خبریں

دہلی ہائی کورٹ نے تہواروں کے پیش نظر مسلم مہاپنچایت کی اجازت نہیں دی

دہلی ہائی کورٹ نے 29 اکتوبر کو قومی دارالحکومت کے رام لیلا میدان میں ‘آل انڈیا مسلم مہاپنچایت’ منعقد کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ اس وقت ہونے والے کئی ہندو تہواروں کے دوران فرقہ وارانہ کشیدگی پھیل سکتی ہے۔

(تصویر بہ شکریہ: اے این آئی)

(تصویر بہ شکریہ: اے این آئی)

نئی دہلی: دہلی ہائی کورٹ نے29 اکتوبر کو قومی راجدھانی کے رام لیلا میدان میں ‘آل انڈیا مسلم مہاپنچایت’ کے انعقاد کے لیے دہلی پولیس کو این او سی دینے کی ہدایت دینے سے انکار کر دیا ہے۔

عدالت نے کہا کہ یہ پروگرام اس وقت ہونے والے کئی ہندو تہواروں کے دوران فرقہ وارانہ کشیدگی کی وجہ بن سکتا  ہے۔

بار اینڈبنچ کی رپورٹ کے مطابق، جسٹس سبرامنیم پرساد نے کہا کہ اجازت نہیں دی جا سکتی کیونکہ پروگرام  کے پوسٹر سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس میں فرقہ وارانہ رنگ ہے اور اجتماع پرانی دہلی کے علاقے میں ہوگا، جو کہ فرقہ وارانہ طور پر حساس علاقہ ہے۔

یہ پروگرام ’مشن سیو کنسٹی ٹیوشن‘ نامی تنظیم کے زیر اہتمام ہونا تھا۔ اس تقریب کی اجازت پہلے دہلی پولیس اور دہلی میونسپل کارپوریشن دونوں نے دی تھی لیکن بعد میں اسے واپس لے لیا گیا۔

عدالت نے اجازت واپس لینے کے فیصلے کو برقرار رکھا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا، ‘ نوراتری اور دیوالی کے درمیان کروا چوتھ، دھن تیرس جیسے کئی تہوار آتے ہیں۔ شرادھ کے اختتام سے دیوالی تک کا عرصہ ہندو برادری کے لیے بہت مبارک مانا جاتا ہے۔ اگرچہ اس پروگرام کو لوگوں کو ان کے حقوق کے بارے میں آگاہ کرنے کے مقصد سے ڈیزائن کیا گیا ہے، لیکن پوسٹرز (پروگرام کے)  سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان میں فرقہ وارانہ رنگ ہوسکتا ہے، جس کے نتیجے میں پرانی دہلی کے علاقے میں فرقہ وارانہ کشیدگی پھیل سکتی ہے، جو لوگوں کے لیے ایک حساس علاقہ ہے۔ وہاں مختلف برادریوں کے لوگ رہتے ہیں اور یہ علاقہ فرقہ وارانہ تشدد سے اچھوتا نہیں رہا ہے۔’

عدالت نے کہا کہ درخواست گزار تنظیم تہوار ختم ہونے کے بعد اپنا پروگرام ترتیب دے سکتی ہے اور اجازت کے لیے نئے سرے سے حکام سے رجوع کر سکتی ہے۔ اس نے حکام کو بتایا کہ وہ میرٹ پر اجازت کے بارے میں فیصلے لے سکتے ہیں۔

مشن سیو کنسٹی ٹیوشن کے نیشنل کوآرڈینیٹر وکیل محمود پراچا ہیں۔ اس کے علاوہ قومی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین وجاہت حبیب اللہ اس کے چیف ایڈوائزر اور سابق جج جسٹس بی جی کولسے اس کے مشیر ہیں۔ مولانا توقیر رضا بھی اس تنظیم سے وابستہ ہیں۔