فکر و نظر

کیا اسلام مخالف رہنما گیرٹ وائلڈرز نیدرلینڈز کا نیا وزیر اعظم ہوگا

اگر وائلڈرز نیدرلینڈز کا نیا وزیراعظم بن جاتا ہے،تو یہ دائیں بازو کی ایک بڑی فتح ہوگی۔ ڈچ انتخابات مغربی یورپ میں دائیں بازو کے بڑھتے ہوئے اثر ات کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ پچھلی دہائی میں یورپ کے بیشتر ملکوں میں انتہائی دائیں بازو کی سیاست کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے۔

گیرٹ وائلڈرز، فوٹو بہ شکریہ: https://geertwilders.nl/

گیرٹ وائلڈرز، فوٹو بہ شکریہ: https://geertwilders.nl/

گزشتہ ہفتے، بدنام زمانہ ڈچ اسلام مخالف سیاست دان گیرٹ وائلڈرز نے ایک ایسے انتخابات کے بعد، جس میں ان کی پارٹی نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی تھیں، بالآخر ہالینڈ کے وزیر اعظم بننے کا عہد کیا۔ وائلڈرز نے ایکس پر عہد کیا:”میں وزیراعظم بنوں گا۔“ ایکس پر ایک طویل پوسٹ میں، اس نے اپنی فریڈم پارٹی (پی وی وی) کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے دیگر جماعتوں کی جانب سے ظاہری عدم رضامندی پر مایوسی کا اظہار کیا، وائلڈرز نے کہا کہ اگر اقتدار حاصل کرنے کے لیے ضروری ہوا تو وہ اپنے موقف کو ‘اعتدال پسند’ بنائیں گے۔

اگرچہ وائلڈرز کی پارٹی نے 22 نومبر کو امیگریشن مخالف بیانیہ پر ہونے والے انتخابات میں حریفوں سے بہت زیادہ اچھی کارکردگی دکھائی، لیکن اس کی پارٹی نے ڈچ پارلیامنٹ میں صرف 37 نشستیں حاصل کیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اسے حکومت بنانے کے لیے کم از کم دو اور معتدل جماعتوں کے ساتھ تعاون کرنا پڑے گا۔

قبل ازیں، نگراں وزیر اعظم مارک روٹے کی قدامت پسند وی وی ڈی پارٹی، جو امیگریشن پر وائلڈرز کے بہت سے خیالات کا اشتراک کرتی ہے، نے کہا کہ وہ ان کے ساتھ کابینہ میں حصہ نہیں لے گی۔ تاہم وی وی ڈی کے نئے رہنما، دلان یسیلگوز نے وائلڈرز کی زیرقیادت حکومت کو بیرونی حمایت کی پیشکش کو مسترد نہیں کیا۔پیٹر اومٹزگٹ، جو سنٹرسٹ ریفارم این ایس سی پارٹی کی قیادت کرتے ہیں اور انہیں وائلڈرز کی حکومت میں ممکنہ شراکت دار کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے، نے کہا ہے کہ غالباً دائیں بازو کے انتہائی مواقف کی وجہ سے وائلڈرز کو تعاون دینا مشکل ہوسکتاہے کیونکہ ان کے بعض موقف مذہب کی آزادی پر ڈچ کے آئینی تحفظات کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔

وائلڈرز کا اسلام مخالف موقف

گیرٹ وائلڈرز اپنی بنیاد پرست اور امیگریشن مخالف اور اسلامو فوبک سیاست کے لیے جانا جاتا ہے۔ 2007 میں، وائلڈرز نے ڈچ اخبار ڈی ووکسکرانٹ کو ایک خط بھیجا جس میں قرآن کو مائن کیمف کی طرح ایک ‘فاشسٹ کتاب’ قرار دیا گیا۔ اخبار نے اس خط کو صفحہ اول پر شائع کیا، لیکن ساتھ ہی اپنے اداریہ میں تحریر کیا کہ پی وی وی لیڈر اس موازنہ کے ساتھ بہت آگے نکل گیا ہے، جو بہت سے لوگوں کے لیے انتہائی تکلیف دہ اور ناگوار تھا۔ اس خط اور دیگر تبصروں کی وجہ سے وائلڈرز کے خلاف نفرت اور امتیازی سلوک کو ہوا دینے کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا۔ اس نے کسی غلط کام سے انکار کیا۔ 2011 میں، اسے بری کر دیا گیا اور اس کے تبصروں کو عوامی بحث کے تناظر میں قابل قبول قرار دیا گیا۔

