رام مندر ٹرسٹ کے سکریٹری چمپت رائے کی اپیل سن کر بے ساختہ ‘اگیہ’ یاد آ گئے، جن کا کہنا تھا کہ ‘جو نرماتا رہے/ اتہاس میں وہ / بندر کہلائیں گے’۔اگیہ کی اس شعری صداقت سےرام مندر کے لیے جدوجہد کرنے والے کار سیوکوں اور رام سیوکوں کو کیوں روبرو کرایا جا رہا ہے؟
جو پل بنائیں گے/ وہ انیواریہ تہ (لازمی طور پر)/پیچھے رہ جائیں گے/ سینائیں (فوجیں) ہو جائیں گی پار/ مارے جائیں گے راون/ جئی (فتح)ہوں گےرام/ جو نرماتا رہے/اتہاس میں وہ/ بندر کہلائیں گے
اپنے وقت کے سب سے مشہور ہندی شاعر اور کہانی کار سچیدانند ہیرانند واتساین ‘اگیہ’ کی یہ نظم (جو اس حقیقت کی جانب ہمای توجہ مبذول کراتی ہے کہ سماجی زندگی کے تقریباً ہر شعبے میں جب کسی مقصد کے لیےکی جانے والی جدوجہد کامیاب ہو جاتی ہے تو اس میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے والوں کی کوئی قدروقیمت نہیں رہ جاتی اور اس کا کریڈٹ لینے اور جشن منانے کے لیے ایسے لوگ سامنے آ جاتے ہیں،جنہوں نے انگلی کٹائے بغیر شہیدوں میں اپنا نام لکھوا لیا ہوتا ہے۔)
اگلے سال 22 جنوری کو دوپہر 12:20 بجے ایودھیا میں’وہیں’ بنائے گئے عظیم الشان رام مندر میں رام للا کی پران— پرتشٹھا کی تقریب میں بن بلائے مہمانوں اور لوگوں سے، جو بلاشبہ عام لوگ ہیں،نہ آنے کی شری رام جنم بھومی تیرتھ ٹرسٹ کے سکریٹری چمپت رائے کی اپیل کے بعد بہت سے لوگو ں کو بے ساختہ یاد آ رہی ہے۔
اس وجہ سے اور بھی کہ انہوں نے اُن کارسیوکوں، رام سیوکوں اور رام بھکتوں کو بھی اپنی اپیل میں کوئی رعایت نہیں دی ہے، جن کی قربانی اورعزم سے رام مندر کے خواب کے شرمندہ تعبیر ہونے کی بات کہی جاتی رہی ہے۔
غور طلب ہے کہ رام مندر کے لیے مشتعل تحریک (جسے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ پریوار نے کئی موقع پر 1942 کی ہندوستان چھوڑو تحریک سے بھی بڑا قرار دیا ہے) کے دوران اس کی محرک رہی وشو ہندو پریشد عام لوگوں کی حمایت کےلیےاکثر بے چین رہا کرتی تھی اور اس کو اپنے مقصد کی تکمیل میں کامیابی بھی اسی وقت ملی، جب وہ کسی طرح انہیں یہ سمجھانے میں کامیاب ہوئی کہ یہ ان کی شناخت سے جڑا ہوا معاملہ ہے۔ اس وقت تک وہ نوجوانوں کے ایک حصے کو کار سیوک اور بعد میں رام سیوک بنا کر رام مندر کی تعمیر کے لیے جی جان لگانےکو تیار کرنے میں بھی کامیاب ہو چکی تھی۔
لیکن آج چمپت رائے کہہ رہے ہیں کہ اگر پران —پرتسٹھا کے موقع پر بن بلائے لوگ ایودھیا آتے ہیں تو کئی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔
شاید اب انھیں وہ وقت یاد نہیں، جب ‘ہندو مخالف’ حکومتوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے، دوسرے لفظوں میں کہیں تو انھیں گھٹنے ٹیکنے کے لیے، وشو ہندو پریشد رام بھکتوں کو ہرسمت سے ایودھیا کی طرف کوچ کرنے کی دعوت دیتی تھی اور کئی بار ان کے انتظامات میں خلل ڈالنے میں کامیاب بھی ہو جاتی تھی۔ یقیناً کار سیوکوں اور رام سیوکوں کی بڑی تعداد ایودھیا پہنچنے کی وجہ سے ہی یہ ممکن ہو پاتا تھا۔
یہ اور بات ہے کہ اس وقت وی ایچ پی کی تحریک کے مخالفین کہتے تھے کہ ان میں سے زیادہ تر کار سیوک اور رام سیوک راشٹریہ سویم سیوک سنگھ پریوار کےسویم سیوک ہی ہیں۔
