خبریں

’رتھ پربھاری‘ کو اب نوڈل افسر کہا جائے گا، الیکشن کمیشن نے کہا – انتخابی حلقوں میں نہ ہو مہم

گزشتہ دنوں مرکزی حکومت کی جانب سے تمام وزارتوں کو جاری کیے گئے ایک سرکلر میں کہا گیا تھا کہ وہ ملک کے تمام اضلاع سے ایسے سرکاری افسران کے نام دیں، جنہیں مودی سرکار کی ‘حصولیابیوں کو دکھانے/ جشن منانے’ کی مہم میں’ ضلع رتھ پربھاری (اسپیشل افسر)’ کے طور پر تعینات کیا جاسکے۔

نریندر مودی۔ (تصویر بہ شکریہ: پی آئی بی)

نریندر مودی۔ (تصویر بہ شکریہ: پی آئی بی)

نئی دہلی: نریندر مودی حکومت کے آئی اے ایس افسران کو ‘رتھ انچارج’ بنانے سے پیچھے ہٹنے کے چند گھنٹے بعد ہی الیکشن کمیشن نے جمعرات (26 اکتوبر) کو ایک نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ یہ سرگرمیاں ان انتخابی حلقوں میں نہ کی جائیں جہاں 5 دسمبر تک  ماڈل ضابطہ اخلاق تک نافذ ہے۔

رپورٹ کے مطابق، الیکشن کمیشن کے نوٹس میں کہا گیا ہے، ‘یہ کمیشن کے علم میں لایا گیا ہے کہ 20 نومبر 2023 سے شروع ہونے والی مجوزہ ‘وکاس بھارت سنکلپ یاترا’ کے لیے سینئر افسران کو خصوصی افسر کے طور پر ‘ضلع رتھ پرہری’  نامزد کرنے کے لیے وزارتوں کو خط بھیجا گیا ہے۔’

اس میں مزید کہا گیا،’کمیشن نے 9 اکتوبر 2023 کو چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش، میزورم، راجستھان اور تلنگانہ کی اسمبلیوں کے لیے2023کے عام انتخابات،اور ناگالینڈ کے 43-تاپی (ایس ٹی) اسمبلی حلقے کے ضمنی انتخابات کے شیڈول کا اعلان کیا ہے۔ سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کی رہنمائی کے لیے ضابطہ اخلاق کی دفعات اعلان کی تاریخ سے 5 دسمبر 2023 تک عارضی طور پر نافذ العمل ہیں۔’

خط میں مزید کہا گیا ہے کہ ‘اس کے پیش نظر کمیشن نے ہدایت کی ہے کہ مذکورہ سرگرمیاں ان انتخابی حلقوں میں نہ کی جائیں جہاں 5 دسمبر 2023 تک ماڈل ضابطہ اخلاق نافذ ہے۔’

دلچسپ بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کا نوٹس ایسے وقت میں آیا جب جمعرات کو اطلاعات و نشریات کے سکریٹری اپوروا چندرا نے اعلان کیا کہ ماڈل ضابطہ اخلاق کے پیش نظر یہ پروگرام انتخابی ریاستوں میں شروع نہیں کیا جائے گا۔

حکومت کےاس منصوبے پرتنقید کا سامنا کرنے کے بعد چندرا نے اس بات پر زور دیا کہ سینئر سرکاری افسران کے لیے’رتھ پربھاری’کی اصطلاح کا استعمال نامناسب ہے اور ان اہلکاروں کو اب نوڈل افسر کے طور پر مخاطب کیا جائے گا۔

تاہم،محض یہ کہہ دینا کہ ان سرکاری ملازمین کو ’رتھ پربھاری‘ نہیں کہا جائے گا، اس سرکاری فرمان  کےحقیقی  مسئلے کا حل نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انتخابات میں رائے دہندگان کو متاثر کر نے والی  ‘کسی بھی سرگرمی’ میں حصہ لینے والے سرکاری ملازمین سینٹرل سول سروسز (کنڈکٹ) کے اصول اور دیگر سینٹرل اور آل انڈیا سروسز کے متعلقہ طرز عمل کے قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔

حکومت ہند کے سابق سکریٹری ای اے ایس سرما نے مرکزی حکومت کے منصوبے پر الیکشن کمیشن آف انڈیا کو لکھے گئے دو خطوط میں سے ایک میں اس بات کا ذکر کیا تھا۔

مزید برآں، انہوں نے مزید روشنی ڈالی تھی کہ ‘آئی پی سی کی دفعہ 171سی کے تحت، ‘جو کوئی رضاکارانہ طور پر کسی بھی انتخابی حق کے آزادانہ استعمال میں مداخلت کرتا ہے یا مداخلت کرنے کی کوشش کرتا ہے، وہ انتخابات میں غیر ضروری اثر و رسوخ استعمال کرنے کا مجرم ہے۔’ کسی بھی پبلک اتھارٹی کے لیےسرکاری ملازمین کو اس طرح کی سرگرمی کے لیے مجبور کرنا نہ صرف متعلقہ انتخابی قوانین کے تحت بلکہ تعزیرات ہند (آئی پی سی ) کی متعلقہ دفعات کے تحت بھی قابل سزا ہے۔’

دی وائر کے ساتھ ایک انٹرویو میں شرما نےاس سرکاری فرمان کو ‘غیر اخلاقی’ اور ‘غیر قانونی’ قرار دیا تھا۔

انہوں نے کہا، میرا اعتراض یہ ہے کہ اسمبلی انتخابات سے عین قبل حکومت اپنے افسروں  سے پچھلے نو سال کی حصولیابیوں کے بارے میں بتانے کو کہہ رہی ہے۔ یہ ہدایات ماڈل کوڈ آف کنڈکٹ کے نفاذ کے بعد آئی ہیں، اس لیے یہ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہے۔

دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق، 15 نومبر کو وزیر اعظم نریندر مودی کے دورہ کے دوران سرکاری ملازمین سے نریندر مودی حکومت کی مبینہ حصولیابیوں کے بارے میں جانکاری  کو فعال طور پر پھیلانے کی توقع ہے۔

وکاس بھارت سنکلپ یاترا کا انعقاد ’برسا منڈا جینتی– جن جاتیہ گورو دوس‘ کے موقع پر کیا جائے گا۔

یاترا کی پوری مدت کے دوران معلومات، تعلیم اور مواصلات کی گاڑیاں جھارکھنڈ کے قبائلی اوردیگر اضلاع کا دورہ کریں گی۔ اخبار نے بتایاہے کہ یاترا 25 جنوری 2024 تک جاری رہے گی۔