انٹرویو: حماس کے نائب سربراہ موسیٰ ابو مرزوق کہتے ہیں کہ ہم ایک آزادی کی تحریک ہیں جو مغربی ممالک کے حمایت یافتہ قبضے کے خلاف لڑ رہے ہیں، اور ہم صرف آزادی چاہتے ہیں۔ جس طرح ہندوستان نے برطانوی قبضے کو مسترد کر کے آخر کار اسے نکال باہر پھینکا، ہم بھی ویسی ہی جنگ لڑ رہے ہیں۔ کیا 1857 کی جنگ جس میں ہزاروں افراد مارے گئے نا جائز تھی؟ اگر وہ جائز تھی اور اس کا دفاع کیا جا سکتا ہے، تو ہماری جدو جہد بھی جائز ہے۔ اگر کوئی اس وقت کہتا کہ یہ عظیم قربانیاں ہم نہیں دینا چاہتے، تو آج تک برصغیر پر برطانیہ قابض ہوتا۔
سات (7) اکتوبر کو فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کے حملہ کے جواب میں، جس طرح اسرائیل غزہ پٹی پر قہر برسا رہا ہے، ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ کیا حماس کی کارروائی واقعی ا س قدر ضروری یا اتنی مستحق تھی کہ اتنی ہلاکتوں کا بار اٹھا سکے؟
غزہ میں بچوں اور خواتین کی لاشیں دیکھ کر ان مظلوم عوام کے نالے سن کر تو آسمان شق ہو جاتا ہے۔ ان اور دیگر سوالات کا جواب ڈھونڈنے کے لیے میں نے حماس کے کئی چوٹی کے رہنماؤں، تنظیم کے بین الاقوامی امور کے سربراہ موسیٰ ابو مرزوق اور پولٹ بیورو کے رکن اسامہ ہمدان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی۔
اسامہ ہمدان نے انٹرویو کے لیے حامی تو بھرلی، مگر انتہائی مصروفیت کی وجہ سے وقت نکال نہ سکے۔
خیر کسی طرح مسلسل صبح و شام رابطہ کرنے اور کئی احباب کی مدد لےکر موسیٰ ابو مرزوق سے بات کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی۔ وہ اسی دن روس کے دورہ سے واپس آگئے تھے، جہاں انہوں نے روسی لیڈروں کو اسرائیل کے ساتھ ہورہی جنگ کے بارے میں بریف کیا تھا
۔سال 2017 میں خالد مشعل کی مدت ختم ہونے کے بعد مرزوق حماس کی سربراہی کے دعویدار تھے، مگر اندرونی انتخابات میں ا ن کو اسماعیل ہانیہ نے ہرایا۔ وہ اس وقت مزاحمتی تنطیم کے کور گروپ کے ممبر ہیں۔ ان کی فیملی کا تعلق یبانہ قصبہ سے ہے، جو اب اسرائیل کی ملکیت میں ہے۔ 1948کو ان کے والدین کو گھر سے بے گھر کردیا گیا اور وہ مصر کی سرحد سے ملحق غزہ کے رفاء کے علاقہ کے ایک ریفوجی کیمپ میں منتقل ہو گئے۔
وہ اسی کیمپ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم غزہ میں مکمل کرنے کے بعد انہوں نے کنسٹرکشن مینجمنٹ میں امریکہ کی کولاریڈو یونیورسٹی سے ماسٹرس کی ڈگری حاصل کی۔
میرے ذہن میں کئی سوالات کلبلا رہے تھے۔ اس لیے میں نے چھوٹتے ہی ان سے پوچھاکہ 7 اکتوبر کو آپ کے عسکریوں نے دنیاکی ایک مضبوط ترین فوج سے لوہا لےکر حیران و پریشان تو کردیا، مگر جس طرح اسرائیل اب جوابی کارروائی کر رہا ہے، جس طرح عام شہری اور بچے مارے جا رہے ہیں، کیا یہ کارروائی اس قابل تھی کہ اتنی قیمت دی جاسکے؟ ابو مرزوق نے کہا کہ؛
