خبریں

دو کشتیوں میں سوار ہندوستان کی سفارت کاری

ہندوستان کی سفارت کاری دو کشتیوں پر سوار ہے۔ ایک طرف اسرائیل سے دوستی، تو دوسری طرف ترقی پذیر ممالک یعنی گلوبل ساؤتھ کی لیڈرشپ کا دعویٰ۔

اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو اور وزیر اعظم نریندر مودی۔ تصویر: نریندر مودی/فیس بک

اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو اور وزیر اعظم نریندر مودی۔ تصویر: نریندر مودی/فیس بک

ہندوستان کی 1971 کی پاکستان کے خلاف، بنگلہ دیش جنگ جیتنے کا کریڈٹ تو آنجہانی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے علاوہ فوج کے پارسی سربراہ جنرل سام مانک شاہ اور مشرقی کمانڈ کے سکھ سربراہ لیفٹنٹ جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ کو دیا جاتا ہے، مگر شاید کم ہی افراد کو علم ہو کہ اس جنگ کی عملی پلاننگ اور اس کو روبہ عمل لانے میں ایک یہودی فوجی افسر لیفٹنٹ جنرل جے ایف آر جیکب کا نہایت ہی اہم رول تھا۔

جنرل جیکب نے ہی پاکستانی فوج کی مشرقی کمانڈ کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل اے اے کے نیازی کو ایک عوامی تقریب کے دوران ہتھیار ڈالنے پر مجبور کردیا تھا۔

بتایا جاتا ہے کہ جب دہلی میں وزیر اعظم کے دفتر میں خبر پہنچی کہ پاکستانی فوج نے ہتھیار ڈال دیے ہیں اور پاکستانی جنرل ایک عوامی تقریب میں ہتھیار ڈالنے والے ہیں، تو اس خدشہ کے پیش نظر کہ ایک یہودی جنرل کے سامنے ایک پاکستانی مسلمان جنرل سے ہتھیار ڈلوانا، کہیں عالمی طور پر خاص طور پر عرب ممالک میں سفارتی پیچیدگیوں کا شکار نہ ہوجائے کہ انہوں نے سکھ جنرل جگجیت سنگھ کو اس تقریب میں جانے اور جنرل نیازی سے سرنڈ ر ڈاکیومنٹ پر دستخط کروانے کے لیے کہا۔

ہندوستان میں فوجی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اسی یہودی جنرل کی وجہ سے ہی جنگ کا رخ بدل گیا۔ قصبوں کو بائی پاس کرکے سیدھے مشرقی پاکستان کے دارالحکومت ڈھاکہ کی طرف کوچ کرنے کے منصوبہ کو آرمی چیف نہ مشرقی کمانڈ کے سربراہ کی حمایت حاصل تھی۔ مگر واقعات تیزی کے ساتھ تبدیل ہوتے گئے،اور جیکب کے منصوبہ میں فٹ بیٹھتے گئے۔ مگر دہلی میں سوم وہار میں اپنی رہائش گاہ یا کسی نجی تقریب میں گلاس ہاتھ میں لیے وہ اکثر شکایت کرتے تھے، اس جنگ میں فتح حاصل کرنے کے باوجود ان کو کوئی قومی اعزاز نہیں دیا گیا اور تو اور تاریخی فوٹو میں بھی ان کو جنرل اروڑہ کے پیچھے کھڑا کر دیا گیا۔

ہاں بنگلہ دیش نے 2012 میں ان کو قومی اعزادیا۔ اس کے بعد 2019 میں بعد از مرگ اسرائیل نے بھی ان کو نوازا۔ ان کی وردی تل ابیب کے فوجی میوزیم میں رکھی گئی ہے۔ سکھ جنرل اروڑہ کو بھی یہ شکایت تھی کہ جنرل مانک شاہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے بجائے جنرل گوروناتھ اور پھر کشمیری پنڈت ٹی این رینہ کو فوجی سربراہ بنایا گیا اور جنرل جیکب کے ساتھ ا ن کو بھی لیفٹنٹ جنرل کی پوسٹ سے ہی ریٹائرہونا پڑا۔

وزیر اعظم اندرا گاندھی کے لیے جنگ کی تیاریوں کے دوران جنرل جیکب کی یہ اہمیت رہی کہ ان کی وجہ سے اسرائیل نے پورے مغربی بلاک کی مخالفت کو درکنا ر کرتے ہوئے ہندوستان کوہتھیار فراہم کردیے۔ اسرائیلی، ہندوستان کی فتح ایک یہودی جنرل کے سر پر بندھوانے کے لیے کمربستہ تھے۔

