خبریں

براڈکاسٹنگ بل کا مسودہ ریگولیٹری عمل کو ہموار کرنے کے بجائے سنسرشپ نافذ کرنے کا خاکہ ہے

وزارت اطلاعات و نشریات کی جانب سے مجوزہ براڈکاسٹنگ سروسز (ریگولیشن) بل، 2023 یا براڈکاسٹنگ بل کو سنسرشپ چارٹر کے طور پر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے، جہاں ‘مرکزی حکومت’ آزاد خبروں کو سنسر بورڈ جیسے کسی دائرے میں لانا چاہتی ہے۔

(علامتی تصویر بہ شکریہ: pixabay/Gerd Altmann)

(علامتی تصویر بہ شکریہ: pixabay/Gerd Altmann)

سال ختم ہونے کو ہے اور ہر سال کی طرح اس بار بھی جب ‘سال کی بہترین سرخیوں’ کا انتخاب کیا جائے، تو مودی حکومت کی حالیہ سنسرشپ مہم کے حوالے سے انٹرنیٹ فریڈم فاؤنڈیشن کی رپورٹ ‘براڈکاسٹ سروسز بل ناٹ لِکنگ لائک اے واؤ ‘ کو لازمی طور پراس میں جگہ ملے گی۔

وزارت اطلاعات و نشریات کی جانب سے مجوزہ براڈکاسٹنگ سروسز (ریگولیشن) بل 2023 (براڈ کاسٹنگ بل) کو سنسر شپ چارٹر کے طور پر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ 11 نومبر کو عوامی تبصرے کے لیےپیش کیا گیا یہ بل  ایسے ضابطوں اور اصولوں کامجموعہ ہے، جس کا مقصد کسی بھی ایسی خبر یا رائے کو سنسر کرنا ہے جو حکومت میں شامل لوگوں کے مطابق نہ ہو۔ اس بارے میں 15 جنوری تک اپنی رائے دی جا سکتی ہے۔ (یہ تاریخ پہلے 8 دسمبر تک تھی، جس میں بعد میں توسیع کر دی گئی ہے)۔

اگر یہ بل لاگو ہوتا ہے تو یہ سمجھنا مشکل ہے کہ کوئی بھی آنے والی حکومت اس سے نجات کیسے حاصل کرے گی۔

کہا جا رہا ہے کہ 72 صفحات پر مشتمل یہ بل نو صفحات پر مشتمل کیبل ٹیلی ویژن نیٹ ورکس (ریگولیشن) ایکٹ 1995 کی جگہ لے گا، حالانکہ یہ صرف کہنے کی بات ہے۔

اس کے توسط سے کس کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے؟ کیبل ٹی وی ایکٹ، جو صرف سیٹلائٹ اپلنک یا ڈاؤن لنک نشریات کا احاطہ کرتا ہے، اس کے برعکس براڈکاسٹنگ بل یا نشریاتی خدمات  (ریگولیشن) بل کے دائرے میں انٹرنیٹ کی نشریات بھی شامل ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یوٹیوب یا کسی بھی ویب سائٹ پر شائع ہونے والا کوئی بھی مواد خود بخود اس کے دائرے میں آجائے گا۔

اسی طرح، تمام اوور دی ٹاپ (اوٹی ٹی) مواد اور ڈیجیٹل نیوز آرگنائزیشن کو حکومت کی نگرانی میں لایا جائے گا۔ لیکن اس کے علاوہ دائرے میں اور کون ہیں، یہ ابھی تک پوری طرح سے واضح نہیں ہے۔ اور یہ اس وجہ سےنہیں ہےکہ کچھ نافہم لوگوں نے اس کا مسودہ تیار کیا ہے، بلکہ وجہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ خیال یہ ہے کہ دفعات ایسی ہوں کہ ان کا اطلاق سب پر ہو، مثلاً اوٹی ٹی، جو آن لائن ویڈیو کرتے ہیں، وہ لوگ، جو  اس مواد کو آگے بڑھاتے (فارورڈ) ہیں، وہ سب اس کے دائرے میں ہیں۔ اگر آپ اس میں مذکور ‘پروگرام’ کی تعریف (ڈرافٹ کا صفحہ 6 پر 1 (ڈی ڈی ))  کو ملاحظہ کرتے ہیں ، تو یہ کہتا ہے؛

‘پروگرام’ کا مطلب ہے کوئی بھی آڈیو ، بصری یا سمعی و بصری مواد ، اشارے ، سگنل، تحریر، تصاویر جو نشریاتی نیٹ ورک کا استعمال کرکے نشر کیے جاتے ہیں ، اس میں شامل ہیں۔

