کرکٹ ورلڈ کپ میں گھریلو ٹیم کو ملنے والے فوائد کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا ہے – حمایت کرنے والے 100000 سے زیادہ کرکٹ شائقین حوصلہ بڑھانے والے ہو سکتے ہیں، لیکن یہ ایک طرح کا دباؤ بھی ہے۔
آسٹریلیا جیت گیا، ہندوستان ہار گیا۔ اتوار کو ہوئے کرکٹ ورلڈ کپ کے فائنل میچ کا نتیجہ یہی ہے، چاہے اخبارات نے اسے کسی بھی طرح سے شائع کیا ہو۔ کسی نے لکھا کہ ‘ہندوستان پھر بھی چیمپئن ہے’ تو کسی نے کہا ‘آسٹریلیا کے سر پر جیت کا تاج آیا اور ہمارے ہیروز کے حصے میں دکھ’۔ایک اخبار نے پہلے صفحہ پر لکھا کہ ‘پورے ورلڈ کپ میں اپوزیشن کو تباہ کرنے والی ٹیم کو آخر کار ایک بُرا دن دیکھنا پڑا۔’
ہندوستانی ٹیم نے واقعی شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا، ایک بھی میچ میں شکست کا منھ نہیں دیکھا۔ لیکن فائنل میچ ان کا ’بُرا دن‘ نہیں تھا۔ بس اس دن اُن سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی ایک ٹیم سامنے تھی- خاص طور پر فیلڈنگ میں آسٹریلیا نے کمال ہی کر دیا، جہاں اس نے اپنی فیلڈنگ کی بدولت کافی رن بچائے، اور ٹریوس ہیڈ کا وہ دوڑتے ہوئے اور ڈائیو مارکر پکڑا گیا کیچ، جس نے ہندوستانی کپتان روہت شرما کوواپس ڈریسنگ روم بھیجا، کون فراموش کر سکتا ہے؟
آسٹریلیائی ٹیم نے منصوبہ بندی کے ساتھ کھیلا، حتیٰ کہ پہلے فیلڈنگ کرنے کا ان کا فیصلہ عجیب لگ رہا تھا، خصوصی طور پر اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ ان کے پاس ایک اچھا سکور بنانے اور دوسری ٹیم کو آؤٹ کرنے کا موقع تھا، لیکن پھر انہوں نے ہندوستانی ٹیم پر مضبوط گرفت بنائے رکھی۔انہوں نے 11 سے 50 اوورز کے درمیان ہندوستانی کھلاڑیوں کو 4 سے زیادہ چوکےنہیں لگانے دیے، جبکہ پہلے 10 اوورز میں کافی باؤنڈریز لگیں تھیں۔
اور یہ ایک ایسی پچ پر ہو رہا تھا، جس کو ہندوستان کے سب سے طاقتور کرکٹ بورڈ – بی سی سی آئی نے مبینہ طور پر ہندوستانیوں کی مدد کے لیے خصوصی طور پر تیار کیا تھا، جس کے بارے میں آسٹریلیائی کپتان نے بھی مبینہ طور پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ اگر ہم یہ مان لیں کہ گھریلو ٹیم بھی غیر مطمئن تھی تو کبھی اس بات کا پتہ نہیں چل پائے گا کیونکہ کوئی بھی ہندوستانی کھلاڑی اس کے بارے میں عوامی سطح پر کبھی بات نہیں کرے گا۔
وانکھیڑے اسٹیڈیم میں انڈیا-نیوزی لینڈ کے سیمی فائنل میچ سے قبل بھی ایسا ہی ایک تنازعہ کھڑا ہو گیا تھا کہ پچ آخری وقت میں اس لیے تبدیل کر دی گئی تھی کہ اس سے ہندوستانی ٹیم کو مدد ملے گی۔
