خبریں

نیوز کلک کیس: ماہرین قانون نے یو اے پی اے کے تحت الزامات کو غیر منصفانہ قرار دیا

گزشتہ 3 اکتوبر کو نیوز کلک کے بانی پربیر پرکایستھ اور اس کے ایچ آر ہیڈ امت چکرورتی کو دہلی پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ ان پر یو اے پی اے کے تحت الزام عائد کیے گئے ہیں، لیکن ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف فوجداری کا کوئی مقدمہ نہیں بنتا، یو اے پی اے کا معاملہ تو بالکل بھی نہیں۔

(السٹریشن دی وائر)

(السٹریشن دی وائر)

نئی دہلی: نیوز کلک کے بانی پربیر پرکایستھ اور اس کے ایچ آر ہیڈ امت چکرورتی کو دہلی پولیس کی اسپیشل سیل کی جانب سے درج ایک کیس میں غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت الزامات کا سامنا کر نا پڑ رہا  ہے۔ اس پر ماہرین قانون  کا کہنا ہے کہ انسداد دہشت گردی قانون کا استعمال پوری طرح سےغلط ہے اور دہشت گردی کا مقدمہ بنانے کے لیے کوئی ثبوت نہیں ہے۔

پرکایستھ اور چکرورتی کو دہلی پولیس نے دن بھر کی پوچھ گچھ کے بعد 3 اکتوبر کو گرفتار کیا تھا۔ اسی دن نیوز کلک سے وابستہ تقریباً 46 صحافیوں، مبصرین اور دیگر ملازمین کے یہاں چھاپے مارے گئے، پوچھ گچھ کی گئی اور ان کے آلات ضبط کیے گئے۔

نیوز کلک پر پولیس کی کارروائی کو ہندوستان کی تاریخ میں میڈیا پر ہونے والے بدترین حملوں میں سے ایک قرار دیا جا رہا ہے۔ دی وائر سے بات کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے سینئر وکیل سنجے ہیگڑے نے کہا کہ پرکایستھ کے خلاف یو اے پی اے کا الزام جائز نہیں ہے۔

انہوں نے کہا، ‘یو اے پی اے (کا الزام) یقینی طور پر غیرمنصفانہ ہے۔ یہ انتہائی غلط ہے اور اس کا مقصد صحافت کو دہشت زدہ کرنا ہے۔ (نیوز کلک کے ذریعے) پیسہ  نہ صرف عام پبلک چینلوں کے ذریعے حاصل کیا گیاہے،  بلکہ کاروباری لین دین کی صورت میں بھی لیا گیا ہے۔ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ یہ کسی خبر کو چلانے کے عوض میں لیا گیا تھا۔ اور مان بھی لیجیے ،اگر ایسا کیا بھی گیا تو یہ کسی فوجداری قانون کے دائرے میں نہیں آتا۔

انہوں نے کہا، ‘مثال کے طور پر، بہت سی جگہوں پر لوگ اشتہارات بھی قبول کرتے ہیں اور یہ عام طور پر فوجداری قانون کے تحت نہیں آتا ہے۔’

واضح ہو کہ دی وائر نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ پولیس نے 17 اگست 2023 کو درج کی گئی اپنی ایف آئی آر میں یو اے پی اے کی کئی دفعات کو شامل کیا تھا اور کہا تھا کہ چینی فنڈنگ کی ایک ‘خطیر رقم’ ‘پیڈ نیوز’ کو شائع کرنے کے لیےاستعمال کی گئی تھی، جس میں ہندوستانی حکومت کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا اور چین کی پالیسیوں کو فروغ دیا گیاتھا، تاہم ایف آئی آر میں ان مبینہ پیڈ نیوزکی تفصیلات نہیں دی گئی ہیں۔

