ادبستان

رائے عامہ: ایسی کتاب جو رازوں سے پردہ اٹھاتی ہے اور موجودہ پاکستانی حکمرانوں کے بارے میں بتاتی ہے

رائے ریاض حسین کی کتاب ‘رائے عامہ’ پاکستان کی موجودہ تاریخ کا آئینہ ہے اور یہ کتاب ایک ایسے شخص نے لکھی ہے، جس کو پاور کوریڈورز کے اندرون تک رسائی تھی۔

رائے ریاض حسین کی کتاب ‘رائے عامہ’ کا سر ورق

رائے ریاض حسین کی کتاب ‘رائے عامہ’ کا سر ورق

جس طرح قدرت اللہ شہاب کی خودنوشت سوانح حیات’شہاب نامہ’ کے مطالعہ سے پاکستان کے ابتدائی دور کے حکمرانو ں کو جاننے اور پرکھنے کا موقع ملتا ہے، اسی طرح رائے ریاض حسین کی کتاب ‘رائے عامہ’ اس ملک کے موجودہ حکمرانوں کو قریب سے جاننے کا موقع فراہم کرتی ہے۔

قدرت اللہ شہاب پاکستان کے تین سربراہان مملکت گورنر جنرل چودھری غلام محمد، صدر اسکندر مرزا اور پھر ایوب خان کے پرسنل سکریٹری رہے۔ اس طرح رائے ریاض حسین کو پاکستان کے چار وزراء اعظم جن میں میاں نواز شریف، بلخ شیر مزاری، معین قریشی اور ظفراللہ خان جمالی شامل ہیں، کے پریس سکریٹری رہنے کا اعزاز حاصل ہواہے۔

نواز شریف کو اس قدر ان کی رائے عامہ کو اثر انداز کرنے کی طاقت کا ادراک ہوگیا تھا کہ اپنی وزارت اعظمیٰ کے دو ادوار میں رائے ریاض کو ہی پریس سکریٹری کے لیے منتخب کیا۔ڈوگروں کے شہر جموں میں پیدا ہوئے قدرت اللہ شہاب اور رائے ریاض میں ایک اور مشترکہ وصف یہ بھی ہے کہ شہاب نے جھنگ ضلع کو بطور ڈپٹی کمشنر پذیرائی بخشی اور ریاض صاحب نے یہاں پیدا ہوکر اس علاقہ کی شان بڑھائی۔ یعنی جھنگ کی آب و ہوا کا اثر دونوں پر ہے۔

خبروں کے مرکزہندوستانی دارالحکومت نئی دہلی میں لگ بھگ تین دہائیوں تک میرے جیسے رپورٹنگ کرنے والے صحافی کے لیے رائے ریاض کی اہمیت یہ رہی ہے کہ 2004سے 2007تک وہ پاکستانی ہائی کمیشن میں پریس منسٹر رہے۔ چونکہ ہندوستانی میڈیا کے لیے پاکستان کو کور کرنا فرض اولین ہے، چاہے کہیں تشدد کا واقعہ، بم دھماکہ یا کوئی کبوتر پکڑا گیا ہو، تو اس کا الزام پاکستان کے سر تو منڈھنا ہی ہے اور ایسی صورت میں پاکستانی مشن میں پریس منسٹر تو انتہائی اہم ہو جاتا ہے۔

اس کو فون تو کرنا پڑتا ہے اور پھر نیوز ایڈیٹر صاحب کا فرمان ہوتا ہے کہ لکھو کہ پاکستان کے پریس منسٹر سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تھی، مگر اخبار کے پریس میں جانے تک ان کا کوئی جواب نہیں آیا۔ ماضی قریب تک دہلی میں شاید ہی کسی اور ملک کے پریس آفیسر کی اتنی مانگ ہوتی ہوگی، جتنی پاکستان ہائی کمیشن کے پریس منسٹر کی ہوتی تھی۔اس لیے اس کا زیرک اور معاملہ فہم ہونا بہت ہی ضروری ہوتا تھا۔