مورخ سری ناتھ راگھون نے اندرا گاندھی کے مشیر پی این ہکسر کے دستاویزات کے حوالے سے لکھا ہے کہ خارجی انٹلی جنس ایجنسی نے اسرائیل سے یہ ہتھیار جرمنی، سوئزرلینڈ اور آسٹریا کے سرحدوں پر ایک چھوٹے سے ملک لسٹن شائن کے ذریعے حاصل کیے، کیونکہ ان دونوں ممالک کے دوران سفارتی تعلقات نہیں تھے۔

اسرائیل نے اس دوران ایران کو اسلحہ کی منتقلی روک کر یہ امداد ہندوستان کو دی تھی۔ ایران اس جنگ میں پاکستان کا اتحادی تھا۔ ایک امریکی صحافی کے مطابق ہتھیاروں کے علاوہ اسرائیل نے خفیہ طور پر انسٹرکٹر بھی فراہم کیے تھے۔ مارٹر اور گولہ بارود فراہم کرنے والے اسلحہ ساز کی شناخت پولش یہودی شلومو زابلو ڈ ویکز کے نام سے ہوئی ہے۔

جنرل جیکب کی ایما پر اسرائیل نے ہندوستان کو 160 ایم ایم ٹیمپیلا مارٹر دیے، جس نے جنگ کا پانسہ پلٹ دیا۔ یہ ہتھیار مکتی واہنی میں بھی تقسیم کئے گئے۔

اسرائیلی ماہرین کے مطابق گو کہ ہندوستان کے ساتھ اس ملک کے اسٹریٹجک رشتے 1949 سے ہی قائم تھے، مگر چونکہ ہندوستانی حکمران عرب ممالک کی ناراضگی مول نہیں لینا چاہتے تھے، اس لیے کانگریسی حکومتیں ان کو سیاسی نوعیت دینے کی ہمت نہیں کر پاتی تھیں۔ کیونکہ ہندوستان کی انرجی سیکورٹی کا دارومدار ہی خلیجی ممالک پر تھا۔

ہندوستان اور اسرائیلی سفارت کاروں کے درمیان ابتدائی ملاقاتوں میں سے ایک ستمبر 1949 میں وزیر اعظم جواہر لال نہرو کی بہن وجیا لکشمی پنڈت، جو ان دنوں واشنگٹن میں ہندوستان کی سفیر تھیں کی اپنے اسرائیلی ہم منصب الیاہو ایلتھ کے ساتھ ملاقات تھی۔

ایک ماہ بعد، جب نہرو نے امریکہ کا دورہ کیا، تو انہوں نے بھی اسرائیلی سفیر کے ساتھ ملاقات کی تھی۔ 1951 میں تو امریکہ میں اسرائیلی سفیر ابا ابان کو یوم جمہوریہ کی تقریب میں مدعو کیا گیا تھا۔ وہ بعد میں اسرائیل کے آٹھ سال تک وزیر خارجہ رہے۔ لہذا یہ نتیجہ نکالنا کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات صرف بھارتیہ جنتا پارٹی کے دور میں ہی قائم ہوگئے ہیں، غلط ہوگا۔

ہاں مسلمانوں کو اذیت ملنے سے دائیں بازو کے ہندوتوا کے پیروکاروں کو ذہنی لذت ملتی ہے اور وہ ہر کسی ایسی حرکت کی آنکھیں موند کر حمایت کرتے ہیں۔

سفارتی طور پر اس جنگ میں جنوبی افریقہ کی طرح کا کردار نبھاتے ہوئے، ہندوستان واقعی ترقی پذیر ممالک یا گلوبل ساؤتھ کی لیڈرشپ کا حقدار ہوسکتا تھا۔

ابھی ایک ماہ قبل ہی نئی دہلی میں جی 20 کے سربراہی اجلاس کے موقع پر وزیر اعظم نریندر مودی نے طمطراق کے ساتھ اعلان کیا تھا کہ ہندوستان اب گلوبل ساؤتھ کی آواز بن گیا ہے اور یہ سبھی ممالک ہندوستان کو ایک با اعتماد شراکت دار اور لیڈر کے بطور دیکھتے ہیں۔