اس میں چینی کمپنیوں شاؤمی  اور وی وو کی طرف سے ‘غیر قانونی فنڈنگ’ سے جڑی ایک ‘بڑی مجرمانہ سازش’ کی موجودگی کا بھی الزام لگایا گیا ہے اور کسی ‘گوتم بھاٹیہ’ کو ایک ‘اہم شخص’ کے طور پر پیش کرتے  ہوئے کہا گیا ہے کہ وہ ان ٹیلی کام کمپنیوں کے خلاف قانونی معاملوں میں  دفاع کرتے تھے۔

ہیگڑے نے کہا، ‘سب سے اہم بات یہ ہے کہ چین کوئی دشمن ملک نہیں ہے، ہم چین کے ساتھ جنگ میں نہیں ہیں – ایسا کوئی اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ پرکایستھ کے خلاف کوئی مجرمانہ مقدمہ نہیں بنتا ہے، یو اے پی اے کا تو بالکل بھی نہیں۔’

اسی طرح سپریم کورٹ کے سابق جج مدن بی لوکور نے کہا کہ اگرچہ صحافی یو اے پی اے کے دائرہ کار سے باہر نہیں ہیں، لیکن اس معاملے میں قانون کولاگو کرنے کے لیے کوئی ثبوت نہیں ہے۔ انہوں نے دی وائر سے کہا، ‘جو بھی مواد پبلک ڈومین میں دستیاب ہے، اس سے ایسا لگتا ہے کہ یو اے پی اے کے تحت مقدمہ بنانے کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کوئی صحافی یو اے پی اے کے دائرہ سے باہر ہے، لیکن اس معاملے میں ایسا لگتا ہے کہ کوئی ثبوت نہیں ہے۔’

پرکایستھ پہلے صحافی نہیں ہیں جنہیں یو اے پی اے کے تحت الزامات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

فری اسپیچ کلیکٹو کی ایک رپورٹ کے مطابق، 2010 سے اب تک 16 صحافیوں کو جیل میں ڈالا گیا ہے اور ان پراس سخت قانون کے تحت الزام عائد کیے گئے ہیں، جن میں سے سات اس وقت جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔

اسی کڑی میں سپریم کورٹ کے سابق جج دیپک گپتا نے کہا کہ اگرچہ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے، اس کی منصفانہ سماعت ہونی چاہیے۔

انہوں نے کہا، ‘حکومت کی تنقید کرنے والوں کو ہراساں کرنے کے لیے قانون کا غلط استعمال نہیں کیا جا سکتا، لیکن ساتھ ہی کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے۔ ہر کوئی قانون کے تابع ہے اور پرکایستھ کو قانون کا سامنا کرنا پڑے گا، لیکن انہیں منصفانہ سماعت  کا موقع ملنا چاہیے۔’

گزشتہ 6 اکتوبر کو دہلی ہائی کورٹ نے پرکایستھ اور چکرورتی کو یہ کہتے ہوئے عبوری راحت دینے سے انکار کر دیا تھا کہ الزامات ایسے ہیں کہ انہیں فوری راحت دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ تاہم،  عدالت نے کہا کہ ریمانڈ کی درخواست میں گرفتاری کی وجوہات نہیں بتائی گئی ہیں۔

سابق ججوں نے پرکایستھ کوایف آئی آر کی کاپی دینے سے کے انکار  کرنے اور گرفتاری کی بنیادوں کا انکشاف  نہ کرنے کی بھی تنقید کی ہے۔ دہلی کی ایک عدالت نے ان کی درخواست قبول کر نے کے بعد دونوں کو ایف آئی آر کی کاپی دی گئی تھی۔ اس درخواست کی دہلی پولیس نے  مخالفت کی تھی۔

لوکور نے کہا کہ ایف آئی آر کی کاپی دینے سے انکار کرنا ‘بالکل غلط’ تھا۔ انہوں نے کہا، ‘گرفتار کیے گئے شخص کو  اپنے خلاف درج ایف آئی آر کی کاپی حاصل کرنے اور گرفتاری کی وجوہات جاننے کا حق ہے۔’

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)