مئی 1995کو بطور ایک جونیئر رپورٹر کے مجھے دہلی میں منعقد سارک سربراہ کانفرنس میں اپنے سینئر آدتیہ سنہا کا ہاتھ بٹانے کے لیے کہا گیا۔ انہوں نے مجھے ہدایت دی کہ میں پاکستانی میڈیا کے وفد، جوصدر فاروق لغاری کے ہمراہ آیا ہوا تھا، پر نظر رکھوں اور اگر پاکستانی وفد ان کو کوئی بریفنگ دیتاہے، تو ان کے مندرجات سے ان کو مطلع کروں۔ ویسے تو دہلی میں ان دنوں جنگ اور دی نیوز کا باضابطہ بیورو ہوتا تھا، جس کے سربراہ عبدالوحید حسینی تھے۔ ان کے علاوہ کراچی کے جلیل احمد اے پی پی کے نمائندے کے طور پر دہلی میں مقیم تھے۔

مگر پاکستانی میڈیا کے جید صحافیوں سے ملنے کا پہلی بار موقع مل رہا تھا۔ خاص طور پر مجھے بھاگ دوڑ کرتے دیکھ کر دی نیشن کے ایڈیٹر مرحوم عارف نظامی خاصی شفقت سے پیش آئے۔ وہیں انہوں نے مجھے ہندوستان سے دی نیشن اور نوائے وقت کے لیے رپورٹنگ کرنے کی آفر دی اور کہا کہ لاہور پہنچ کر وہ تقرری کے کاغذات وغیرہ بھیج دیں گے۔

اسی دورے کے دوران صدر پاکستان نے پہلی بار حریت کانفرنس کے لیڈروں  سے پاکستانی ہائی کمیشن میں اس وقت سفیر ریاض کھوکھر کی مدد سے ملاقات کی۔ خیر 2002تک دی نیشن کے ساتھ تعلق رہا، پھر میں ڈیلی ٹائمز اور فرائیڈے ٹائمز کے ساتھ وابستہ ہوگیا۔پھر کئی برس بعد پاکستانی میڈیا کے ساتھ تعلق چھوٹ گیا تھا۔ مگر 2011میں ہارون رشید صاحب نے روزنامہ دنیا میں ہفتہ وار کالم لکھنے کا حکم دے کر اس تعلق کر پھر استوار کروایا۔ اب یہ کالم روزنامہ 92نیوز میں مسلسل شائع ہورہا ہے اور اس تعلق کی یاد دہائی بھی کرواتا رہتا ہے۔

جب رائے ریاض نے دہلی میں بطور پریس منسٹر کے عہدہ سنبھالا، تو میں ڈیلی ٹائمز کے لیے رپورٹنگ اور فرائیڈے ٹائمز کے لیے ہفتہ وار اسپیشل رپورٹ یا کالم لکھتا تھا۔ دیگرہندوستانی صحافیوں میں جاوید نقوی ڈان کے لیے، پرویز احمد اے آر وا ئی ٹی وی کے لیے اور پشپندر کلوستے آج ٹی وی کے لیے کام کرتے تھے۔ اے پی پی اور ریڈیو پاکستان کے بھی نمائندے دہلی میں موجود تھے جو پاکستان سے تین سال کی مدت کے لیے آتے تھے۔

گو کہ 1995سے ہی مجھے پاکستانی ہائی کمیشن کے پریس منسٹر سے واسطہ پڑنا شروع ہوگیا تھا۔چونکہ ابھی انٹرنیٹ وغیرہ کی آمد نہیں ہوئی تھی، اس لیے پاکستان سے آنے والے اخبار لینےکے لیے ان کے دفتر جانا پڑتا تھا۔ مگر رائے ریاض نے پریس کے شعبہ میں اور مرحوم منور سعید بھٹی نے بطور سفارت کار دہلی جیسی مشکل جگہ پر جوچھاپ چھوڑی، وہ کسی اور کے نصیب میں نہیں آئی۔ رائے ریاض کے بعد اس کو کسی حد تک منظور میمن نے نبھایا۔

