ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ نے 20 اکتوبر کو دہلی یونیورسٹی سے منسلک سوامی شردھانند کالج میں طالبعلموں کے درمیان نظریات کی تشہیر کے لیے ایک شاکھا کا اہتمام کیا تھا۔ لکشمی بائی کالج کے ایک فیکلٹی ممبر نے بتایا ہے کہ ستمبر سے ان کے کیمپس میں آر ایس ایس نے کئی شاکھائیں کی ہیں۔
نئی دہلی: راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) نے طالبعلموں کے درمیان اپنے نظریے کی تشہیر کے لیے20 اکتوبر کو دہلی یونیورسٹی سے منسلک سوامی شردھانند کالج میں ایک ‘شاکھا’ کا اہتمام کیا تھا۔
دی ٹیلی گراف کی ایک رپورٹ کے مطابق، ڈی یو سے منسلک ایک اور ادارے لکشمی بائی کالج کے فیکلٹی ممبر نے بتایا کہ آر ایس ایس نے ستمبر سے کیمپس میں کئی شاکھائیں کی ہیں۔
ایک سینئر فیکلٹی نے اس اخبار کو بتایا کہ اکثر صرف تنظیموں میں ان کے عہدوں کی وجہ سے ڈی یو کے شعبوں اور کالجوں میں آر ایس ایس یا اس کے معاونین کے عہدیداروں کوسیمیناروں اور کانفرنسوں میں مدعو کے نے کا چلن بن گیا ہے۔
شردھانند کالج کے ایک طالبعلم نے بتایا کہ تقریباً25 طالبعلموں نے شاکھا میں حصہ لیا تھا، جس میں پرارتھنا، مباحثہ اور مختلف پروگرام شامل تھے۔ چونکہ وہ پروگرام میں شامل نہیں ہوئے تھے اس لیے زیادہ جانکاری نہیں دے سکتے۔
کالج باقاعدگی سے اپنے پروگرام میں آر ایس ایس-بی جے پی سے وابستہ لوگوں کومدعو کر رہا ہے۔
گزشتہ 18 اکتوبر کو دہلی بی جے پی کے ‘سنگٹھن منتری’ پون رانا اور بھارتیہ جنتا یوا مورچہ کے دہلی صدر ششی یادو کو کالج کے ‘میری ماٹی میرا دیش’ پروگرام میں مدعو کیا گیا تھا، جو جدوجہد آزادی کے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ایک سرکاری مہم کا حصہ تھا۔
گزشتہ 4 اکتوبر کو کالج نے ہندوستان کو’آتم نربھر’ بننے میں مدد کرنے کے لیے کاروباریوں کی حوصلہ افزائی کی غرض سے ایک کانفرنس – سواولمبی بھارت ابھیان کے تحت: انٹرپرینیورشپ پروموشن کانفرنس – کا انعقاد کیا تھا۔ اقتصادی مسائل پر آر ایس ایس کےتھنک ٹینک سودیشی جاگرن منچ کے دیپک شرما، سنجے گوڑ اور راجندر سینی اور بی جے پی کے ضلع صدر ستیہ نارائن گوتم کو مدعو کیا گیا تھا۔
گزشتہ 16 اکتوبر کو کالج اسٹوڈنٹس یونین کے نو منتخب امیدواروں کی حلف برداری کی تقریب میں آر ایس ایس کے طلبہ ونگ اے بی وی پی کی ڈی یو اکائی کےلیڈروں کو بطور مہمان مدعو کیا گیا تھا۔ طلبہ کے احتجاج کے بعد کانگریس کے طلبہ ونگ این ایس یو آئی کے یونیورسٹی سطح کے لیڈرکو بھی بلایا گیا۔
ایک طالبعلم نے بتایا کہ اس کے کالج میں آر ایس ایس اور اس سے منسلک تنظیموں کو ایڈمنسٹریشن کی حمایت حاصل ہے۔ کالج فیکلٹی سورج یادو منڈل کا کہنا ہے کہ آر ایس ایس نے حالیہ برسوں میں ڈی یو کے کالجوں اور شعبہ جات میں اپنی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں۔
منڈل نے کہا، ‘اب وہ کھلے عام کر رہے ہیں۔ سیمیناروں اور کانفرنسوں کے پوسٹروں میں اب آر ایس ایس کے عہدیداروں کا ان کے عہدوں کے ساتھ بطور مہمان ذکر کیا جاتا ہے۔ آر ایس ایس کے لوگ فیکلٹی ممبران سے خطاب کرتے ہیں، نئے بھرتی ہونے والے اساتذہ کو ان سیشنوں کے دوران بیٹھنے کے لیےمجبور کیا جاتا ہے۔’
ایک فیکلٹی نے بتایا،’ لکشمی بائی کالج میں آر ایس ایس کی شاکھائیں زیادہ تر طلبہ سے جڑنے کے لیے ہوتی ہیں، حالانکہ کچھ فیکلٹی ممبران بھی ان سے جڑتے ہیں۔
اپریل میں دہلی یونیورسٹی نے ‘قومی تعلیمی پالیسی 2020 کی روشنی’ میں پنچانگ (ہندو کلینڈر) اور ہندوستانی روایتی علوم پر ایک پروگرام کا انعقاد کیا تھا۔ پوسٹر میں مہمان خصوصی کا تعارف رام لال کے طور پر کیا گیا تھا، جس میں ان کے عہدہ کا ذکر آر ایس ایس کے آل انڈیا کمیونی کیشن چیف کے طور پر کیا گیا تھا۔
ڈی یو ٹیچرز ایسوسی ایشن کی سابق صدر نندتا نارائن نے اسے ‘پبلک یونیورسٹی کا غلط استعمال’ اور ‘کیمپس کو سیاست میں گھسیٹنے’ کی کوشش قرار دیا۔
نارائن نے کہا کہ وشو ہندو پریشد کے صدر کپل کھنہ مئی میں ڈی یو سے وابستہ جانکی دیوی میموریل کالج کے زیر اہتمام ویلیو ایڈیڈ کورسز پر منعقدہ کانفرنس میں بطور مہمان اعزازی موجود تھے۔
نارائن نے دی ٹیلی گراف کو بتایا،’اگر کوئی شخص کسی سرکاری عہدے پر ہے یا کسی موضوع کا بہت مشہور ماہر ہے، تو اسے اس حیثیت میں بلایا جا سکتا ہے، چاہے اس کی سیاسی وابستگی (آر ایس ایس یا دیگر) کچھ بھی ہو۔’
Categories: خبریں