صاف ہے کہ آج چمپت رائے یا شری رام جنم بھومی تیرتھ ٹرسٹ کے لوگ اتر پردیش حکومت کی جانب سے ایودھیا میں سڑکوں کی چوڑائی اور دیگر عوامی سہولیات میں اضافہ کے باوجود پران—پرتشٹھا کی تقریب میں بھاری بھیڑ کے جن اندیشوں سےخوفزدہ ہیں،انہوں نے انہیں 1989-90 میں یا 1992 میں بھی محسوس کیا ہوتا تو نہ کار سیوک ملائم سنگھ حکومت کی پولیس کی گولیوں کا سامنا کرتے اور نہ ہی بابری مسجد کو منہدم کرواپاتے۔
پھر رام کے نام پر ملک کے آئین اور جمہوری ڈھانچے کی توہین کرنے والوں میں ان کا نام نہیں لکھا جاتا۔ لیکن پھر اس میں بھی کافی شکوک و شبہات ہیں کہ آج رام مندر ٹرسٹ بابری مسجد کی جگہ مندر بنا رہا ہوتا۔
ایسے میں چمپت رائے اپنی اپیل کی حمایت میں کچھ بھی کہیں، اس کا ایک مطلب یہ بھی لیا جائے گا کہ وہ عام کار سیوکوں، رام سیوکوں اور رام بھکتوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ اب تمہارا کام ختم ہو چکا ہے اور پران—پرتسٹھا کی تقریب تو تمہارے بغیر بھی اپنے وی وی آئی پی مہمانوں کے ساتھ کر لیں گے۔اس میں کسی ‘ہندو مخالف’ حکومت کے ساتھ کوئی تصادم یا ٹکراو کا مسئلہ بھی نہیں ہے کہ تمہاری طاقت کی ضرورت محسوس کی جائے۔
جہاں تک تمہارے عقیدے اور آستھا کا تعلق ہے، جس کے نام پر پوری رام مندر تحریک کو تحریک دی گئی تھی، تو اب تو تم اسے دور دورسے بھی مطمئن کر سکتے ہو – اپنے اپنے گھروں کے قریب بنے مندروں میں پوجا پاٹھ کر کے، پران پرتشٹھا کا ٹیلی کاسٹ دیکھ کر یا اپنے گھروں میں دیوالی منا کر، بھجن کیرتن یا شری رام جئے رام جئے جئے رام کا پاٹھ کر کے بھی۔
ہاں تقریب میں مدعو کیے گئے جان دینے والے سیوکوں کے جن پچاس خاندانوں کو مدعو کیا گیا ہے،انہیں بھی دور دور سے دیکھ ہی سکتے ہو۔ یہ سوچتے ہوئے کہ اب وہ دن گزر گئے ہیں جب ہندوؤں میں غصے اور ناراضگی کے نام پر ‘ہندو مخالف’ حکومتوں کو ناکوں چنے چبوانے اور عقیدے کے معاملے نمٹانےمیں عدالتوں کو نااہل قرار دینے کے لیے تمام حکومتی پابندیوں کو توڑ کر آستھا کے نام پر تمہارا ایودھیا پہنچنا اور ہڑبونگ مچانا ضروری ہوا کرتا تھا۔ اب وہاں ہر چیز شان و شوکت اور روحانیت کے سپرد کر دی گئی ہے اور صرف انہی عظیم ہستیوں کی موجودگی مطلوب ہے جو اس کے لیے کچھ ‘عطیہ’ کر سکتے ہوں۔
یہاں ایک اور بات قابل غور ہےکہ بی جے پی اور وشو ہندو پریشد رام مندر کی تعمیر کے لیے اپنی پوری تحریک اپنی سیاسی سہولت کے لحاظ سے ہی چلاتی رہی ہیں۔ سوال ہے کہ تب پران— پرتشٹھا کی تقریب میں بھی، بی جے پی کے اقتدار میں ہونے کی وجہ سے، ان کی یہ سیاسی سہولت کچھ گل کھلائے گی یا نہیں؟
غور کیجیے، یہ بھی سیاسی سہولت کے تحت ہے کہ جو وزیر اعظم نریندر مودی 2014 کے لوک سبھا انتخابات سے پہلےاپنی پرانی شدت پسند امیج سے چھٹکارا حاصل کرنے اوروکاس کا میگا اسٹار بننے کے لیے ایودھیا کے باہر باہر سے ہی ووٹروں سے ووٹ مانگ کر واپس چلے گئے تھے اور اقتدار میں آنے کے بعد قانون بنا کر رام مندر کی تعمیر کو یقینی بنانے کی اپنی پارٹی کے مندر کے حامیوں کے اس مطالبہ پر بغلیں جھانکنے لگتے تھے، اس سے متعلق تنازعہ کے سپریم کورٹ کی طرف سےحل کے بعدسے بھومی پوجن اور پران—پرتشٹھا کی تقریب تک میں خود کو وقف کرتے نظر آتے ہیں۔ اس پر ان کی دور اندیشی ہی ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے اور مندر کی تعمیر دونوں کا دوہرا کریڈٹ بھی لے رہے ہیں۔