فلسطینوں پر مظالم یا فلسطین کی کہانی 7 اکتوبر کو شروع نہیں ہوئی۔ اس کی جڑ دہائیوں پر محیط قبضہ ہے، جس کے دوران سینکڑوں قتل عام کیے گئے۔ اسرائیل روزانہ ہمارے لوگوں کو بغیر کسی مزاحمت کے مارتا ہے۔ غزہ کی پٹی کا محاصرہ 17 سال پرانا ہے، اور یہ ایک سخت محاصرہ ہے۔جس میں اسرائیل نے اعتراف کیا ہے کہ وہ غزہ کے لوگوں کی طرف سے استعمال کی جانے والی کیلوریز کو بھی کنٹرول کرتا ہے۔ جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر نقصان ہوا ہے، اور نوجوانوں کی اکثریت کا مستقبل تباہ ہو گیاہے۔
آپ مجھے بتاؤ، کیا ہتھیار ڈالنا یا اسرائیل کے سامنے خود سپردگی کرنا کوئی حل ہے؟ جن لوگوں نے ہتھیار ڈالے کیا اسرائیلیوں کو وہ قابل قبول ہیں، کیا ان کے خلاف کارروائیاں کم ہوئی ہیں؟ اسرائیلی صرف فلسطینیوں کو قتل کرنا اور ان کو اپنی زمینوں اور گھروں سے بے دخل کرنا چاہتے ہیں۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے ابھی اقوام متحدہ کے اجلاس میں جو نقشہ لہرایا، اس نے تو ان کے عزائم کو تو صاف اور واضح کردیا۔
ہم ایک آزادی کی تحریک ہیں جو مغربی ممالک کے حمایت یافتہ قبضے کے خلاف لڑ رہے ہیں، اور ہم صرف آزادی چاہتے ہیں کیونکہ ہم قبضے کے تحت رہنا نہیں چاہتے۔ جس طرح ہندوستان نے برطانوی قبضے کو مسترد کر کے آخر کار اسے نکال باہر پھینکا، ہم بھی ویسی ہی جنگ لڑ رہے ہیں۔ کیا 1857 کی جنگ جس میں ہزاروں افراد مارے گئے نا جائز تھی؟ اگر وہ جائز تھی اور اس کا دفاع کیا جا سکتا ہے، تو ہماری جدو جہد بھی جائز ہے۔ اگر کوئی اس وقت کہتا کہ یہ عظیم قربانیاں ہم نہیں دینا چاہتے، تو آج تک برصغیر پر برطانیہ قابض ہوتا۔
میں نے دوسراسوال داغا، مگر آپ نے تو نہتے اور عام اسرائیلی شہریوں کو قتل کیا، اس کی کیا جوازیت ہے؟ ابو مرزوق جواب دیا کہ؛
شہریوں کی ہلاکتوں کے بارے میں اسرائیلی بیانیہ ہی غلط ہے۔ خود کئی اسرائیلیوں نے گواہی دی ہے کہ ہمارے عسکریوں نے ان کو نشانہ نہیں بنایا۔ ایسی شہادتیں بھی ہیں کہ اسرائیلی شہریوں کو مارنے والوں میں ان کی اپنی فوج ہی ملوث تھی، کیونکہ فوج نے جنگجوؤں کو نشانہ بنانے کے لیے رہائشی علاقوں پر بمباری کی، جس میں درجنوں شہری مارے گئے۔
ہمارے جنگجوؤں کے پاس ہلکے ہتھیار اورزیادہ سے زیادہ ہلکے مارٹرز تھے۔ جن اسرائیلی علاقوں کی تباہی اور بربادی کو کو ٹی وی پر دکھا کر ہمارے کھاتے میں ڈالا جا رہا ہے، کسی بھی ماہر سے اس کا معائنہ کروادیں، وہ بکتر بند گاڑیوں کے گولوں اور بھار ی ہتھیاروں سے تباہ ہوگئے ہیں۔
ہمارے پاس اس طرح کے ہتھیار ہی نہیں تھے۔ جہاں تک اس میوزک فیسٹیول کا تعلق ہے جو اسرائیلی پروپیگنڈے کے ذرائع استعمال کر رہے ہیں اور واویلا کیا جا رہا ہے کہ وہاں ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ پہلے تو یہ کہ ہمیں بالکل معلوم نہیں تھا کہ اس علاقہ میں کوئی میلہ لگا ہوا ہے۔ جب ہمارے جنگجو وہاں پہنچے، وہاں اسرائیلی فوج سے جم کر مقابلہ ہوا۔ ان کو نکالنے یا رہداری دینے کے بجائے اسرائیلی فوج نے ان کی آڑ لی۔ یہ علاقہ وار زون بن گیا۔ اسرائیلی فوج نے تو اس علاقہ میں میزائل داغے۔
