فکر و نظر

’نیوز کلک‘ کو عوام کو باخبر رکھنے اور خبردار کرنے کی سزا مل رہی ہے

حکومت کے جس قدم سے ملک کا نقصان ہو، اس کی تنقید ہی ملک کا مفاد ہے۔ ‘نیوز کلک’ کی تمام رپورٹنگ سرکاری دعووں کی پڑتال کرتی ہے، لیکن یہی تو صحافت ہے۔ اگرسرکار کے حق میں لکھتے اور بولتے رہیں تو یہ اس کا پروپیگنڈہ ہے۔ اس میں صحافت کہاں ہے؟

(تصویر بہ شکریہ: نیوز کلک/وکی میڈیا کامنز)

(تصویر بہ شکریہ: نیوز کلک/وکی میڈیا کامنز)

گاندھی جینتی کی اگلی صبح تھی۔ میں لکھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ 2 اکتوبر کو گاندھی کو کس طرح یاد کیا گیا۔ ان کی زندگی اور سیاست کے کن پہلوؤں پر بحث ہوئی؟ میں پونے میں ‘لوکایت’ کے اپنے دوست نیرج جین کو فون کرنے کی سوچ رہا تھا یہ جاننے کے لیے کہ گزشتہ روز گاندھی کے قتل پر دھیریندر جھا کے لیکچر پر سامعین کا کیا ردعمل رہا۔ باپو پر دنکر کی نظم پاس ہی رکھی تھی۔ اسی دوران شبنم ہاشمی کا فون پر پیغام نظر آیا؛ پولیس صحافی بھاشا سنگھ کے گھر پہنچ گئی ہے۔ کہہ رہی ہے؛ یو اے پی اے کے معاملے میں تفتیش کرنی ہے۔

صبح کے 6 بج رہے تھے۔ بھاشا کو فون کیا۔ انہوں نے کہا، ‘ایک پولیس کی وردی میں ہے، باقی سادہ کپڑوں میں۔ دہلی پولیس یا این آئی اے، معلوم نہیں۔‘وکیل دوستوں کو فون کرنا شروع کیا۔ گھنٹی بجتی رہی۔ ابھی تو قاعدے سے صبح بھی نہیں ہوئی تھی۔

بھاشا آن لائن نیوز آرگنائزیشن ‘نیوز کلک’ کے ساتھ کام کرتی ہیں۔ ‘نیوز کلک’ پر سرکار کا حملہ گزشتہ تین سال سے جاری ہے۔ حکومت ہند کی کئی ایجنسیاں پچھلے تین سالوں سے اس کے بانی پربیر پرکایستھ کے خلاف کام کر رہی ہیں۔ ان کے گھر پر چھاپہ پڑ چکا ہے۔ وہ اور ان کی ہمسفر کہانی کار گیتا ہری ہرن مسلسل انہیں جھیل رہے ہیں۔ مجھے لگا، بھاشا کے پاس پولیس اسی وجہ سے پہنچی ہوگی۔ میں نے گیتا کو فون کیا۔ انہوں نے کہا، ‘میں بات نہیں کر سکتی کیونکہ پولیس مجھ سے اور پربیر سے پوچھ گچھ کر رہی ہے۔”

پھر وکیل دوست کو فون کیا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اپنے معاونین کو بھاشا کے گھر بھیج چکی ہیں۔

اسی دوران شبنم سے دوبارہ بات ہوئی تو معلوم ہوا کہ سہیل ہاشمی کے گھر بھی پولیس پہنچ گئی ہے۔ فون آنے لگے کہ صحافی ارملیش، ابھیسار شرما، اونندھو، پرانجے گہا ٹھاکرتا کے گھروں پر پولیس کے دستے موجود ہیں۔ اس کے علاوہ سائنسدان ڈی رگھونندن کے گھر بھی۔

اور کس کے گھر پولیس پہنچی، یہ معلوم کرنا مشکل ہو گیا۔ یہ ضرور سمجھ میں آ گیا کہ نیوز کلک میں کام کرنے والوں یا ان سے وابستہ افراد پر پولیس چھاپے مار رہی ہے۔ لیکن سہیل صاحب کا تو نیوز کلک سے کوئی لینا دینا نہیں!