برطانوی اخبار آبزرور کے ساتھ 2008 کے انٹرویو میں، وائلڈرز نے کہا کہ اسلام کوئی مذہب نہیں ہے۔ یہ ایک نظریہ ہے، ایک پسماندہ ثقافت کا نظریہ۔ اسی وقت اس نے ’فتنہ‘ کے عنوان سے ایک مختصر فلم بنائی۔ جس میں اس نے ایک بار پھر قرآن پاک کو ”فاشسٹ کتاب“ کے طور پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور 11 ستمبر کے حملوں کی تصاویر کو اسلامی مقدس کتاب کے اقتباسات کے ساتھ جوڑا۔ فلم کو انٹرنیٹ پر دکھایا گیا جس پر مسلم دنیا میں پرتشدد مظاہروں کی شروعات ہوئی۔ فروری 2009 میں، وائلڈرز کو فلم کی نمائش کے لیے برطانیہ میں داخلے سے اس بنیاد پر روک  دیا گیا کہ اس کی برطانیہ میں موجودگی امن عامہ کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔

وائلڈرز نے’ہیڈ رگ’ کا لفظ مسلم خواتین کے پہننے والے اسکارف/حجاب کو بیان کرنے کے لیے ایجاد کیا ہے۔ ستمبر 2009 میں نیدرلینڈز کے سالانہ سیاسی مباحثے میں، وائلڈرز نے سر کے اسکارف پر € 1,000 کا سالانہ ٹیکس تجویز کیا۔ ہیڈ اسکارف کے بارے میں اس کی پوزیشن، اور ترکی کے یورپ سے الحاق پر بات چیت نے اسے پیپلز پارٹی فار فریڈم اینڈ ڈیموکریسی (وی وی ڈی) سے علیحدگی اختیار کرنے پر مجبور کیا اور 2005 میں اس نے پی وی وی ، یا’پارٹی فار فریڈم’ قائم کی۔

امیگریشن کے بارے میں، وائلڈرز نے قوانین کی کمی کی طرف اشارہ کیا ہے اور اسے مراکش کے لوگوں کے ساتھ جوڑ دیا ہے، جن کو وہ نیدرلینڈز کی طرف ہجرت کرنے والے ‘غلیظ’ کے طور پر بیان کرتا  ہے اور اس نے 2014 میں دی ہیگ میں ایک تقریر کرتے ہوئے اس نے مہاجرین کی مذمت کی تھی۔ اس تقریر کو بالآخر ایک قوم کی توہین کے معاملے میں غیر قانونی امتیاز قرار دیا گیا۔ اس کے نتیجے میں وائلڈرز کا مجرمانہ ریکارڈ بن گیا لیکن اسے امتیازی سلوک پر اکسانے سے بری کر دیا گیا اور اسے کوئی دوسری سزا بھی نہیں دی گئی، جبکہ اس مقدمے میں وائلڈرز کے خلاف 2005 سے لے کر 2011 تک غیر جمہوری بیانات دینے یا عوام کو بھڑکانے سمیت دیگر الزامات شامل تھے۔

انتخابات کے دوران ولڈرز نے ڈچ جمہوریت کی بھی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ اس جعلی ڈچ پارلیامنٹ اور عام لوگوں کے درمیان بہت زیادہ خلیج ہے۔ 2015 کے بجٹ کے مباحثوں میں بات کرتے ہوئے، وائلڈرز نے سرحدوں کی بندش کے لیے دلیل دی تھی اور ڈچ جمہوریت پر سوال اٹھایا تھا کیونکہ اس کے زیادہ تر اراکین پارلیامان اس سے متفق نہیں  تھے۔ وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ نیدرلینڈز بھی برطانیہ کی طرح یورپی یونین سے باہر ہو جائے۔

