فکر و نظر

آزاد پریس کو ڈرانے کی کوشش جاری ہے

ایک پورے میڈیا آرگنائزیشن پر ‘چھاپے ماری’ اور صحافیوں کے الکٹرانک آلات کو لازمی ضابطہ پرعمل کیے بغیرچھین لینا آزاد پریس کے لیے نیک شگون نہیں ہے، اور جمہوریت کے لیے اس سے بھی بدتر۔

The-Wire-Editorial-Logo-1024x495

منگل کو دہشت گردی کے الزام میں نیوز کلک کے ایڈیٹر پربیر پرکایستھ اور نیوز پورٹل کے ایچ آر ڈپارٹمنٹ کے سربراہ امت چکرورتی کی گرفتاری کے بعد کہا جاسکتا ہے کہ آزاد صحافت پر مودی سرکار کا حملہ بالکل نئی سطح پر ہے۔

یہ گرفتاریاں 3 اکتوبر کی شام کواسی دن علی الصبح ڈرامائی انداز میں’ چھاپےماری’ اور پورے دن کی پوچھ گچھ کے بعد ہوئی۔ درجنوں صحافیوں کے الکٹرانک آلات– لیپ ٹاپ اور فون وغیرہ پولیس نے ضبط کر لیے۔ جن لوگوں کو نشانہ بنایا گیا ان میں وہ لوگ بھی شامل تھے جن کا اس نیوز پورٹل سے کنٹری بیوٹر کے طور پرچند ہی مواقع پر رابطہ رہا ہے۔

نیوز کلک سے وابستہ قلمکار، صحافی، اسٹینڈ اپ کامیڈین، مؤرخ اور سائنس داں — سب کے یہاں یہ دکھانے کے لیے چھاپے مارے گئے کہ دیکھو بے لگام طاقت کس کے ہاتھ میں ہے۔ فون وغیرہ آلات کی ضبطی کے حوالے سے کوئی سیزر میمو یا ہیش ویلیو نہیں دیے گئے۔ یہ طاقت کا غلط استعمال تھا۔

ایسا لگا کہ ارادہ کنٹرول کرنے کا تھا اور بالآخر نیوز پورٹل کے دفترکو سیل کر دیا گیا۔ دہلی پولیس کی اسپیشل سیل نے منگل کومجموعی طور پر 46 لوگوں سے پوچھ گچھ کی۔

ہندوستان میں فری پریس یا آزاد صحافت کے لیےجدوجہدکررہے لوگوں کے لیےیہ ایک مشکل سال رہا ہے۔ ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں جن 180 ممالک کا تجزیہ کیا جاتا ہے، اس میں ہندوستان سب سے نیچے کے 20 ممالک میں (161 ویں) میں شامل ہے۔ 2015 کے بعد سے یہ تنزلی بہت زیادہ اور تیز گام رہی ہے۔ ہندوستان عالمی انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن کا مرکز بھی رہا ہے، جہاں دنیا کی تمام جمہوریتوں کے درمیان ہر سال انٹرنیٹ بند کیے جانے کے اب تک کے اعداد و شمار سب سے زیادہ ہیں۔ ہندوستان نے ریکارڈ جمہوری زوال کا مظاہرہ کیا ہے اور پریس کی حالت اس تنزلی کا ایک اہم جزو ہے۔ پھر بھی وزیر اعظم نریندر مودی اپنی پیشانی  پرکوئی شکن لائے بغیر وقتاً فوقتاً ‘مدر آف ڈیموکریسی’ کا راگ الاپنا نہیں بھولتے!

Urdu-Editorial1

ڈیجیٹل اور آزاد میڈیا پر شکنجہ کسنے کی کوششیں، تقریباً ایک دہائی تک وزیر اعظم کا ایک بھی پریس کانفرنس نہ کرنا، معلومات کے حق کو ختم کرنا اور غیر شفافیت کے بڑھتے ہوئے سرکاری کلچر نے ہماری جمہوریت پر بہت برے اثرات مرتب کیے ہیں۔ اس کے برعکس، ہیٹ اسپیچ پر سپریم کورٹ کی سختی کے باوجود نفرت پھیلانے والوں — جو ٹی وی نیوز چینل ہونے کا دکھاوا کرتے ہیں– کو ملی کھلی چھوٹ معاشرے میں زہر گھول رہی ہے اور تشدد کو فروغ دے رہی ہے۔

جمہوریت میں آزاد صحافت کے رول کو کم کرکےنہیں دیکھا جا سکتا۔ اس کا کام اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ حکومت وقت  ہمیشہ جانچ کے دائرے میں رہے اور وہ ان لوگوں کے سامنے جوابدہ ہوجنہوں نے اسے منتخب کیا ہے۔ اس کا مقصد شہریوں کو درست اور مستند معلومات فراہم کرنا بھی ہے۔

مختصراً یہ کہ کسی ملک کے میڈیا کا معیار اس بات کا تعین کرتا ہے کہ اس کے شہری کتنے باخبر ہیں اور اس کی جمہوریت کا معیار کیا ہے۔ صحافت اقتدار کے سامنے سچ بولنے کا نام ہے اورکوئی جمہوریت زندہ نہیں رہ سکتی اگر اس پیشے میں کام کرنے کے لیے اس کو کسی طرح  کے ‘سپر ہیرو’ کی ضرورت پڑے۔

جیسا کہ برتولت بریخت نے کہا بھی ہے، ‘ وہ سرزمین ماتم کناں ہے جو کوئی ہیرو پیدا نہیں کرتی!’ نہیں،…بدقسمت ہے وہ سر  زمین جسے ہیرو کی ضرورت  پڑے۔’

ایک پورے میڈیا آرگنائزیشن پر ‘چھاپے ماری ‘ اور لازمی ضابطے پرعمل کیے بغیر صحافیوں کے الکٹرانک آلات چھین لینا آزاد پریس کے لیے نیک شگون نہیں ہے، لیکن جمہوریت کے لیے اس سے بھی بدتر ہے۔ تمام ہندوستانیوں کواس حوالے سے ہوشیارہو جانا چاہیے کہ آزاد صحافی تیزی سے بڑھتی ہوئی آمریت میں کیا کیا برداشت کر رہے ہیں، کیونکہ آنے والا اندھیرا بالآخر ان کی دہلیز پر بھی پہنچے گا۔ تشویش میں متبلا ہونے یا فکرمند ہونے کا وقت بہت پہلے ہی گزر چکا ہے۔ اگر آپ آج تیز آواز میں بجتی خطرے کی گھنٹیاں نہیں سن سکتے، تو یا تو آپ بہرے ہیں – یا بہرے ہونے کا ڈھونگ کر رہے ہیں۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)