بزرگ صحافی مبارک شاہ اور اشفاق گوندل کا اکثر حوالہ دیتے تھے۔ مگر ان کا کارنامہ یہ بتایا جاتا تھا کہ وہ شامیں پریس کلب آف انڈیا میں بتاتے تھے اور ان کے اکاؤنٹ سے ہندوستانی صحافیوں کی شامیں رنگین ہو جاتی تھیں۔ میرا پہلا واسطہ صوفی منش مفتی جمیل الدین سے ہوا تھا۔ ان سے بادہ خوری یا صحافیوں کے لیے جیب خالی کرنے کی توقع کرنا فضول تھی۔ شاعر ہونے کی وجہ سے کچھ غائب دماغ بھی تھے۔ ان کے دور میں پریس آفس ایک ہنگامہ خیز بستی کا منظر پیش کرتا تھا۔

ان کو بشارت کی صورت میں اپنا جیسا غائب دماغ پی اے ملا تھا۔ ایسی جوڑی کہ جس سے پناہ ہی مانگی جاسکتی تھی۔ ایک بار کا ذکر ہے کہ ان کے آفس میں کمپیوٹر اور پرنٹر نئے نئے ہی آئے تھے۔ میں نے ایک دن فون پر مفتی صاحب سے رابطہ کیا، تو وہ دفتر میں موجود نہیں تھے۔ بشارت نے میرا نام وغیرہ لکھ کر یقین دلایا کہ جونہی صاحب آجائیں گے، وہ ان کو اطلاع دےکر واپس کال کروائیں گے۔ خیر اس کے چار روز بعد میں ایک دن مفتی صاحب سے ملنے چلا گیا، تو میری موجودگی میں ہی کمپیوٹر سے پرنٹ کیا ہوا کاغذ نفیس بارڈر لائن وغیرہ کے ساتھ بشارت نے مفتی صاحب کے سامنے رکھا۔

یہ ان افراد کی لسٹ تھی، جنہوں نے ان کی غیر موجودگی میں فون کیے تھے۔ اس میں سرفہرست میرا نام تھا۔ مجھے اب یاد بھی نہیں تھا کہ میں نے کبھی فون کیا تھا۔ بشارت صاحب نے کہا کہ چونکہ پرنٹر خراب تھا، اس لیے وہ مفتی صاحب کو میرے فون کے بارے میں مطلع نہیں کرسکے۔ جو بھی ہندوستانی صحافی ویزا لینے کے لیے آجاتا،تو بشارت ان کو اپنی صحافت کی تاریخ بتاکر متاثر کرنے کی کوشش کرکے مدعا زبان پر لاتے تھے کہ وہ پاکستان میں کسی ہندوستانی چینل کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے ہر کسی سے وہ چینل میں رپورٹر کی تنخواہ کے بارے میں استفسار کرتے رہتے تھے۔

مفتی صاحب کے بعد شاہ زمان خان اور کامران خان بھی اس عہدہ پر برا جمان ہوئے۔ مگر رائے ریاض جب وارد دہلی ہوئے، تو ہندوستان اور پاکستان کے درمیان امن مساعی بھی عروج پر تھی۔ دونوں طرف وفود کا تانتا لگا رہتا تھا۔ پاکستان سے کبھی ایم کیو ایم کے فاروق ستار صاحب وفد لےکر آپہنچے ہیں، تو کبھی پیپلز پارٹی سے مخدو م امین فہیم، تو کبھی پاکستانی خواتین، ججوں، کھلاڑیوں، میڈیا  یا اسکول کے بچوں کا گروپ وارد ہوا ہے۔ رائے ریاض پاکستانی میڈیا کے لیے کام کرنے والے ہم چھ صحافیوں کو کسی بھی وفد کی آمد کی پیشگی اطلاع دیتے تھے اور ان کے ساتھ ملاقات کا بندوبست بھی کرواتے تھے۔