مزید برآں، وائلڈرز نے ‘بدعنوان فلسطینی اتھارٹی’ کے گھر رام اللہ میں ڈچ نمائندگی کو بند کرنے کا بھی عہد کیا ہے۔ وہ اسرائیل کو مشرق وسطیٰ میں واحد حقیقی جمہوریت کے طور پر بیان کرتا ہے اور اپنے نیدرلینڈز میں اقتدار میں آنے کے بعد وہ اسرائیل کے ساتھ ڈچ تعلقات کو مضبوط بنانے کو یقینی بنانے اور ڈچ سفارت خانے کو یروشلم منتقل کرنے کا بھی حامی ہے۔اور اگر واقعی میں وائلڈرز نیدرلینڈز کا نیا وزیراعظم بن جاتا ہے، جس میں شاید چند مہینے بھی لگ سکتے ہیں، تو یہ دائیں بازو کی ایک بڑی فتح ہوگی جو کہ مستقبل میں یورپ کا سیاسی منظر نامہ بدلنے میں کلیدی کردار بھی ادا کرسکتی ہے۔

مجموعی طور پر، ڈچ انتخابات مغربی یورپ میں دائیں بازو کے بڑھتے ہوئے اثر ات کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ پچھلی دہائی میں یورپ کے بیشتر ملکوں میں انتہائی دائیں بازو کی سیاست کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے۔برادرز آف اٹلی کی جارجیا میلونی گزشتہ سال اقتدار میں آگئیں، مارین لی پین کی قیادت میں قومی ریلی 2022 کے فرانسیسی صدارتی انتخابات میں دوسرے نمبر پر آئی اور الٹرنیٹیو فار جرمنی پارٹی فی الحال دوسرے نمبر پر ہے۔ان سب سے ظاہر ہے کہ اگر یوروپ میں دائیں بازو کی بڑھتی ہوئی مقبولیت پر قدغن نہیں لگایا گیا تو یہ زیادہ تر ملکوں میں جمہوریت کے خلاف کوئی نیا فاشسٹ طریقہ حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ یورپ کے زیادہ تر ملکوں میں غریب اور امیر کے درمیان معاشی خلیج بڑھتی چلی جارہی ہے اور جمہوریت سے بدظن عوام کو یہی لگتا ہے کہ شاید دائیں بازو کی جماعتیں ان کے حق میں کچھ بہتر کرسکیں جبکہ حقیقت اس کے بالکل برخلاف ہے۔

اس کے علاوہ زیادہ تر سیاسی تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ جس طریقے سے یورپی ممالک میں جمہوری ادارے اپنا کام کررہے ہیں وہ بظاہر عوام تک زیادہ تر بنیادی سہولیات ایک فعال طریقے سے اور کم نرخوں پر دستیاب کرانے میں ناکام رہے ہیں۔ اور عوام کی جمہوری اداروں سے بڑھتی ہوئی ذہنی دوری دائیں بازو کی جماعتوں کو آگے بڑھنے کے لیے راہ ہموار کراتی ہے جس کے نتیجے میں یا تو وہ ملک فاشسٹ نظریہ  کا نظریہ حامی ہوجاتا ہے یا پھر وہاں پر غیر قانونیت اور غیر جمہوری نظریات حاوی ہوجاتے ہیں۔ اور اگر ایسا ہی چلتا رہا تو پھر وہ وقت دور نہیں ہے کہ یورپ سے نکل کر ایک بار پھر کوئی فاشسٹ رہنما پوری دنیا کو اپنے قبضے میں کرنے کے لیے تیسری عالمی جنگ کا اعلان کردے۔

(اسد مرزا سینئر صحافی اور سیاسی تجزیہ نگار ہیں، وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمز دبئی سے وابستہ رہے ہیں۔)