال بعد ووٹ مانگیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ان کے اور بی جے پی کے حق میں ووٹ دینے والوں کو دو یا تین سے زیادہ بچے نہیں پیدا کرنے چاہیے، اپنی بیٹیوں کو اسکول بھیجنا چاہیے، بچوں کی شادی نہیں کرنی چاہیے اور انتہاپسندی کو ترک کر کے تصوف کو اپنانا چاہیے۔
شرما نے نامہ نگاروں سے کہا، ‘جب یہ شرائط پوری ہو جائیں گی تو میں آپ کے ساتھ ووٹ مانگنے کے لیے ‘چار’ کے علاقے میں جاؤں گا۔’
جب انھیں بتایا گیا کہ کئی ‘چار’ علاقے، جہاں زیادہ تر بنگالی بولنے والے مسلمان رہتے ہیں، وہاں مناسب اسکول نہیں ہیں، تو انھوں نے کہا کہ اگر انھیں ایسے علاقے میں اسکول کی عدم موجودگی کی اطلاع دی جائےگی تو وہ فوراً اسکول کا قیام کریں گے۔
شرما نے کہا، ‘یہ نہیں ہو سکتا کہ اقلیتی طلبہ کو پڑھنے کا موقع نہ ملے۔ ہم آنے والے دنوں میں اقلیتی علاقوں میں سات کالج کھولیں گے۔
معلوم ہو کہ آسام میں گزشتہ جولائی میں سبزیوں کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے لیے ‘میاں’ لوگوں کو ذمہ دار ٹھہرانے کے لیے ہمنتا بسوا شرما کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ انہوں نے مبینہ طور پر سبزیوں کی آسمان چھوتی قیمتوں کے لیے ‘میاں’ کسانوں اور تاجروں کی اجارہ داری کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ نیز، آسامی نوجوانوں سے ‘میاں’ کو کاروبار سے باہرکرنے کے لیے کھیتی باڑی اور دیگر کاروباری سرگرمیاں اختیار کرنے کی اپیل کی تھی۔
Categories: خبریں