خبریں

نیم فوجی دستوں کے سابق جوانوں نے پرانی پنشن بحال کرنے کا مطالبہ کیا، وزیر اعظم سے ملاقات کے لیے وقت مانگا

دی کنفیڈریشن آف ایکس پیراملٹری فورسز ویلفیئر ایسوسی ایشن نے پرانی پنشن اسکیم (او پی ایس) کی بحالی کا مطالبہ کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کے لیے وقت مانگا ہے۔ 2004 میں قومی پنشن اسکیم میں ان سابق جوانوں کی شمولیت کو یہ ‘امتیازی’ قرار دیتے ہیں اور او پی ایس کے لیے مسلسل احتجاجی مظاہرہ کر رہے ہیں۔

نیم فوجی دستوں سابق فوجیوں کا جنتر منتر پر مظاہرہ۔ (فائل فوٹو: اسپیشل ارینجمنٹ)

نیم فوجی دستوں سابق فوجیوں کا جنتر منتر پر مظاہرہ۔ (فائل فوٹو: اسپیشل ارینجمنٹ)

نئی دہلی:دی  کنفیڈریشن آف ایکس پیراملٹری فورسز ویلفیئر ایسوسی ایشن نے پرانی پنشن اسکیم (او پی ایس) کی بحالی کے لیے دباؤ بنانے اور اپنی دیرینہ شکایات کو پہنچانے کے لیے وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کے لیے وقت مانگا ہے۔

ملک بھر میں 12 لاکھ ان سروس اور آٹھ لاکھ ریٹائرڈ نیم فوجی دستوں کے اہلکاروں کی طرف سے کئی احتجاجی مظاہرے  اور وسیع پیمانے پر عدم اطمینان کے بعد او پی ایس کے مطالبے نے گزشتہ چند سالوں میں طول پکڑا ہے۔

گزشتہ سوموار (6 نومبر) کو اس ایسوسی ایشن کے قومی رابطہ کار رنبیر سنگھ نے کہا کہ تنظیم نے وزیر اعظم کے دفتر (پی ایم او) کو ایک میمورنڈم بھیجا ہے، جس میں وزیر اعظم سے ملاقات کے لیےوقت مانگا گیا ہے۔

انہوں نے اس حقیقت کو اجاگر کیا کہ نیم فوجی اہلکار اکثر دشمن علاقوں میں ڈیوٹی سرانجام دیتے ہیں اور مسلح افواج کے ساتھ ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ ان کی اہم خدمات کے باوجودانہیں قومی پنشن سکیم (این پی ایس) کے تحت سویلین ہم منصبوں کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے، انہوں نےاس فیصلے کو ‘امتیازی’ قرار دیا ہے۔

دی ٹیلی گراف سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ‘ہم چاہتے ہیں کہ یہ امتیازی رویہ ختم ہو اور اسی لیے ہم نے پی ایم مودی سے ملاقات کے لیے وقت مانگا ہے۔’

نیم فوجی دستے کے جوان ، جنہیں باضابطہ طور پر سینٹرل آرمڈ پولیس فورسز (سی اے پی ایف) کے نام سے جانا جاتا ہے، مسلح افواج میں اپنے ہم منصبوں کے مقابلے طویل عرصے سے نظر انداز کیے جا رہے ہیں اور امتیازی سلوک کے شکار ہیں۔

سال 2004 میں این پی ایس شروع کرنے کے حکومت کے اقدام نے نیم فوجی اہلکاروں کے لیے ریگولر پنشن اسکیم کو بدل کر شراکتی نظام میں ڈال دیا، جس کے بارے میں بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ غیر منصفانہ اور ناکافی ہے۔

مطالبات: پنشن کی بحالی اور تنخواہ میں برابری

ایسوسی ایشن کی جانب  سے پیش کردہ بنیادی مطالبے میں نیم فوجی اہلکاروں کے لیے او پی ایس کی بحالی شامل ہے، جس کا فائدہ فی الحال فوج، بحریہ اور فضائیہ کو مل رہا ہے۔

اس کے علاوہ ایسوسی ایشن ملازمین کے لیے مسلح افواج کے برابر تنخواہ کا مطالبہ کر رہی ہے۔ اس کی وجہ سے تنخواہوں میں بڑے فرق کو درست کیا جاسکے گا۔ فی الحال ان کارکنوں کو ان کے خطرے سے دوچار کرداروں کے لیے بہت کم تنخواہ  دی جاتی ہے۔

اس کے علاوہ ایسوسی ایشن مرکزی پولیس کینٹینوں میں گڈز اینڈ سروسز ٹیکس (جی ایس ٹی) سے استثنیٰ کا مطالبہ کر رہی ہے، اسے دفاعی فورسز کو دی جانے والی مراعات کے ساتھ  جوڑا جا رہا ہے۔ یہ مطالبات موجودہ کمیوں کو دور کرنے اور نیم فوجی دستوں کے اہلکاروں کے ساتھ عزت کے ساتھ پیش آنے کی فوری ضرورت پر زور دیتے ہیں۔

احتجاج اور مایوسی: پہچان  کی لڑائی

نیم فوجی دستے کے سرکردہ فوجی اپنی شکایات کے حوالے سےآواز اٹھاتے  رہے ہیں اور اپنی حالت زار کی طرف توجہ مبذول کرانے کے لیے مسلسل احتجاج کرتے آ رہے ہیں۔ گزشتہ ستمبر میں جنتر منتر سمیت ان کے پچھلے احتجاج نے پالیسی اصلاحات اور منصفانہ حل کی فوری ضرورت کو اجاگر کیا ہے۔

نیم فوجی دستوں کے سابق ملازمین نے برسوں سے جاری ان امتیازی رویوں کو اجاگر کیا ہے۔ وہ 1965، 1971 اور 1999 کی کارگل جنگوں سمیت اہم لڑائیوں کا حصہ ہونےکے ساتھ ساتھ ملک کے دفاع کی پہلی صف  کے طور پر فوج کے ساتھ کھڑے  رہےہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ان کی قربانیوں اور خدمات کے باوجود ان کی پنشن کے مراعات میں کٹوتی کی گئی ہے جس سے بڑے پیمانے پر بے اطمینانی اور مایوسی پھیل گئی ہے۔

جنوری میں دہلی ہائی کورٹ کے ایک اہم فیصلے میں، ہندوستان کے نیم فوجی دستوں کو ‘یونین کی مسلح افواج’ کے طور پر مانا گیا، جس سے وہ او پی ایس کے تحت پنشن کے اہل ہو گئے ۔ عدالت نے حکومت کو تین ہفتوں کے اندر اس فیصلے پر عملدرآمد کرنے کی ہدایت کی تھی۔

تاہم، حکومت نے اس فیصلے کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا، جس کے نتیجے میں سپریم کورٹ میں اپیل کی گئی۔ اس اہم کیس کی ریزولوشن 2024 تک مؤخر کر دی گئی ہے،معاملے میں تاخیر کی وجوہات پر خدشات اور سوال کھڑے ہوگئے ہیں۔

وزیر اعظم نریندر مودی سے میٹنگ کے لیےایسوسی ایشن کی اپیل  شناخت اور مساوات کی جدوجہد میں ایک اہم نکتہ ہے۔ ان سروس نیم فوجی اہلکاروں کے ساتھ ساتھ سابق فوجی بھی پالیسی اصلاحات کی فوری ضرورت کو اجاگر کرتے ہوئے اپنی آواز بلند کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