مرکزی حکومت کی تشہیری مہم میں سرکاری افسروں کی تعیناتی کے حوالے سے حکومت ہند کے سابق سکریٹری ای اے ایس شرما نے دی وائر کی عارفہ خانم شیروانی سے بات چیت میں کہا کہ انتخابات کے دوران رائے دہندگان کو متاثر کرنے والی کسی بھی سرگرمی میں سرکاری افسران کو شامل کرنا انتخابی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
نئی دہلی: حکومت ہند کے سابق سکریٹری ای اے ایس شرما نے سینئر سرکاری افسران کومرکزی حکومت کی نام نہاد ‘حصولیابیوں’ سے متعلق اس کی تشہیری مہم میں ‘رتھ پربھاری‘ کے طور پر تعینات کرنے کے مرکزی حکومت کے منصوبے پر الیکشن کمیشن کو دوبارہ خط لکھاہے۔
شرما نےاس سے پہلے21 اکتوبر کو الیکشن کمیشن کو خط لکھ کر کہا تھا کہ کمیشن کو مداخلت کرنی چاہیے اور اس سرکاری حکم نامے کو روکنا چاہیے۔ انہوں نے دلیل دی تھی کہ یہ ہدایات پانچ انتخابی ریاستوں میں نافذ ماڈل ضابطہ اخلاق کے خلاف ہیں۔
سوموار (23 اکتوبر) کو بھیجے گئے اپنے دوسرے خط میں انہوں نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ کمیشن نے ان کی شکایت پر نوٹس لیا ہوگا۔
ایک ایسے وقت میں جب پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے جا رہے ہیں اور عام انتخابات بھی چند مہینوں میں ہونے والے ہیں، اس طرح کی سرکاری ہدایات کو منصفانہ اور آزادانہ انتخابات کے لیے مہلک بتایا جا رہا ہے۔ ان موضوعات پر ای اے ایس شرما سے بات چیت کے بعض اہم حصے ملاحظہ کریں۔
مودی سرکار کی جانب سے سرکاری افسران کو ‘رتھ پربھاری’ کے طور پر تعینات کرنے کے سلسلے میں بنیادی اعتراض کیا ہے؟
میرا اعتراض یہ ہے کہ اسمبلی انتخابات سے عین قبل حکومت اپنے افسروں سے پچھلے نو سال کی حصولیابیوں کے بارے میں بتانے کو کہہ رہی ہے۔ یہ ہدایات ماڈل کوڈ آف کنڈکٹ کے نفاذ کے بعد آئی ہیں، اس لیے یہ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہے۔
آپ نے پہلے کہا تھا کہ یہ غیر اخلاقی ہے لیکن کیا یہ غیر قانونی بھی ہے؟ کیا افسران سرکاری احکامات کو منع کر سکتے؟ کیا الیکشن کمیشن کو اس پر ایکشن لینا چاہیے؟
یہ غیر قانونی ہے کیونکہ یہ ماڈل کوڈ کی خلاف ورزی ہے۔ انتخابات کے دوران رائے دہندگان کو متاثر کرنے والی سرگرمیوں میں سرکاری افسران کو تعینات کرنا انتخابی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ مزید برآں، سول سروس کنڈکٹ رولز بیوروکریٹس کو ایسا کچھ کرنے سے روکتے ہیں، جس سے رائے دہندگان پرمنفی اثر پڑنے کا امکان ہو۔ کوئی بھی ایماندار سول اس سوال کو اٹھا سکتا ہے اور ایسا کرنے سے انکار کر سکتا ہے۔
چار مرکزی وزیر اسمبلی انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ یہ عجیب بات ہے کہ انتخابی ضابطہ اخلاق کے نفاذ کے بعد ان کے افسران ان حلقوں میں،جہاں سے وہ الیکشن لڑ رہے ہیں، ان کی ہی حکومت کی حصولیابیوں کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ میرے خیال میں جب ضابطہ اخلاق نافذ ہے تو ایسے امیدواروں کو ان کے افسران اور سرکاری وسائل کے استعمال کے لیے نااہل قرار دیا جانا چاہیے۔
الیکشن کمیشن کو عام لوگوں اور سیاسی جماعتوں کے ذریعے اس جانب اشارہ کرنے کا انتظار کرنے کے بجائے اس پر فوری ایکشن لینا چاہیے تھا۔
کیا آپ کو ماضی میں ایسا کوئی واقعہ یاد ہے؟
نہیں، مجھے ایسا کچھ یاد نہیں۔
اگر الیکشن کمیشن کوئی ایکشن نہ لے تو شہریوں کے پاس کیا آپشن ہے؟
اگر کمیشن کچھ نہیں کرتا تو پھر عدالتیں ہی راستہ ہیں۔
پوری بات چیت ملاحظہ کرنے کے لیے ویڈیو پر کلک کریں
(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)
Categories: الیکشن نامہ, فکر و نظر