اس سوال کے جواب کو جاری رکھتے ہوئے ابو مرزوق نے تاہم اعتراف کیا کہ جب ان کے جنگجووں نے سرحد عبور کی، تو وہ سخت مقابلہ کی توقع کر رہے تھے، ان کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ عسقلان تک ان کو کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ بارڈر پوسٹ پر اسرائیلی گارڑز نے ہتھیار ڈال دیے یا بھاگ گئے۔ جس کی وجہ سے خاصی افراتفری مچ گئی۔جب سرحد کی باڑ ٹوٹ گئی، تو غزہ کی پٹی سے سینکڑوں شہری اور دیگر افراد دھڑا دھڑ اسرائیلی مقبوضہ علاقوں میں داخل ہوئے۔ یہ نظم و نسق کا معاملہ تھا، مگر ایسے وقت میں اس کو سنبھالنا مشکل تھا۔ ہماری پلاننگ میں ایسی صورت حال کی عکاسی نہیں کی گئی تھی۔ ان شہریوں نے اپنے طور پر کئی اسرائیلوں کو یرغمال بنادیا۔
ہم نے تمام متعلقہ فریقوں کو مطلع کیا ہے کہ ہم عام شہریوں اور غیر ملکیوں کو رہا کر دیں گے، اور ہم انہیں نہیں رکھنا چاہتے، اور ان کو پکڑکر رکھنا ہمارے منشور میں نہیں ہے۔ ہم ان کی رہائی کے لیے مناسب حالات پیدا کرنا چاہتے ہیں۔غزہ کی پٹی پر شدید بمباری کے وجہ سے یہ مشکلات پیش آرہی ہیں۔
میں نے ان سے پوچھا کہ بتایا جاتا ہے کہ آپ کے حملے کا ایک مقصد ابراہیمی معاہدے یا عرب ممالک کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات کو معمول پر لانے میں رکاوٹ پیدا کرنا تھا۔ اس پر آپ کی کیا رائے ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ؛
اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان نارملائزیشن کے معاہدوں کو سبوتاژ کرنے کے لیے حماس کے حملے کی ضرورت نہیں تھی، کیونکہ عرب عوام تو پہلے ہی ان کو مسترد کر چکے ہیں۔ مثال کے طور پر، مصر اور اردن نے اسرائیل کے ساتھ 40 سال قبل امن معاہدے کیے تھے، لیکن ان کے عوام نے ان کو مسترد کر دیا ہے۔ ان ممالک کو بھی معلوم ہے کہ اس کے جواب میں ان کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔ اس لیے ہم اس ابراہیمی معاہدہ سے خوف زدہ نہیں ہیں۔ وہ اپنی موت آپ مریں گے۔
میں نے ابو مرزوق کی توجہ دلائی کہ دنیا بھر میں مسلح مزاحمتی تحریکوں کی اب شاید ہی کوئی گنجائش باقی رہ گئی ہے۔ ان گروپوں کو اب دہشت گروں کے زمرے میں رکھا جاتا ہے۔ جیسا آپ نے خود ہی دیکھا، پورا مغرب اسرائیل کے پیچھے کھڑا ہو گیا ہے۔ کیا اس نئے ماحول میں آپ پر امن تحریک کی گنجائش نہیں نکال سکتے ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیاکہ؛
تیس سال تک انہوں نے پرامن راستہ آزمایا۔ الفتح تحریک نے اوسلو معاہدے پر دستخط بھی کیے۔ 30 سال بعد نتیجہ کیا نکلا؟ ہمیں فلسطینی ریاست نہیں ملی جیسا کہ انہوں نے ہم سے وعدہ کیا تھا، اور مغربی کنارہ الگ تھلگ جزیرہ کی طرح رہ گیا ہے۔ یہودی بستیوں نے اسے ہڑپ کر لیا ہے، اور غزہ کا محاصرہ کر لیا گیا ہے۔
دونوں فلسطینی علاقوں کو ایک دوسرے سے جدا کر دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے لوگ اب صرف پرامن حل اور جدوجہد پر یقین نہیں رکھتے۔ ہم جامع مزاحمت پر یقین رکھتے ہیں جس میں مسلح مزاحمت اور عوامی مزاحمت بھی شامل ہے۔