کسی سے رابطہ نہیں کیا جاسکتا تھا کیونکہ پولیس نے سب کے فون ضبط کر لیے تھے۔

دن میں تنقید کی کلاس تھی۔ باہر حکومت کے ناقدین پر پولیس کے چھاپے پڑرہے تھے۔ پھر کلاس میں ادبی تنقید کیسے پڑھائی جائے؟ طالبعلموں کو بتلا یا کہ تنقید میں عافیت نہیں ہوتی۔ نہ ادب میں، نہ معاشرے میں۔ نقاد کو حقیقی خطرے اٹھانے پڑتے ہیں۔ یہ آج دہلی میں نظر آرہا ہے۔

‘نیوز کلک’ کے ساتھ کچھ ہو سکتا ہے، اس کا احساس کچھ دن پہلے ہی ہو گیا تھا۔ دراصل جب ‘نیویارک ٹائمز’ میں ایک مضمون شائع ہوا جس میں بتایا گیا کہ سری لنکن نژاد سرمایہ دار نیول رائے سنگھم نے اس میڈیا کو مالی امداد دی ہے۔ اخبار میں سنگھم کو چین کا حامی بتایا گیا تھا۔ بلکہ یہ کہا گیا تھا کہ وہ پوری دنیا میں چینی کمیونسٹ پارٹی کے پروپیگنڈے کے لیے پیسے دیتے ہیں۔ ٹائمز کے مطابق ‘نیوز کلک’ بھی اس چینی پروپیگنڈہ سسٹم کاحصہ ہے۔

دیگر معاملات میں ‘نیویارک ٹائمز’ کو ہندوستان مخالف قرار دینے والے ہندوستانی حکومت کے وزیر اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما انوراگ ٹھاکر نے اگلے ہی دن اس رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے الزام لگایا کہ سنگھم، چینی کمیونسٹ پارٹی، ‘نیوز کلک’ اور کانگریس پارٹی کے ساتھ مل کر ہندوستان مخالف سازش کر رہے ہیں۔ ’نیوز کلک‘ خبر کے نام پر جھوٹ پھیلا رہا ہے۔ بی جے پی ایم پی نشی کانت دوبے نے نیویارک ٹائمز کے دعوے پر پارلیامنٹ میں تشویش کا اظہار کیا۔

‘نیوز کلک’ نے کبھی بھی چھپانے کی کوشش نہیں کی کہ وہ سنگھم سے مالی مدد لے رہا تھا۔ اس میں کچھ بھی چھپانے جیسا نہیں تھا۔ قانونی طریقے سے یہ پیسہ لیا گیا۔ ریزرو بینک کی اجازت کے بغیریہ نہیں ہو سکتا تھا۔ یہ سب کچھ حکومت کے علم میں ہے۔ پھر نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کس راز کا انکشاف کر رہی تھی؟

لیکن یہ سوال اس لیے بے معنی ہو جاتا ہے کہ اسے ہندوستانی میڈیا کے بڑے پلیٹ فارموں نے ایک سنسنی خیز انکشاف کے طور پر پیش کیا؛ نیوز کلک نے چینی پیسے لے کر ہندوستان مخالف سازش کی۔ اس کے بعد کون یہ پوچھنے جائے گا کہ سنگھم کا پیسہ چینی نہیں ہے۔ اس کو اپنی امریکی کمپنی ‘تھاٹ ورکس’ کوبیچ کر جو پیسہ ملا اس سے وہ دنیا میں اپنی خواہش کے مطابق ترقی پسند کام کرنے والوں کی مدد کرتا ہے۔