(الف) فلمیں ، فیچر ، ڈرامے ، دستاویزی فلمیں ، سیریل اور اشتہارات دکھانا؛

(ب) کسی بھی آڈیو یا بصری یا سمعی و بصری لائیو پرفارمنس یا پریزنٹیشن اور ‘ پروگرامنگ سروس ‘ کو سیاق و سباق کے مطابق سمجھا جائے گا۔

تو کیا ڈیجیٹل ویب سائٹ ‘رائٹنگ ‘ یعنی تحریر میں شامل ہیں؟ شاید ہاں، شاید نہیں! یہ ایکٹ اتنا مبہم ہے کہ اسے کسی آڈیو ویژول پر لکھے کسی جملے یا کیپشن تک محدود نہیں کیا جا سکتا، اس میں کسی بھی نوع کی ‘تحریر’ کو شامل کیا جاسکتا ہے – اس کو بھی جو اس وقت آپ پڑھ رہے ہیں۔

روایتی بصری مواد کے ساتھ خبروں کو رکھنا

ڈرافٹ یا مسودے میں بدترین مداخلت جس کو کہہ سکتے ہیں، وہ یہ ہے کہ خبروں یا نیوز (آزاد نیوز ویب سائٹ، وہ لوگ جنہیں اب نیو زاور ویوز کے لیے دیکھا جا رہا ہے، ایکسپلینر ویڈیو یعنی وضاحتی ویڈیو،آن لائن دستیاب دیگر آڈیو ویژول مواد ہیں) کو روایتی طور پر سرٹیفیکیشن کے تحت آنے والےاوٹی ٹی  مواد،شو، سیریل، دستاویزی فلموں اور دیگر فیچرز کے ساتھ جوڑنا ہے۔

اسے ‘کامبو پیک’ (پرسار بھارتی کے سابق سی ای او جواہر سرکار کے لفظوں میں) کے طور پر پیش کرکے خبر کو پہلی بار سنیما کے بنائے گئے سنٹرل بورڈ آف فلم سرٹیفیکیشن کے ماتحت رکھا جا  رہاہے۔ پہلے سے لگائی جانے والی سنسر شپ کے لیے خاکہ  بنانے کا یہ پہلا قدم ہے۔

تمام ڈیٹا ہندوستان کے 692 ملین موبائل صارفین کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو اپنے فون کا استعمال بڑی تعداد میں ‘ آن لائن ویڈیو ‘، خبریں، فلمیں اور دیگر چیزوں کو دیکھنے کے لیے کر رہے ہیں- یعنی، پُل کنٹینٹ (مواد)، اور نہ کہ ٹی وی یا عوامی مقامات پر سنیما کی اسکریننگ جیسے پُش کنٹینٹ۔ تو اس میڈیم کا اتنا ریگولیشن  کیوں؟

مکل روہتگی نے بطور اٹارنی جنرل یہ کیس بنایا تھا کہ حکومت اس لیے پورن  (فحش مواد) کو ریگولیٹ نہیں کرنا چاہتی کہ اس کو لوگ اپنے پرائیویٹ اسپیس  میں دیکھتے ہیں۔ انہوں نے 2015 میں عدالت میں کہا تھا کہ ‘ہم آمرنہیں بن سکتے۔’ وکیل نکھل پاہوا نے اسی کیس کا حوالہ دیا ہے۔ لیکن ایسی صورت حال میں ڈیجیٹل خبروں کو پہلے سے سنسر کرنے کی بات کہاں رکھی جائے گی؟

جیسا کہ انٹرنیٹ فریڈم فاؤنڈیشن نے اجمالی طور پر بتایاہے، حتیٰ کہ جب سی بی ایف سی سسٹم، یا پری ویو سرٹیفیکیشن سسٹم، یا سنیما اور دیگر عوامی آڈیو ویژول مواد کو کنٹرول کرنے والے سسٹم کی بات آتی ہے ،تو اس حکومت کی اپنی 2016 کی شیام بینیگل کمیٹی نے اصلاحات کی تجویز دی تھی اور واضح طور پر کہا تھا کہ مواد کو سنسر کرتے وقت ‘اخلاقی’ نظریے سےگریز کیا جانا چاہیے۔ نیا ایکٹ اس کے بھی خلاف ہے۔ اب نہ صرف بینیگل کمیٹی کے خیالات کو مسترد کیا جا رہا ہے، بلکہ خبروں کو بھی اسی تاریک راستے پر دھکیلا جا رہا ہے۔