وفد چاہے حکومتی ہو یا اپوزیشن وہ دونوں کے ساتھ ہماری ملاقات کرواتے تھے، اور ہندوستانی میڈیا کے لیے کام کرنے والے  چندصحافیوں کو بھی بلاتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ بیرون ملک وہ پاکستان کے ترجمان یا پریس آفیسر ہیں، نہ کہ صرف ہائی کمیشن یا حکومت کے۔ ہاں، جب وفد اپوزیشن کا ہوتا تھا، تو وہ خود پس منظر میں رہتے تھے۔ انڈس واٹر کمیشن کی بھی ان دنوں آئے دن میٹنگیں ہوتی رہتی تھیں۔

اس لیے میٹنگیں ختم ہونے کے بعد وہ انڈس واٹر کیشن کے سربراہ سید جماعت علی شاہ سے بھی ملاقاتیں طے کرواتے تھے۔ چونکہ جامع مذاکرات کا سلسلہ بھی جاری تھا، اس لیے اس دوران پاکستان کے وفاقی سکریٹری حضرات جو ان میں شرکت کرنے لیے آتے تھے، کے ساتھ ملاقاتوں کا اہتمام کرکے رائے ریاض کی وساطت سے خاصی بیک گراؤنڈ انفارمیشن حاصل ہوتی تھی۔

تعلقات کی باریکیوں اور ایشوز کا علم جو اس زمانے میں حاصل ہوا ہے، وہ ابھی بھی وقتا فوقتاًکام آتا رہتاہے۔ نئی دہلی میں کام کرنے والے صحافی کے لیے اسی سطح کی رسائی سے اطلاعات کا حصول ناممکن تھا، جو رائے ریاض نے ممکن بنادیا۔

رائے ریاض جب دہلی آئے، تو مرحوم منور بھٹی بطور ڈپٹی ہائی کمشنر تعینات تھے۔ ان دونوں کی جوڑی مثالی تھی۔ انہوں نے پندرہ دن میں ایک بار پاکستانی میڈیا کے لیے کام کرنے والے صحافیوں کے لیے بیک گراؤنڈ بریفنگ کا سلسلہ شروع کرادیا۔ اس سے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان معاملات اور پیش رفت سے خاصی آگاہی ملتی تھی۔

اگر پاکستان سے کوئی سفارت کار یا سکریٹری دورہ پر ہوتا تھا، تو وہ بھی موجود ہوتا تھا۔ منور بھٹی کے جانے کے بعد رائے ریاض نے نئے ڈپٹی ہائی کمشنر افراسیاب ہاشمی کو اس بریفنگ کو جاری رکھنے پر آمادہ کروالیا تھا، مگر ان کے جانے کے بعد یہ سلسلہ ختم ہوگیا اور اسی دوران میرا تعلق بھی پاکستانی میڈیا ادارے سے ختم ہو گیا تھا۔

خیر رائے ریاض کی کتاب رائے عامہ میں شہاب نامہ کی طرح کئی دلچسپ واقعات درج ہیں۔ کس طرح صدر پرویز مشرف ڈاکٹر اے کیو خان کو امریکہ کے حوالے کرنے پر بضد تھے، اور کس طرح وزیر اعظم جمالی نے اس میں ٹانگ اڑائی؟

اس کتاب کے مطابق صدر اور وزیر اعظم کے درمیان اختلافات اور وسیع تب ہوگئے، جب مشرف نے امریکہ کو خوش کرنے کے لیے عراق میں فوجیں بھیجنے کا فیصلہ کیا، جس کو جمالی نے فوراً مسترد کر دیا۔مجھے یاد آتا ہے کہ انہی دنوں دہلی میں بھی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی بھی عراق میں امریکی افواج کی معانت کے سلسلے میں خاصے دباؤ میں تھے۔