اس سے پہلے اٹل بہاری واجپائی کے دور میں بی جے پی کی سیاسی اچھوت ہونے جیسی صورت کے خاتمہ کے لیےنیشنل ڈیموکریٹک الائنس کا بینر بنانے اور اٹل کو اس کا وزیر اعظم بنانے کی سیاسی سہولت کے لیے بھی رام مندر کے معاملے کو ٹھنڈے بستے میں ڈالا ہی گیا تھا۔
ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بی جے پی اور وی ایچ پی کی سب سے زیادہ نمائندگی رکھنے والا رام مندر ٹرسٹ جان بوجھ کر اپنی اس سیاسی سہولت کو آگے بڑھا رہا ہے؟ لگتا تو ایسا ہی ہے۔
ورنہ اس ٹرسٹ (جس پر اس وقت ایک ہی ذات اور تنظیم کا غلبہ ہے اور جو اپنے آغاز سے ہی ہندو تکثیریت کو نظر انداز کر رہا ہے اور ایودھیا کے سنتوں اور مہنتوں کی مناسب نمائندگی نہیں کر رہا ہے، رام مندر تحریک میں دلتوں اور پسماندہ ذاتوں کے ‘کردار’ سے انکار کر رہا ہے،کرپشن جیسے اندرونی اور باہری الزامات کے نشانہ پر رہا ہے ) کے ذریعے پہلے ہی سے پوچھے جانے والے اس سوال کو اور بڑا کیوں کیا جاتا کہ اس کے توسط سے ہندو عقیدت مندوں سے جمع کیے گئے پیسےسے عدالتی حکم پر تعمیر کیا جا رہا مندر کن کا ہے اور کن کے لیے ہے؟ وشو ہندو پریشد کا، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کا، تمام ہندوؤں کا یا صرف اس کے اشرافیہ کا؟
سیدھے سیدھے پوچھا جائے تو سوال یہ بنتا ہے کہ اس مندر پر پہلا حق کس کا ہے؟ کیا ان مذہبی رہنماؤں، آچاریوں، حکمرانوں، رہنماؤں، وی وی آئی پی معززین، صنعت کاروں، کھلاڑیوں، اداکاروں اور فنکاروں وغیرہ کا ، جنہیں ٹرسٹ اپنی پسند کی بنیاد پر بلا رہا ہے، نہ کہ بھکتی اور آستھا کی بنیاد پر۔
اس پر وہ چاہتا ہے کہ رام کے عام عقیدت مند اور ماننے والے بعد میں ایودھیا آئیں اور تریتا کی واپسی کی چکاچوند دیکھ کر خوش ہوں۔ نربل کے بل اور پتت کے پاون کہلانے والےرام کے دربار میں کسی بھی بنیاد پر اس کے اس امتیازی سلوک کا کیا جواز ہے؟
ٹرسٹ نے ہندوؤں کے جس رامانندی فرقے کے پوجا کے طریقہ کو اس مندر کی پوجا کا طریقہ بنایا ہے،اس کے بانی سوامی رامانند تو، جنہوں نے شمالی ہندوستان میں رام بھکتی کو بہت فروغ دیا،رام کی بھکتی کے معاملے میں ذات پات کی کون کہے، مذہب کی بنیاد پر بھی امتیازی سلوک کے خلاف تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جلاہا ہونے کے باوجود سنت کبیر ان کے شاگرد تھے۔
تاہم، اگیہ کے ہی لفظوں میں پوچھیں تو سمجھنا مشکل ہے کہ اگیہ کی اس شعری صداقت سے(بندر کہلائیں گے)رام مندر کے لیے جدوجہد کرنے والے کار سیوکوں اور رام سیوکوں کو کیوں روبرو کرایا جا رہا ہے؟
یہاں یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ جب وزیر اعظم نریندر مودی نئے نئے اقتدار میں آئے تو انہوں نے مروجہ وی وی آئی پی کلچر پر تنقید کرنے اور اسے ختم کرنے کا عہد کرنے کا کوئی موقع بہ مشکل ہی گنوایا، لیکن اب انہی کی سرکار کی طرف سے تشکیل دی گئی شری رام جنم بھومی تیرتھ ٹرسٹ ان کی ناک کے نیچے ان کی سیاسی عقیدت کے حامل رام کے مندر میں ان کی پران —پرتشٹھا کی تقریب میں اپنے وی وی آئی پی کی پرتشٹھا (عزت) میں کچھ بھی نہیں اٹھا رہا، عام لوگوں کے ساتھ ساتھ پروٹوکول ہولڈروں سے بھی معافی مانگ رہا ہے!
کیا یہ زمین کا اپنے محور پر پورے تین سو ساٹھ ڈگری گھوم جانا نہیں ہے؟
(کرشن پرتاپ سنگھ سینئر صحافی ہیں۔)
Categories: فکر و نظر