پری سنسر شپ اور سنسر شپ کا خاکہ

پری سنسر شپ یعنی پہلے سے لگائی جانے والی سنسر شپ کا استعمال ہلکے میں نہیں کیا جا رہا ہے، کیونکہ یہ ‘تھری ٹائر’ سسٹم- مجوزہ نام نہاد ریگولیشن – اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ہر سطح پر ‘مرکزی حکومت’ کی موجودگی ہو۔ آخر میں حکومت پھر سےآتی ہے اور فیصلہ لیتی ہے کہ آیا مواد کو ہٹانے کی ضرورت ہے یا نہیں، کیا صحافیوں کے خلاف جرمانہ عائد کیا جانا چاہیےیا انہیں قید کیا جانا چاہیے، یا پھر آلات کو ضبط کر لینا چاہیے۔

مجوزہ تین سطحیں ہیں؛

براڈکاسٹرز اور براڈکاسٹ نیٹ ورک آپریٹرز کی جانب سے سیلف ریگولیشن

سیلف ریگولیٹری آرگنائزیشن (ایس آر او)

براڈکاسٹ ایڈوائزری کونسل (بی اے سی)

‘سیلف ریگولیشن’ ہر براڈکاسٹر/آپریٹر سے شکایت کے ازالے کا یونٹ قائم کرنے کو کہتا ہے۔ مزید برآں، ہر براڈکاسٹر کے پاس مواد کا جائزہ لینے  والی ایک کمیٹی  یعنی سی ای سی ہونی چاہیے، جس کو باہر کیے جانے والے تمام مواد کا سرٹیفیکیشن کرنا ہوگا۔ اس کمیٹی کی تشکیل، اس کا حجم، کورم اور دیگر تفصیلات سب کا فیصلہ حکومت کرے گی۔ یہاں کوئی ایڈیٹوریل بورڈ نہیں ہے، کیونکہ کسی ‘کمیٹی’ کو اب پیشگی طور پرسرٹیفیکیشن  کرنے کی  ضرورت ہوگی، مثال کے طور پر، کیا رویش کمار جمعہ کی دوپہر کو بی سی سی آئی پر شو کر سکتے ہیں۔

چونکہ تمام براڈکاسٹرز/آپریٹرز سے ‘ایس آر او’ میں شامل ہونے کی توقع کی جاتی ہے، شق 26 میں کہا گیا ہے کہ یہ ‘ایس آر او’ تمام شکایتوں، اپیلوں اور دیگر معاملات کو ایڈریس کریں گے،جنہیں شخصی براڈکاسٹروں کی جانب سے ایڈریس نہیں کیا گیا۔ مزید برآں،رہنما خطوط جاری کریں گے، جس سے حکومت کی طرف سے مقرر کردہ ‘کوڈ’ کی تعمیل کو یقینی بنایا جاسکے (ایک پروگرام کوڈ اور اشتہاری کوڈ، جسے ابھی تک عام نہیں کیا گیا ہے)۔ سزا کا مطلب عارضی معطلی، رکنیت سے ہٹانا، مشورہ، وارننگ، سنسر اور/یا 5 لاکھ روپے تک کا جرمانہ ہو سکتا ہے۔

شق 27 میں بتایا گیاہے کہ براڈکاسٹنگ ایڈوائزری کونسل (بی اے سی) بنے گی اور یہ کیسے کام کرے گی۔

میڈیا انڈسٹری میں 25 سال کا تجربہ رکھنے والا ایک آزاد رکن اس کے چیئرمین کے طور پر کام کرے گا۔ اس کے علاوہ، وزارت اطلاعات و نشریات، خواتین اور بچوں کی ترقی کی وزارت، وزارت داخلہ، وزارت خارجہ اور سماجی انصاف اور تفویض اختیارات کی وزارت کی نمائندگی کرنے والے پانچ سرکاری اہلکار اس میں ہوں گے۔

اس شق میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پانچ اضافی ‘نامور آزاد افراد’ ہوں گے جن کی تقرری مرکزی حکومت کرے گی۔ ‘براڈ کاسٹنگ ایڈوائزری کونسل میں ممبران کی تقرری کی شرائط، ان کے انتخاب کا طریقہ، ان کی مدت اور ان کے کام کرنے کا طریقہ و ہی ہوگا جو طے کیا جائے گا۔’

