حال ہی میں جاری حکومت کے پیریڈک فورس سروے (پی ایل ایف ایس) میں ‘سیلف ایمپلائمنٹ’ میں اضافے کی بات کہی گئی ہے۔ تاہم، ماہر اقتصادیات سنتوش مہروترا کا کہنا ہے کہ سیلف ایمپلائمنٹ میں اضافے کا اعداد و شمار ‘ان پیڈ—فیملی لیبر’ سے منسلک ہے، جس میں 2017-18 سے 2023 کے درمیان بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
نئی دہلی: حال ہی میں جاری حکومت کے پیریڈک لیبر فورس سروے میں ان پیڈ — ورکرز کی تعداد میں زبردست اضافے کا مشاہدہ کیا گیا ہے، جنہیں’سیلف ایمپلائیڈ’ کے زمرے میں دکھایا گیا ہے۔
ماہر اقتصادیات پروفیسر سنتوش مہروترا نے دی وائر کے بانی مدیر ایم کے وینو کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ ان پیڈ — ورکرز کی تعداد2017-18 میں 5 کروڑ سے بڑھ کر 2022-23 میں 8.5 کروڑ ہوگئی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) ان پیڈ — ورکرز کو ‘ ایمپلائیڈ’ یعنی کام کرنے والے فردکے طور پر بیان نہیں کرتی اور 92 ممالک میں اس سسٹم کوفالو کیا جاتا ہے۔ ہندوستان میں ان پیڈ— ورکرز سیلف ایمپلائڈ زمرے کا تقریباً ایک تہائی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ سیلف ایمپلائمنٹ بھی 2017-18 میں کل ایمپلائیڈ کے 52 فیصد سے بڑھ کر 2022-23 میں کل ایمپلائیڈکا 58 فیصد ہو گیا ہے۔ اس کی وجہ سے ان پیڈ — ورکرز کی تعداد میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا ہے جو حقیقی روزگار کے مواقع کی کمی کی وجہ سے چھوٹے خاندانوں کے ذریعے چلائی جانے والی چھوٹی دکانوں یا وینڈنگ اکائیوں میں شامل ہوتے ہیں۔
مہروترا کا یہ بھی کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں بہت سی خواتین اور نوجوان ان پیڈ — ورکرز کے زمرے میں شامل ہوئے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ غیر زرعی شعبے میں نوکریوں کی واضح طور پر کمی ہے۔ انہوں نے کہا، ‘پچھلے 15-20 سالوں سے ملک کے نوجوان پڑھ لکھ کر غیر زرعی شعبے میں کام کرنا چاہتے تھے، کھیتی میں نہیں، تو ہندوستان کی اقتصادی تاریخ میں پہلی بار 2004 سے تقریباً 2019 کووڈ سے پہلے تک بڑی تعداد میں لوگ زرعی کام چھوڑ رہے تھے۔ یہ ایک اچھی چیز تھی کیونکہ یہ اسٹرکچرل چینج کا اشارہ تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ 2012-13-14 تک اسے روزگار مل بھی رہا تھا لیکن اس کے بعداس میں مسلسل کمی آئی ہے۔ 2004 سے 2012 کے درمیان سالانہ 75 لاکھ نئی نوکریاں پیدا ہو رہی تھیں جبکہ 2013 سے 2019 کے درمیان یہ تعداد بڑھ کر 25 لاکھ سالانہ ہو گئی۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اس کی وجہ سے سیلف ایمپلائمنٹ میں اضافہ ہوا ہے، تو انہوں نے کہا کہ ایسا کہنا بالکلیہ درست نہیں ہو گا۔ ان کے مطابق، حالیہ سروے میں سامنے آنے والے ‘سیلف ایمپلائمنٹ’ کے بڑھتے ہوئے اعداد و شمار کا تعلق ‘ان پیڈ فیملی لیبر’ سے ہے، جس میں 2017-18 سے 2023 کے درمیان بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ 2017-18 میں دیہی ہندوستان میں ان پیڈ فیملی لیبر کی تعداد پانچ کروڑ تھی، جو 2022-23 میں بڑھ کر 8.5 کروڑ ہو جائے گی۔
ان پیڈ فیملی لیبر کو سمجھیں تو اس کا مطلب ہے کہ اگر کوئی خاندان کھیتی باڑی میں مصروف ہے تو کچھ افراد بھی اس کے ساتھ ہیں۔ شہر میں اگر کوئی آدمی ریہڑی یا ٹھیلہ لگارہا ہے تو اس کے خاندان کی خواتین اس کی مدد کررہی ہیں۔ خاندانی دکان ہو تو دو افراد اضافی بیٹھ گئے ہوں۔ یہاں آمدنی نہیں، انہیں تنخواہ نہیں مل رہی۔
بین الاقوامی معیارات پر ‘سیلف ایمپلائمنٹ اوران پیڈ فیملی لیبر’ کو کس طرح دیکھا جاتا ہے، اس سوال پر مہروترا نے بتایا، ‘ہم حکومت کو بتاتے رہ گئے کہ آئی ایل او ان پیڈ—فیملی لیبر کو روزگار مانتا ہی نہیں ہے۔ لیکن ہماری حکومت مانتی ہےاس لیےیہ اعداد و شمار گمراہ کن ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ حکومت زراعتی شعبے میں روزگار میں اضافے کو بہت اچھا سمجھ رہی ہے۔ لیکن جن لوگوں کو کوئی تنخواہ نہیں مل رہی تھی ان کی تعداد 8.5 کروڑ ہو گئی۔
انہوں نے مزید کہا، ‘بچے بھی اس میں شامل ہیں۔ اور یہ بہت افسوسناک ہے کہ ایک طرف تو یہ ڈھنڈورہ پیٹا جا رہا ہے کہ روزگار میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن دوسری طرف یہ نہیں ماننا کہ ان لوگوں کو کچھ آمدنی نہیں ہوتی ہے۔ بین الاقوامی ادارے اسے روزگار مانتے بھی نہیں ہیں۔ وہاں روزگار اسے مانا جاتا ہے جس میں آمدنی ہوتی ہے۔ یہاں آپ صرف کام کر رہے ہیں، پیسے نہیں مل رہے ہیں۔ لیبر فورس کا سروے 92 ممالک میں کیا جاتا ہے لیکن ہمارا واحد ملک ہے جو ایسی محنت کو روزگار سمجھتا ہے۔
سرکاری سروے میں دیگر اہم اعداد و شمار یہ ہیں کہ اوسط ماہانہ تنخواہ 18-2017 کے درمیان 19450 روپے اور 2022-23 میں 20039 روپے رہی ، جو کم و بیش مستحکم ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پچھلے 5 سالوں میں اوسط تنخواہ میں اصل میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے، جو کہ روزگار کے بگڑتے معیار کو ظاہر کرتا ہے۔
یہ بھی سیلف ایمپلائمنٹ میں لگے لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور اس کے نتیجے میں ان پیڈ لیبرکے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ ان کی قوت خرید کی کمی، خاص طور پر دیہی علاقوں میں، حالیہ برسوں میں ہندوستان لیور، بجاج آٹو وغیرہ جیسی صارف کمپنیوں کی دیہی مانگ میں اضافہ کی کمی میں بھی واضح طور پر ظاہر ہوتا ہے۔
اس پوری بات چیت کو نیچے دیے گئے لنک پرملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