خبریں

ہندو اور مسلمانوں نے مل کر سرنگ میں پھنسے 41 مزدوروں کو بچایا: ریسکیو کمپنی کے چیف

اتراکھنڈ کے سلکیارا میں 17 دنوں سے سرنگ میں پھنسے 41 مزدوروں کو بچانے والی کمپنی راک ویل انٹرپرائزز کے مالک وکیل حسن نے کہا کہ یہ کام کوئی اکیلا نہیں کر سکتا تھا۔ ہم سب کو یہی پیغام دینا چاہتے ہیں۔ ہم سب کو مل جل کر رہنا چاہیے اور نفرت کا زہر نہیں پھیلانا چاہیے۔

گزشتہ 12 نومبر کو اتراکھنڈ کے سلکیارا میں زیر تعمیر سرنگ میں 41 مزدور پھنس گئے تھے۔ (تصویر بہ شکریہ: اے این آئی)

گزشتہ 12 نومبر کو اتراکھنڈ کے سلکیارا میں زیر تعمیر سرنگ میں 41 مزدور پھنس گئے تھے۔ (تصویر بہ شکریہ: اے این آئی)

نئی دہلی: اتراکھنڈ کے سلکیارا میں 12 نومبر کو زیر تعمیر سرنگ کا ایک حصہ منہدم ہونے سے پھنسے 41 مزدوروں کو 17 دن کی سخت جدوجہد کے بعد 28 نومبر کو بحفاظت نکال لیا گیا۔ سرنگ میں پھنسے کارکنوں کو بچانے والی کمپنی کے سربراہ نے اپنی ٹیم کے ملازمین کے عقائد کے تنوع کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ یہ کام اکیلے نہیں کیا جا سکتا تھا۔

انڈین ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے دہلی میں واقع راک ویل انٹرپرائزز کے مالک وکیل حسن نے کہا، ‘ہماری ٹیم میں ہندو اور مسلمان دونوں ہیں، دونوں مذاہب کے لوگوں نے ان 41 لوگوں کی جان بچانے کے لیے سخت محنت کی۔ ان میں سے کوئی بھی یہ کام اکیلے نہیں کر سکتا تھا اور یہی پیغام میں سب کو دینا چاہتا ہوں۔’

انہوں نے مزید کہا، ‘ہم سب کو مل جل کر رہنا چاہیے اور نفرت کا زہر نہیں پھیلانا چاہیے۔ ہم سب ملک کے لیے اپنا 100 فیصد دینا چاہتے ہیں۔ برائے مہربانی میرا پیغام سب لوگوں تک پہنچا دیں۔’

ان کی کمپنی کے 12 افراد – 6 دہلی سے اور 6 اتر پردیش کے بلند شہرسے—کو اس ریسکیو آپریشن میں شامل کیا گیا تھا۔سوموار (27 نومبر) اور منگل (28 نومبر) کی درمیانی شب ان کارکنوں نے سرنگ میں پھنسے مزدوروں تک پہنچنے کے لیے تنگ پائپوں میں تقریباً 12 میٹر تک کھدائی کی تھی۔

جن ملازمین نے کارکنوں کو بچایا ان میں حسن، منا قریشی، نسیم ملک، مونو کمار، سوربھ، جتن کمار، انکور، ناصر خان، دیویندر، فیروز قریشی، راشد انصاری اور ارشاد انصاری شامل ہیں۔ ان کی عمریں 20 سے 45 سال کے درمیان ہیں۔

یہ لوگ تنگ پائپوں کے ذریعے مٹی کھودنے میں ماہر ہیں۔ یہ ہنر دہلی جل بورڈ کے ساتھ ان کے کام کا ایک لازمی حصہ ہے۔ عام طور پر اس کام میں مصروف ملازمین کو ’رتیٹ ہول مائنرس‘ کہا جاتا ہے۔

حسن نے کہا، ‘ہم دہلی جل بورڈ کے لیے کام کرتے ہیں اور ہمارا کام چوہوں کی طرح پائپوں میں گھسنا اور مٹی کھودنا ہے۔ دو کارکن پائپ کے اندر جائیں گے، تاکہ ایک کھود سکے اور دوسرا بالٹی میں مٹی ڈال سکے تاکہ دوسرے اسے نکال سکیں۔ ایک بار جب کچھ جگہ بن جاتی ہے، تو پائپ کو آگے بڑھایا جاتا ہے۔’

انہوں نے کہا،’اپنے کام اور ریسکیو آپریشن کے درمیان فرق کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سلکیارا میں جان بچانے کے دباؤ نے انہیں آگے بڑھنے کی ترغیب دی۔’

انہوں نے کہا، ‘یہاں زندگیاں داؤ پر تھیں۔ پوری دنیا سمیت 140 کروڑ سے زیادہ لوگ ہم پر بھروسہ کر رہے تھے۔ اس سے دباؤ تو بنا، لیکن اس سے ہمیں یہ تحریک بھی ملی کہ ہمیں یہ کرنا چاہیے اور ناکامی یا سستی یا تھک جانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ تقریباً 12-15 میٹر کھدائی میں ہمیں 26-27 گھنٹے لگے۔

ایک ہی قسم کی مٹی اور کام کرنے کے حالات کے ساتھ عام حالات میں ہمیں عام طور پر 10-15 دن لگتے ہیں۔ لیکن یہاں ہم صرف کام نہیں کر رہے تھے بلکہ جان بچا رہے تھے۔

اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ کام مسلسل جاری رہے، ٹیم چھ چھ گھنٹے کی چار شفٹوں میں کام کر رہی تھی۔

حسن نے کہا، ‘اس شعبے میں کام کرنے کے لیے چھوٹے اور دبلے جسم اور اچھی صلاحیت کا ہونا بہت ضروری ہے۔ اس معاملے میں بھی پائپ صرف 800 ملی میٹر چوڑا تھا اور لڑکوں کو ہاتھ ہلانے کے لیے جگہ کی ضرورت تھی۔ انہیں ہاتھ سے پکڑے جانے والے اوزاروں کا استعمال کرنے، ملبہ ہٹانے، بالٹیوں میں ڈالنے اور پائپ سے باہر نکالنے کی ضرورت تھی۔’

انہوں نے کہا کہ انہوں نے اس کام کے لیے کوئی رقم یا تنخواہ نہیں لی۔

حسن نے کہا، ‘ہمیں اس کام کے بدلے کوئی پیسہ نہیں چاہیے تھا۔ ہمارے لیے یہ کوئی اور کام نہیں تھا بلکہ 41 جانیں بچانے کا مشن تھا۔ تاہم جس کمپنی نے ہمیں بلایا اس نے سفری کرایہ ادا کر دیا ہے۔ نویگ نے ہمارے سینئر کے ذریعے ہم سے رابطہ کیا تھا، جس نے کہا کہ اترکاشی (سلکیارا) میں ہماری ضرورت ہے۔ ہم فوراً مان گئے۔