اسی دوران کمیونسٹ پارٹی کا ایک وفد ہرکشن سنگھ سرجیت کی سربراہی میں ان سے ملاقی ہوا اور فوجیں بھیجنے کے متوقع فیصلہ پر احتجاج کرکے ایک میمورنڈم واجپائی کو سونپ دیا۔ واجپائی نے مسکراتے ہوئے وفد کو بتایا کہ ‘آجکل بائیں بازو والے بھی کانگریس کی طرز پر ڈرائنگ رومز میں ہی احتجاجی بیانات داغتے ہیں۔’ بس یہ اشارہ تھا۔

اگلے روز سے ہی کئی شہروں میں سڑکوں پر امریکہ کے عراق پر حملہ اور ہندوستانی فوج بھیجنے کے متوقع فیصلہ کے خلاف احتجاج شروع ہوگئے۔ واجپائی نے پارلیامنٹ میں بیان دیا کہ عوامی رائے عامہ کے پیش نظر، ہندوستان کا عراق میں فوج بھیجنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ انہوں نے امریکہ سے بھی معذرت کی۔

سری لنکا میں پوسٹنگ کے دوران رائے ریاض نے پاکستان سے پھل منگوانے اور اس ملک کو پاکستانی فروٹ تاجران کے لیے کھولنے کی سعی کی۔ اس سلسلے میں کولمبو میں مینگو فیسٹیول منعقد کروایا۔ مگر کراچی سے آنے والے آم انتہائی بد مزہ، خراب اور کٹھے نکلے۔ اسی طرح پاکستان کے مہربانوں نے خربوزوں میں ہیروین ڈال کر بھیج دی، جو ایر پورٹ پر پکڑی گئی۔ یعنی اس مارکیٹ کے حصول سے قبل ہی یہ ہاتھ سے نکل گئی۔ میڈیا میں خبر آئی کہ پاکستانی خربوزہ کی قیمت دس لاکھ ڈالر۔یہ اس ہیروین کی بین الاقوامی قیمت تھی۔ اسی کے ساتھ پاکستانیوں کی بغیر ویزا کے انٹری بھی بند ہوگئی۔

رائے ریاض نے دہلی میں قائد اعظم محمد علی جناح کے مکان کا ذکر کیا ہے، جو انہوں نے پاکستان جانے سے قبل ٹائمس آف انڈیاکے مالک رام کرشن ڈالمیا کو بیچا تھا۔ مگر انہوں نے لکھا ہے کہ مہاتما گاندھی بھنگیوں کے محلہ میں رہتے تھے۔ گاندھی کا دہلی میں قیام کچھ زیا دہ نہیں رہا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ دورہ کے دوران وہ کسی بھنگی محلہ میں جاتے ہوں گے۔

دہلی میں 1930سے قبل وہ دریا گنج میں ڈاکٹر ایم ایم انصاری کے مکان پر ٹھہرتے تھے۔ پھر جناح ہاؤس سے چند میٹر دور ی پر برلا ہاؤس ا ن کی رہائش کے لیے وقف کی گئی تھی۔ جناح ہاؤس میں اس وقت نیدر لینڈ کے سفیر رہتے ہیں اور برلا ہاؤس میں اب گاندھی میوزیم ہے۔

اسی جگہ پر گاندھی کو ہلاک کردیا گیا تھا۔ جب ڈالمیا نے جناح ہاؤس کا قبضہ لیا، تو بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے پہلے اس پورے بنگلہ کو کو گائے کے پیشاب سے دھویا اور پھر ٹینکروں میں دریائے گنگا سے پانی منگوا کر اس کو صاف کیا۔ مگر وہ پھر بھی اس مکان میں شفٹ نہیں کرپائے اور اس کو کرایہ پر اٹھادیا۔