بی اے سی ‘پروگرام کوڈ یا ایڈورٹائزنگ کوڈ کی خلاف ورزیوں یا خلاف ورزیوں سے متعلق شکایتیں سنے گی’ اور ‘ایس آر او’ کے فیصلوں پر اپیلوں کی بھی سماعت کرے گی۔ اس کے بعد بی اے سی اپنی سفارشات ‘مرکزی حکومت’ کو دے گی، جو براڈکاسٹنگ نیٹ ورکس اور سروسز کے آلات کی تفتیش، روک تھام، نگرانی اور ضبط کرنے کے قابل ہو گی۔

اس میں غلط کیا ہے؟ اول تو، یہ تین درجے پر مشتمل متنازعہ اور مشتبہ آئینی حیثیت والا ڈھانچہ بالکلیہ ‘مرکزی یا سرکاری ‘ ہے اور وسیع اور سنجیدہ عوامی مشاورت پر مبنی نہیں ہے۔

دوسرا، یہ متنازعہ آئی ٹی رول، 2021 کی نقل ہے۔ وہی قوانین جنہیں عدالتوں میں چیلنج کیا گیا تھا، ان میں یہ ‘تھری ٹائر’ سسٹم بھی شامل تھا اور کم از کم دو ہائی کورٹ – بامبے اور مدراس ہائی کورٹ نے اس پر روک لگا دی تھی۔

اپنی ڈیوائس بھی اپنی نہیں!

جبری پولیس کارروائی کے دوران صحافیوں، محققین اور دیگر لوگوں کے آلات (لیپ ٹاپ، موبائل وغیرہ) کا اچانک چھیننا/ ضبط کرنا تشویش کا باعث ہے۔ اکثر ہیش ویلیو (اس سے پتہ چلتا ہے کہ ضبطی کے وقت ڈیوائس میں کتنا ڈیٹا تھا، تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ بعد میں اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی یا نہیں) فراہم نہیں کیا جاتا، پولیس عدالتی حکم حتیٰ کہ وارنٹ کی بنیاد پر ایسا نہیں کرتی۔ یہ آزاد پریس کے کام پر ایک غیر معمولی حملہ ہے اور پچھلے چند برسوں کے دوران کئی بار ایسا  کیا گیا ہے۔ اس طرز عمل کو معمول بنا لینا اور سینکڑوں صحافیوں کے خلاف اس کا نفاذ، 1975 میں صرف اندرا گاندھی کی حکومت کی جانب سے اخبارات کے دفاتر میں بجلی اور پانی بند کرنے کے قصوں کی ریہرسل محض ہے۔

عدالتیں حال ہی میں اس جبری کارروائی کے دور رس اثرات کے بارے میں بیدار ہوئی ہیں۔ اسی لیے 9 نومبر 2023 کو سپریم کورٹ نے ہدایت دی کہ 2021 میں دائر پٹیشن کے حصے کے طور پر پانچ ماہرین تعلیم کی طرف سے تجویز کردہ رہنما خطوط مرکزی/ریاستی حکومت کو بھیجے جائیں۔ 7 نومبر کو فاؤنڈیشن فار میڈیا پروفیشنلز کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے مرکز سے اس بارے میں رہنما خطوط تیار کرنے کو کہا تھا اور تبصرہ کیا تھا کہ صحافیوں کے آلات تک رسائی حاصل کرنے کی یہ بے لگام طاقت ناقابل قبول ہے۔

(پانچ نامور ماہرین تعلیم رام راماسوامی، مادھو پرساد، سجاتا پٹیل، دیپک مال گھن اور مکل کیسون نے سرکاری کارندوں، عام طور پر پولیس کے ذریعہ الکٹرانک آلات کی تلاشی کو ریگولیٹ کرنے کےلیے 2021 میں سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی تھی۔سماعت کے دوران، ان درخواست گزاروں نے عدالت کی جانب سے جاری کیے جاسکنے والے رہنما خطوط کی تجویز پیش کی تھی۔)

محققین اور صحافیوں کے آلات اور ڈیوائس کو چھیننے کو پھر سے معمول بنانے کے طریقے کے طور پر شق 31 سے 35 میں تفصیل سے بات کی گئی ہے کہ مذکورہ براڈکاسٹرز/آپریٹرز کے ‘ڈیوائسز’ کے ساتھ  کیسے سلوک کیا جانا چاہیے۔