ہمارے لوگوں نے عظیم مارچ میں شرکت کی اور سینکڑوں ہزاروں لوگ روزانہ غزہ کی سرحد پر محاصرہ توڑنے اورمغربی کنارہ کے ساتھ رابطہ کرنے کا مطالبہ کرتے تھے۔ مگر اس پر امن جدوجہد کا کیا نتیجہ نکلا؟ جدوجہد کو پر امن رکھنا یا اس کو پر تشدد بنانا، قابض قوت کے اختیار میں ہوتا ہے۔ اگر وہ پر امن جدوجہد کو ایک اسپیس دے، تو یہ پرامن رہ سکتی ہے۔
ایک اور اہم سوال میرے ذہن میں تھا کہ 2006 میں حماس غزہ میں برسراقتدار آگئی۔ مغربی کنارہ کے برعکس اس خطے کے پاس سمندری حدود تھیں اور اگر گورننس پر توجہ دی گئی ہوتی تو اس کو علاقائی تجارتی مرکزمیں تبدیل کرکے مشرق وسطیٰ کے لیے ہانگ کانگ یا سنگاپور بنایا جاسکتا تھا۔اسے سے فلسطینیوں کا بھی بھلا ہوتا اور ایک طرح سے خطے میں مثالی علاقہ بن جاتا۔ مگر حماس نے اس کو میدان جنگ بنادیا۔ ابو مرزوق نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ؛
یہ الزام سن کر ہی عجیب لگتا ہے کہ غزہ کو ہم نے میدان جنگ بنادیا۔ حماس کی تحریک 1987 میں قائم ہوئی، ہم نے 2006 میں اقتدار سنبھالا، اور اسی کے ساتھ ہی ہمارا محاصرہ کیاگیا تاکہ ہم اچھی طرح حکومت نہ کر سکیں۔ اسرائیل، امریکہ، اور ظالم مغربی دنیا نے ہمیں ناکام بنانے کے لیے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ پھر بھی ہم ثابت قدم رہے۔
اور اسرائیل نے جان بوجھ کر ہمیں تباہ کرنے کے لیے منظم طریقے سے نشانہ بنایا۔ اس صورت حال میں ہم کیسے ایک معیشت کو ترتیب دے سکتے تھے؟ کیا سنگاپور یا ہانگ کانگ کو اسی طرح کی صورت حال کا کبھی سامنا کرنا پڑا؟ خوشحالی کا پہلا قدم نظم و نسق اور مجرموں سے نجات اور پھر ریاست کی تعمیر ہے۔
اسرائیلی قبضے سے قبل ہم واقعتاً خطے کے سب سے ترقی یافتہ علاقوں میں سے ایک تھے۔ جب قبضہ آیا تو ہم پر جنگیں، نقل مکانی ٹھونس دی گئی۔ ہمارے آدھے لوگ فلسطین سے باہر پناہ گزین ہوگئے۔ ہم ترقی اور خوشحالی کی زندگی جینا چاہتے ہیں۔ مگر کیا قبضے میں رہتے ہوئے ہم خوشحال ریاست بنا سکتے ہیں؟
میں نے پوچھا، خیر آپ نے تو اب جنگ شروع کردی ہے، اس کا انجام کیا ہوگا؟ ابو مرزوق نے جواب دیا کہ؛
جنگ تو انہوں نے شروع کی ہے، جنہوں نے سرزمین پر قبضہ کیاہے۔ میرے جوان خطے کی سب سے مضبوط ترین فوج کو بے بس کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ ہم اپنی مزاحمت اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک کہ ہم اپنی آزادی حاصل نہیں کر لیتے، اور ہماری آزادی ہی اس جنگ کا انجام ہے۔
عرب ممالک ہمیشہ ہی حماس سے خائف رہتے ہیں۔ کیونکہ حماس کو اخوان المسلون ہی ایک شاخ تصور کیا جاتا ہے۔ ایران نے اس کی بھر پور مدد کی ہے۔ میں نے جب ان کی توجہ اس طرف دلائی، تو ان کا کہنا تھا کہ؛