رائے ریاض صاحب نے کتاب میں پاکستانی پارلیامنٹ کی کشمیر کمیٹی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا بھی ذکر کیا ہے، جوویسے تو اکثر دہلی وارد ہو تے تھے۔ جمعیتہ علماء ہند ان کی میزبانی کرتے تھے۔ میرا بھی ان سے واسطہ پہلی بار 1995میں ہی پڑا ہے۔ 4 جولائی 1995 کو کشمیر کے ضلع اننت ناگ میں پہلگام کے لدروت علاقے سے چھ مغربی سیاحوں اور ان کے دو گائیڈز کو ایک غیر معروف تنظیم الفاران نے اغوا کر لیا۔  22 یا 23جولائی کے آس پاس حریت لیڈر مرحوم سید علی گیلانی دہلی آئے ہوئے تھے اور چانکیہ پوری میں واقع کشمیر ہاؤس میں ٹھہرے تھے۔

ان کے قیام کے دوران ہی اس اغوا کے بارے میں میڈیا میں رپورٹ آئی۔ اس کارروائی کے حوالے سے وہ خاصے جزبجز تھے۔فلسطین کے برعکس کشمیر کے حوالے سے مغربی دنیا میں ایک روایتی سافٹ کارنر ہوتا تھا۔ ایک دن میری چھٹی تھی کہ میں ان سے ملنے کشمیر ہاؤس پہنچا تھا، وہ اغوا کی اس واردات کے حوالے سے تاسف کا اظہار کر رہے تھے۔ اسی دن ہندوستان ٹائمس میں مولانا فضل الرحمان صاحب کے حوالے سے خبر چھپی تھی کہ وہ دہلی آئے ہوئے ہیں اور اغوا کی اس واردات کے حوالے سے وہ مدد کریں گے۔ چونکہ یہ معلوم ہی تھا کہ حرکت الانصار میں ان کی پہنچ تھی، مگر جس طرح ان کا یہ بیان چھپا تھا، اس سے انہوں نے تقریباً اس کی ذمہ داری قبول کی تھی اور اب بھاؤ تاؤ کر رہے تھے۔

گیلانی صاحب نے میری موجودگی میں ہی اپنے سکریٹری فردوس عاصمی کو ہدایت دی کہ مولانا کی جائے رہائش کا پتہ لگا کر ان سے ملاقات کی کوئی سبیل نکالی جائے،کیونکہ یہ ایک سنگین معاملہ ہے۔ عاصمی صاحب ان دنوں شاید خود ہی پہلی بار دہلی آئے تھے۔ انہوں نے میری طرف دیکھا۔ خیرمعلوم ہو اکہ مولانا نے ہندوستان ٹائمس میں ونود شرما سے بات کی تھی اور کنشکا ہوٹل میں ٹھہرے تھے۔ وہاں جا کر معلوم ہو اکہ وہ چیک آؤٹ کرچکے ہیں اور دیوبند تشریف لے گئے ہیں۔ چند روز کی تگ ودو کے بعد معلوم ہوا کہ وہ واپس آگئے ہیں اور جمیعۃ کے دفتر میں ٹھہرے ہیں۔عاصمی صاحب نے کئی بار فون کرکے اپائنٹمنٹ لینے کی کوشش کی۔ مگر ناکام ہوگئے۔

خیر میں ایک روز نمازکے وقت جمیعۃ کے دفتر پہنچا اور جونہی انہوں نے نماز ختم کی کہ میں ان کے سامنے پہنچا اور ان سے گزارش کی کہ کشمیری لیڈر گیلانی صاحب دہلی میں ہیں اور آپ سے ملنے کے متمنی ہیں۔ مجھے اب ان کے الفاظ تو یاد نہیں ہیں، مگر ان کا رویہ انتہائی ہتک آمیز تھا۔ میں نے عاصمی صاحب کو فون پر بس اتنابتایا کہ مولانا کے پاس وقت نہیں تھا اور وہ واپس جا رہے ہیں۔ ان کی واپسی کے بعد 13 اگست 1995 کو ان سیاحوں میں ناروے کے ہانس کرسچن اوسٹرو کا سر قلم کر دیا گیا۔ امریکی جان چائلڈز 17 اگست کو فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔ جبکہ باقی کا کبھی پتہ نہیں چلا۔