تاہم، ٹیمیں آگے بڑھیں اور بہتر ٹیم جیت گئی۔ اور، یہ مایوس کن طور پر یکطرفہ میچ تھا، ایسا لگتا ہے کہ اس کے بارے میں بات ہی نہیں ہوئی ہے۔ یہ کوئی مشکل کھیل نہیں تھا – 50 اوور میں 240 رن بنام 43 اوور میں 4 وکٹ پر 241 رن والے کسی میچ کو سخت میچ نہیں کہا جا سکتا۔ یہ ایسا تھا، جس میں ایک ٹیم میں لڑنے کا ہنر نہیں تھا یا وہ اس کا تصور بھی نہیں کر سکی۔ یہ کسی اچھی مشین کی طرح نہیں نظر آئی، جہاں ہر پُرزہ بالکل ٹھیک کام کر رہا تھا اور جس نے ہر ہندوستانی کرکٹ شائقین کی امید اور اعتماد کو بڑھایا تھا۔ یہ ایک لڑکھڑاتا ہوا انجن لگا، جہاں کپتان روہت شرما اور ہمیشہ بھروسے مند وراٹ کوہلی کے علاوہ کسی نے بھی اپنی حقیقی صلاحیت کے مطابق کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ دوسرے بلے باز اور گیند باز آسانی سے گر گئے۔ ہندوستان اور جنوبی افریقہ کے خلاف دو بڑی شکستوں کے ساتھ ٹورنامنٹ کی شروعات کرنے والی آسٹریلوی ٹیم نے اس کے بعد نو میچ جیتے، جن میں ایک کمزور ٹیم افغانستان کے خلاف کھیلا گیا وہ شاندار میچ بھی شامل ہے، جب انہوں نے 91-7 کے اسکور سے آگے بڑھ کر جیت حاصل کی تھی۔
لیکن میدان پر کارکردگی سے زیادہ ہندوستانی ٹیم کو شدید نامعلوم دباؤ سے جوجھنا پڑا جو اتوار کے کھیل سے پرے تھا۔
گھریلوٹیم کے فائدے کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا ہے – ہندوستانیوں کو مکمل حمایت دینے والے100000 سے زیادہ کرکٹ شائقین حوصلہ بڑھانے والے ہو سکتے ہیں۔ لیکن یہ ایک قسم کا دباؤ بھی ہو سکتا ہے۔ اور احمد آباد تو یقینی طور پر ہندوستانیوں کے گلے میں پھندے جیسا تھا۔
احمد آباد کے نریندر مودی اسٹیڈیم سے زیادہ بڑی اور متعصبانہ بھیڑ کبھی نہیں رہی، جو ہر بار کسی ہندوستانی کھلاڑی کے چوکا لگانے پر دہاڑتی تھی اور جب آسٹریلوی کھلاڑیوں نے وکٹ لیا تو تالیاں تک نہیں بجائیں۔ احمد آباد، جو کبھی بھی دنیا کے یا حتیٰ کہ ہندوستان کے عظیم اسٹیڈیم میں سے ایک نہیں تھا، صرف ایک شخص کی انا کی تسکین کے لیے ایک اہم اسٹیڈیم بنایا گیا ہے۔ گجرات ان کا حلقہ ہے، جہاں وہ کچھ غلط نہیں کر سکتے – انہوں نے ایک اسٹیڈیم کی تزئین و آرائش کروائی، اس کا نام اپنے نام پر رکھا اور اسے اپنی ریاست کے لوگوں کے لیے کھول دیا۔
گجرات میں ممبئی جیسا کرکٹ کلچر یا چنئی جیسا کھیلوں سے محبت کرنے والا ہجوم نہیں ہے۔ یہ چیزیں راتوں رات ممکن نہیں ہوتیں۔ لیکن یہ فیصلہ لیا گیا کہ احمد آباد کو ہندوستان کا سب سے بڑا اسٹیڈیم ملنا چاہیے اور ایسا ہی ہوا۔
یہ وہی جگہ ہے جہاں اسی ورلڈ کپ میں پاکستانی کھلاڑی محمد رضوان کے ساتھ بدتمیزی کی گئی اور ہجوم نے ‘جئے شری رام‘ کے نعرے لگائے ۔ دوسری جانب حیدرآباد پہنچنے پر وہاں موجود ہجوم نے پاکستانی ٹیم کو دیکھ کر ان کی حوصلہ افزائی کی ۔
اتوار کو احمد آباد میں منتظمین نے آسٹریلوی کپتان کو ٹرافی پیش کرنے میں غلطی کی اور بہت سے ہندوستانی کھلاڑی اس تقریب سے پہلے ہی چلے گئے، شاید وہ پیٹ کمنس کو کپ اٹھاتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ آسٹریلوی میڈیا اور ٹوئٹر پر اس کا خوب مذاق اڑایا گیا۔