فلسطینی مزاحمت ایرانی انقلاب سے پہلے موجود تھی۔ ایران ہمیں مدد فراہم کرتا ہے، اور ہم اس کے لیے اس کا شکریہ ادا کرتے ہیں، اور ہم مختلف جماعتوں اور ملکوں سے ہر قسم کی حمایت حاصل کرنے کے لیے تیار ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ عرب عوام ان کے ساتھ ہیں، اور یہ ان کا بڑا سرمایہ ہے۔
خیر سوالوں کے سلسلہ کو آگے بڑھاتے ہوئے میں نے ان سے پوچھا کہ آپ اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے۔ لیکن اسرائیل ایک حقیقت ہے۔ اگر آپ دو ریاستی فارمولے کو نہیں مانتے تو پھر آگے کا راستہ کیا ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ابو مرزوق نے پھر برصغیر کی تاریخ دہرائی۔ آخر میں الٹے سوالات کا ایک بیراج میر ی طرف کرتے ہوئے کہا کہ جن فلسطینیوں نے اسرائیل کو تسلیم کیا، تو کیا اسرائیل نے ان کی اس لچک کا جواب دے دیا؟ کیا دو ریاستی فارمولہ کو نافذ کیا؟ کیا آپ کو پتہ نہیں کہ مغربی کنارہ میں کیا ہو رہا ہے؟
سوالات کے اس بیراج، جس کا میرے پاس ظاہر ہے کوئی جواب نہیں تھا،کے بعد میں نے پوچھا کہ کیا مشرق وسطیٰ میں امن کی خاطر اسرائیل اور فلسطین کا ایک ساتھ رہنا ممکن ہے؟ حماس کے لیےیہ قابل قبول کیوں نہیں ہے؟ انہوں نے تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ؛
آپ بھیڑ کے بچے سے یہ کہلوانا چاہتے ہیں کہ تم بھیڑیے کے ساتھ رہنے پر راضی ہوجاؤ؟ آپ کو یہ سوال بھیڑیے سے کرنا چاہیے، جس کے پاس جوہری ہتھیار ہیں اور مشرق وسطیٰ میں انتہائی جدید ترین فوج کا مالک ہے۔ جہاں تک ہم فلسطینیوں کا تعلق ہے، ہم نے اوسلو میں مذاکرات کیے، دو ریاستی حل کی پری بھی ہمیں دکھائی گئی۔ پھر کیا ہوا، کیا ہمارے علاقے خالی کیے گئے؟
کیا ہمیں ریاست بننے دیا گیا؟ درحقیقت اسرائیل کے موجودہ وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو فلسطینیوں کے ذہنوں سے فلسطینی ریاست کے قیام کے تصور کو کھرچنا چاہتے ہیں۔ کیا ایسے افراد یا ایسے نظریہ کے ساتھ رہنا ممکن ہے؟ کیا ان لوگوں کے ساتھ رہنا ممکن ہے جو یہ مانتے ہیں کہ ایک اچھا فلسطینی مردہ فلسطینی ہی ہے؟
انٹرویو اختتام کو پہنچ رہا تھا۔ میں نے آخری سوال ایک توپ کی طرح داغ کر پوچھا کہ ا یک تاثر یہ بھی ہے کہ فلسطینی خود بکھرے ہوئے اور منقسم ہیں۔ دنیا میں کوئی منقسم تحریک کے ساتھ معاملات طے کرنا پسند نہیں کرتا ہے۔ سوال ختم ہونے سے قبل ہی ابومرزوق نے کہا کہ؛
ایک مضحکہ خیز دلیل ہے۔ حماس تو 2006 میں غزہ میں برسراقتدار آئی۔ یعنی اسرائیل کے قیام کے چھ دہائیوں بعد، تو پھر ان دہائیوں کے دوران دنیا نے فلسطینی عوام کو آزادی کیوں نہیں دلائی؟ آج دنیا فلسطینوں کے منقسم ہونے کا بہانہ ڈھونڈ رہی ہے تاکہ فلسطینیوں پر الزام دھرا جا سکے۔
ان کی بین الاقوامی پوزیشن مشکوک بنائی جائے۔آزادی کے عمل کے دوران ہر ملک میں الگ الگ موقف اور رائے رہی ہے، کیا آپ کو برصغیر کی آزادی کی تحریک کی تاریخ معلوم نہیں ہے۔ مگر اس سے عمومی تحریک کی نفی نہیں کی جاسکتی ہے۔ وہ بہرحال برحق ہے۔
Categories: عالمی خبریں, فکر و نظر