مگر جب اس لیڈرشپ کے امتحان کا وقت آگیا، تو بدقسمتی سے ہندوستان اس میں بری طرح ناکام رہا۔

امریکہ نے جب دوسری خلیجی جنگ کے دوران عراق پر فوج کشی کی، تو اس وقت پاکستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن تھا۔ جب نیویار ک میں اس کے مندوب نے فارن آفس سے ہدایت مانگی کہ سلامتی کونسل میں اس قضیہ کے حوالے سے پاکستان کو کیا پوزیشن لینی ہے، تو صدر پرویز مشرف نے سوال کیا کہ پاکستان کو امریکہ بنام مسلم ممالک کے مسائل میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے؟ پھر ان کو بتایا گیا کہ پاکستان حال ہی میں سلامتی کونسل کا رکن منتخب ہوگیا ہے، اس لیے کوئی موقف اپنانا ضروری ہو گیا ہے، تو انہوں نے ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو اس بڑے سائز کے جوتے میں پیرڈالنے کی کیوں ضرورت پیش آئی؟

خیر چونکہ حملہ ایک مسلم ملک پر ہورہا تھا،بعد میں پاکستانی سفیر نے اس قرار داد پر ووٹ ڈالنے سے پرہیز کیا۔ یہی کچھ حال اب اس وقت ہندوستان کے ساتھ بھی پیش آیاہے۔ ایک بڑے سائز کے جوتے میں پیر ڈالنے کے بعد اور گلوبل ساؤتھ کی لیڈرشپ کا دعویٰ کرنے کے بعد اس کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ فلسطین پر اپنے موقف پر قائم رہے یا مغربی دنیاکے استعمار کا ساتھ دے۔

ہندوستان کی جانب سے دہشت گردی کی مکمل مذمت قابل فہم ہے، لیکن اس کا تنازعات کے خاتمے یا شہری جانوں کے تحفظ کے لیے تحمل پر زور دینے سے بھی پرہیز کرنا نہایت ہی بدقسمتی تھی۔ اسرائیل کے ساتھ یکجہتی کا اظہار باضابطہ طور پر مودی کے ذریعہ سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا گیا تھا، جس کا اعادہ انہوں نے نیتن یاہو کے ساتھ بعد کی بات چیت کے دوران کیا۔

اس کوشش میں،ہندوستان نے خود کو برکس گروپ (برازیل، روس، ہندوستان، چین اور جنوبی افریقہ) میں بھی الگ تھلگ کرلیا۔

بین الاقوامی سیاست کے پروفیسر راجیش راجگوپالن اور خارجہ پالیسی کے ماہر ہرش وی پنت کے مطابق ہندوستان کی تمام تر توجہ ابھی حال ہی میں طے پائے گئے مشرق وسطی-یورپ اکنامک کوریڈور (آئی ایم ای ای سی) کو بچانے میں لگی ہوئی ہے۔ مگر شاید ہندوستان میں فیصلہ سازوں کے علم میں نہیں ہے کہ اس کا وجود ہی مشرق وسطیٰ میں امن اور مسائل کے پرامن حل پر منحصر ہے۔

کوئنسی انسٹی ٹیوٹ میں گلوبل ساؤتھ پروگرام کے ڈائریکٹر سارنگ شیدور کا استدلال ہے کہ اسرائیل کے لیے ہندوستان کی حمایت عالمی دہشت گردی کے خلاف اس کے موقف کو تقویت دیتی ہے۔ مگر صرف اس ایک وجہ کو لے کر استعماری طاقتوں کی حمایت کرنے سے ہندوستان کی سفارتی حیثیت گھٹ گئی ہے، جو ایک ماہ قبل آسمان کو چھو رہی تھی۔

سابق ہندوستانی سفارت کار ایم کے بھدر کمار کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی بڑھتی ہوئی جارحیت اور شہریوں کی جانوں کے ضیاع کے باوجود اس طرح کی کھلم کھلا حمایت سے ہندوستان نے گلوبل ساؤتھ میں اپنی ساکھ کو داؤ پر لگا دیا ہے۔ ہندوستان کی سفارت کاری دو کشتیوں پر سوار ہے۔ ایک طرف اسرائیل سے دوستی، تو دوسری طرف ترقی پذیر ممالک یعنی گلوبل ساؤتھ کی لیڈرشپ کا دعویٰ۔