‘نیوز کلک’ کو سنگھم سے مالی مدد ملتی ہے، یہ ریکارڈ پر ہے۔ یہ ہندوستان کے تمام قوانین کے مطابق کیا گیا ہے۔ تمام سرکاری ادارے برسوں سے یہ جانتے ہیں۔ اس کے باوجود اسے ایک سنسنی خیز خبر کے طور پر نشر کیا گیا۔

ٹی وی چینل چیخ چیخ کر ‘چینی سازش’ کا پردہ فاش کرتے رہے۔

بہرحال! اس ’پردہ فاش‘ کے ساتھ ہی رفتہ رفتہ دن گزرتے گزرتے یہ معلوم ہونے لگا کہ ’نیوز کلک‘ میں کام کرنے والے تقریباً تمام صحافیوں کے گھروں پر چھاپے مارے گئے ہیں۔ ان کے فون، لیپ ٹاپ اور دیگر الکٹرانک سامان کو ضبط کر لیا گیا ہے۔ ان میں سے کئی کو لودھی روڈ تھانے لے جایا گیا ہے۔ کچھ بھی معلوم کرنا مشکل تھا کیوں کہ کسی کے فون کام نہیں کر رہے تھے۔

دوپہر کو معلوم ہوا کہ پربیر کو لودھی روڈ تھانے لایا گیا ہے، سمجھ میں آ گیا کہ یہ ان کی گرفتاری کی تیاری ہے۔

تین اکتوبر کی شام کو ہی راہل گاندھی پر لکھی گئی سگتا سری نواساراجو کی کتاب پر بحث میں ارملیش کو حصہ لینا تھا۔ لیکن وہ تو تھانے میں تھے۔ انڈیا انٹرنیشنل سینٹر کے ہال میں اسٹیج پر ان کی خالی کرسی ان کا انتظار کرتی رہی۔ پروگرام شروع ہونے سے پہلے یہ ضرور معلوم ہوا کہ پولیس نے انہیں چھوڑ دیا ہے، لیکن یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ پورے دن کی پولیس پوچھ گچھ کے بعد کسی بحث میں حصہ لینے کی حالت میں ہوں۔ کرسی خالی ہی رہی۔

کتاب پر بحث ختم ہوتے ہی معلوم ہوا کہ پربیر کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ایچ آر ہیڈ امت چکرورتی کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔ میرا دھیان پربیر کی ہمسفر مصنفہ گیتا ہری ہرن کی طرف گیا۔ لیکن ہمیں یہ نہیں معلوم تھا کہ کتنے نوجوان صحافی اب بھی تھانے میں ہیں۔

جب کچھ لوگوں کو تھانے سے چھوڑا گیا تو معلوم ہوا کہ پولس ان سے کیا پوچھ رہی تھی؛ کیا تم نے کسانوں کی تحریک کی رپورٹنگ کی ہے؟ کیا تم نے شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف چلنے والی تحریک کی رپورٹنگ کی ہے؟ کیا 2020 میں دہلی میں جو تشدد رونما ہوا، اس کے بارے میں رپورٹنگ کی تھی؟ کیا تم شاہین باغ جاتی تھی؟

کیا ان تمام واقعات کی رپورٹنگ کرنا گناہ ہے؟ صحافی اگر یہ نہ کرے تو پھر اس کے ہونے کا کیا مطلب ہے؟ کیا امریکہ میں ‘بلیک لائیوز میٹر’ تحریک کی رپورٹنگ وہاں کے صحافی نہیں کریں گے؟ یا جب عرب ممالک میں حکومت مخالف تحریکیں اٹھیں تو ان کی رپورٹنگ نہیں کی گئی؟ یا جب فرانس میں طلباء اور مزدوروں نے احتجاج کیا تو کیا وہاں کے میڈیا کو اس کی رپورٹنگ کرنی چاہیے تھی یا نہیں؟ اسرائیل میں جب حکومت نے عدلیہ پر قبضہ کرنے کے لیے قانون بنانے کی کوشش کی تو عوام اس کے خلاف سڑکوں پر نکل آئی؟ وہاں کے اخبارات کو اس کی رپورٹنگ کرنی چاہیے تھی یا نہیں؟ رپورٹرکو احتجاج کے مقام پر جائیں یا نہیں؟