اس کے باوجود فائنل کے لیے احمد آباد کا انتخاب کیا گیا اور خود وزیر اعظم نریندر مودی اپنے مصروف شیڈول سے وقت نکال کر اسے دیکھنے کے لیے پہنچے، جہاں اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ ہندوستانی جیتیں گے اور وہ انھیں کپ پیش کرنے کے لیے میدان میں ہوں گے۔ ان کے وزیر داخلہ امت شاہ، جن کا بیٹا بی سی سی آئی چلا رہا ہے، ان کے ساتھ تھے۔ وی آئی پی سیٹوں پر شاہ رخ خان اور دیپیکا پڈوکون جیسے بالی ووڈ کے کئی سپر اسٹار، سچن تنڈولکر جیسے سابق کرکٹر سدگرو کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ تاہم 1983 میں ورلڈ کپ جیتنے والی پہلی ہندوستانی ٹیم کے کپتان کپل دیو کو مدعو نہیں کیا گیا تھا۔
پورے ٹورنامنٹ میں میڈیا بالخصوص الکٹرانک میڈیا نے ہندوستانی ٹیم کو ناقابل تسخیر بنا دیا۔ دوسری ٹیمیں بھی نہ ہونے کے برابر ہو گئیں۔ وہ دن گئے جب میڈیا ہر ٹیم کی فارم کے بارے میں معنی خیز تبصرے اور بحثیں کیا کرتا تھا – اس بار یہ سب صرف ہندوستانی ٹیم کے بارے میں تھا۔
پوری کوشش صرف اس ہندوستان کا بیانیہ بنانے کی ہے کہ ہندوستان ہر شعبے – سائنس، ثقافت، طب، معیشت اور علم میں سب سے عظیم ہے۔ 2014 میں ختم ہوئی ’ہزار سال کی غلامی‘ کو توڑتے ہوئے ہندوستان ہمیشہ سے علم کا ایک ذریعہ رہا ہے اور اب چیزیں واپس پٹری پر آ گئی ہیں۔ میڈیا اس پیغام کی تشہیر کرتا ہے اور بھکت اسے ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں۔ یہ سب اس قوم پرستی کی انتہا کو فروغ دیتا ہے جو موجودہ مقتدرہ سیاسی نظام نے تیار کیا ہے۔ ہر کوئی خوش ہے – عوام اس لیےکہ اس سے انہیں فخر کرنے کے لیے کچھ ملتا ہے، لیڈر اس لیے کہ اس سے انہیں فائدہ ہوتا ہے۔
اگر ہندوستان اتوار کو احمد آباد میں جیت جاتا تو اس میں مزید اضافہ ہوگیا ہوتا۔ اور یقیناً یہ پیغام بھی گیا ہوتا کہ یہ پہلا موقع ہے جب ہندوستان نے کرکٹ ورلڈ کپ جیتا ہے اور یہ صرف ایک شخص کی کوششوں، وژن اور قیادت کی وجہ سے ممکن ہواہے۔
ہم صرف ہندوستانی کرکٹ ٹیم کے لیے دکھ ہی محسوس کر سکتے ہیں۔ اس ٹیم میں انتہائی باصلاحیت کھلاڑی ہیں اور ٹیم کھیل کے تمام فارمیٹ میں سرفہرست ہے۔ اتوار کو ہوئے فائنل تک اس کی کارکردگی شاندار رہی۔ وہ جیت نہیں سکی، کیونکہ دوسری ٹیم نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ لیکن اس پر جو دباؤ رہا ہوگا، وہ کسی کو بھی مایوس کر سکتا ہے- نہ صرف شائقین کی امیدوں کا بوجھ، جو کسی بھی بڑے میچ میں عام سی بات ہے، بلکہ یہ احساس بھی کہ ہار کر وہ ملک کو ہی نیچا دکھائیں گے۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)
Categories: فکر و نظر