سال 2013میں جب برطانوی صحافیوں ایڈرین لیوی اور کیتھی اسکاٹ کی معرکتہ الارا تفتیشی کتاب دی میڈوز منظر عام پر آئی، تو معلوم ہوا کہ ہندوستانی خفیہ اداروں کو ان مغویہ سیاحوں کی جگہ کا علم تھا۔ راء کے طیارے ان کے فوٹو بھی لیتے رہے۔ مگر جموں و کشمیر پولیس کے افسران نے جب ان کو بازیاب کرنے اور ان کو اغوا کاروں سے چھڑانے کے لیے آپریشن کرنے کی اجازت مانگی تو دہلی سے ٹکا سا جواب تھاکہ جتنی دیر یہ مغربی سیاح اس تنظیم کے پاس رہیں گے، اتنی ہی دیر پاکستانی سفارت کاروں کو مغربی دنیا میں سوالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس لیے ان کا اغوا ہندوستان کے مفاد میں ہے اور اس کو طول دینا ہے۔

لیوی اور اسکاٹ کے مطابق بعد میں جب اغوا کار تنگ آگئے، تو انہوں نے ان کو سرکاری بندوق برداروں کو ایک طرح سے بیچا، جنہوں نے ان کو ایک آرمی کیمپ میں رکھ کر اب ان کا بھاؤتاؤکرنے لگے۔ مگر چند روز بعد ان کو احساس ہوا کہ اگر ان کو چھوڑ اگیا، تو الزام ہندوستانی فوج کے سر آجائےگا۔ اس طرح ان کو خاموشی کے ساتھ رات کے اندھیرے میں موت کی نیند سلا کر نامعلوم مقام پر دفن کر دیا گیا۔

مگر تب تک یہ اغوا کشمیر میں جاری تحریک کے سر پڑ چکا تھا اور مغربی دنیا نے اس کو آزادی کی تحریک سے دہشت گردی سے تعبیر کرنا شروع کر دیا تھا۔ اس میں مولانا فضل الرحمان کا ایک بڑا ہاتھ رہا ہے۔کشمیر کمیٹی کے سربراہ کی حیثیت سے انہوں نے کیا کام کیے اور کس خوشی میں یہ عہدہ ان کو تفویض ہو ا تھا۔ اپنے دورہ دہلی کے دوران کتنی بار وہ کسی کشمیری لیڈر سے ملے۔ کون ان کا احتساب کرےگا؟

خیر رائے ریاض کی کتاب رائے عامہ کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ سارے واقعات جیسے ایک فلم کی طرح میرے سامنے آرہے تھے۔ مصنف سے گزارش ہے کہ اس کتاب کا ایک اور ایڈیشن مزید تفصیلات کے ساتھ شائع کریں۔ اس ایڈیشن میں تشنگی محسوس ہوتی ہے۔ اسی طرح رائے صاحب نے کتاب میں کارٹونسٹ سدھیر تیلانگ کے ساتھ اپنی ملاقات کا تذکرہ کیا ہے۔ خیر اچھا ہوا کہ انہوں نے خود ہی اس ایشو کا ذکر کیا ہے۔

رائے صاحب آپ کا رویہ تیلانگ کے ساتھ بالکل آپ کی شخصیت کے برعکس تھا۔ آپ کا جواب نہایت ہی غیر سفارتی اور غیر موزوں تھا۔ ہاں اس نے آپ کے صبر کا امتحان لیا تھا۔مگر اس کو کسی اور صورت میں بھی جواب دیا جاسکتا تھا۔  2016 میں ان کا انتقال ہوا تھا، مگر جب بھی ان سے پریس کلب میں ملاقات ہوتی تھی، تو وہ ہم سے آپ کے رویہ کی شکایت کرتا تھا اور ہم سے کوئی جواب نہیں بن پاتا تھا۔

اس کے باوجود کتاب واقعی پاکستان کی موجودہ تاریخ کا ایک آئینہ ہے اور ایک ایسے شخص نے لکھی ہے، جس کو پاور کوریڈورز کے اندرون تک رسائی تھی اور کئی رازوں سے اس نے پردہ اٹھایا ہے۔