امریکہ میں ‘واٹر گیٹ’ اسکینڈل کو ایک صحافی نے ہی بے نقاب کیا تھا، جس کے بعد صدر نکسن کو استعفیٰ دینا پڑا تھا۔ کیا اس رپورٹنگ کو امریکہ مخالف کہا جاتا اور رپورٹر کو گرفتار کر لیا جاتا؟ آج کے ہندوستان میں یہی ہو رہا ہے۔

خبر لینے اورخبر دینے کا کام حکومت اور پولیس کی نظر میں اگر جرم ہو تو پھر صحافت کیسے زندہ رہے گی؟ اگر حکومت کی تنقید کرنا جرم ہو جائے تو معاشرے اور ملک میں آزاد افکار کیسے زندہ رہیں گے؟

‘نیوز کلک’ نے کسانوں کی تحریک اور سی اے اے مخالف تحریک کی شاندار رپورٹنگ کی تھی۔ رپورٹنگ کے ساتھ یہ بھی واضح تھا کہ ان دونوں معاملات پر ان کے اپنے خیالات حکومتی موقف سے الگ تھے۔ لیکن کیا یہ جرم ہے؟ ان میں سے کون سی چیز دہشت گردی کے زمرے میں آتی ہے؟ کیا کسی اخبار یا کسی میڈیا ادارے کو صرف حکومت کی حمایت ہی کرنی چاہیے؟

حکومت کی تنقید ملک کی مخالفت کیسے ہوگئی؟ بلکہ سرکار کے جس قدم سے ملک کا نقصان ہو، اس کی تنقید ہی ملک کا مفاد ہے۔ ’نیوز کلک‘ کی تمام رپورٹنگ یقیناً حکومت کے دعووں کی پڑتال ہے، لیکن یہی تو صحافت ہے۔ حکومت کے حق میں لکھتے بولتے رہیں تو یہ اس کا پروپیگنڈہ ہے۔ اس میں صحافت کہاں ہے؟

راہل گاندھی پر کتاب کی بحث میں یہ سوال اٹھا کہ وہ کامیاب کیوں نہیں ہو رہے ہیں؟ یا اپوزیشن کیوں کارگر نہیں ہے؟ راہل گاندھی بارہا کہہ چکے ہیں کہ اپوزیشن تب ہی مؤثر ہو سکتی ہے جب میڈیا عوام تک سچی خبریں پہنچانے کا کام کرتا رہے۔ ایک بے خبر عوام آخر کار اپنا فیصلہ کرے کیسے؟

یہ صاف ہے کہ ‘نیوز کلک’ کو اس کی سزا مل رہی ہے کہ وہ عوام کو باخبر رکھنے کے ساتھ انہیں خبردار بھی کر رہا ہے۔

جانے کیوں اس مختصر سے تبصرہ کو لکھنے میں تین دن لگ گئے۔ ان تین دنوں میں معلوم ہوا کہ مؤرخ دلیپ سیمین، سماجی کارکن دیپک ڈھولکیا، جمال قدوائی، وجے پرتاپ کے گھروں پر بھی پولس کا چھاپہ  پڑا۔ ان کے فون بھی لیے گئے۔ انہیں پھر تھانے بلایا جا رہا ہے۔ ان میں سے کسی کا بھی ‘نیوز کلک’ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن پولیس ایک سازش کی کہانی تیار کر رہی ہے۔

کہانی یہ ہے کہ دانشور اور صحافی دہشت گردی کی سازش  کر رہے ہیں۔ یہ کوئی اتفاق نہیں ہے کہ جب یہ سب کچھ ہو رہا ہے، وزیر داخلہ اس عزم کا اظہار کر رہے ہیں کہ بائیں بازو کی دہشت گردی کی کمر توڑ دی جائے گی۔

(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)