شق 36(2) اس زمرے کی تمام شقوں کا سرنامہ ہے، کیونکہ اس میں وسیع پیمانے پر سنسر شپ کا اہتمام کیا گیا ہے۔ مرکزی حکومت خود کو – اگر وہ عوامی مفاد میں ایسا کرنا ضروری سمجھتی ہے تو – یہ نوٹیفائیڈشعبوں  میں کسی بھی براڈکاسٹنگ سروس یا براڈکاسٹنگ نیٹ ورک آپریٹرز کے آپریشن پر پابندی عائد کرنے کا اختیاردیتی ہے۔

کنٹرول کو ‘ریگولیشن’ کا نام دینا

جب بات ‘ منیمم گورنمنٹ ، میکسمم گورننس’ کی ہو تو یہ ہمیشہ ہر چیز کو منظم یا ریگولیٹ کرنے کا معاملہ ہوتا ہے۔ اس لیے، اس منطق سے پریس کو ریگولیٹ کرنا ضروری ہے۔

لیکن ریگولیشن کا مطلب کنٹرول نہیں ہے۔ مرکزی حکومت کا کنٹرول کو ‘ریگولیشن’ کہنا اس سال کی سب سے بڑی غلطی ہے۔ بل میں 60 جگہ  ‘جیسا تجویز کیا جائے گا’ لکھا ہے اور 17 بار ‘ جیسا مرکزی حکومت کے ذریعہ نوٹیفائیڈ کیا گیا’ لکھا گیا ہے۔ قانون سازی کے تمام اختیارات، جو آزاد پریس پر  مزید پابندیاں عائد کریں گی، ‘مرکزی حکومت’ کے پاس رہیں گی۔

مسودہ بل میں روایتی اخبارات کی آن لائن ‘ریپلیکا’ (کاپی ) کوشامل نہیں کیا گیا ہے اور ‘میڈیا گھرانے’ اس کے دائرے سے باہر ہیں۔ یہ ممکنہ طور پر اس پر ہونے والے ہنگامے کی شدت کو کم کرنے کے لیے کیا گیا ہو گا۔ ‘بگ ٹیک’ کی مزاحمت بالکل بھی ‘بگ’ نہیں ہوگی۔ واشنگٹن پوسٹ نے ’69اے میٹنگز’ پر اس کے بارے میں رپورٹ دی ہے ، جب ٹوئٹر کے حکام کو آئی ٹی ایکٹ کی سخت سیکشن 69اے کی ‘تعمیل’ کرنے اور مرکزی حکومت کی طرف سے ناپسندیدہ خیالات اور خبروں کو ہٹانے کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق، ‘اطاعت کرو یا سزا بھگتو’ جیسی ایک مؤثر پالیسی نافذ ہے، جس کی وجہ سے ‘بگ ٹیک’ کو اس وقت تک کوئی مسئلہ نہیں ہے جب تک ان کے پاس خاطر خواہ پیسہ آ رہا ہے۔

گزشتہ 27 ستمبر کو پی ایم مودی نے کہا تھا، ‘میری تمام اپ ڈیٹ حاصل کرنے کے لیے میرے چینل کو سبسکرائب کریں اور بیل آئیکن دبائیں’۔ یہ کوئی اچانک کیا گیا تبصرہ نہیں تھا۔ 2024 کے انتخابات کے لیے ڈیجیٹل میڈیا اہم ہے اور یہ بات کچھ عرصے سے مزید واضح ہوتی جا رہی ہے۔ ڈیجیٹل اشتہارات پر مرکزی حکومت کا خرچ تیزی سے پرنٹ ایڈورٹائزنگ سے زیادہ ہوگیا  ہے۔ جیسا کہ دی مارننگ کانٹیکسٹ نے بتایا، ‘الکٹرانکس اور انفارمیشن ٹکنالوجی کی وزارت کے تحت قائم غیر منافع بخش ڈیجیٹل کارپوریشن آف انڈیا کی سالانہ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ 2016-17 میں مودی حکومت کی مائی گوو کو 18.8 کروڑ روپے کی گرانٹ تھی۔ 2017-18 میں یہ بڑھ کر 58.2 کروڑ روپے ہو گئی۔ اس کے بعد یہ 2018-19 میں بڑھ کر 58.5 کروڑ روپے اور 2019-20 میں 84.88 کروڑ روپے ہو گئی۔

بل کا یہ مسودہ آن لائن تنوع کے بارے میں حکومت کی بے چینی اور گبھراہٹ کی عکاسی  کرتا ہے۔ اگر اخبارات اور ٹی وی چینلوں کو اشتہارات پر پابندی لگا کر یا مالک کو فون کر کے کنٹرول کیا جاتا ہے تو یہ براڈکاسٹنگ بل تعزیری حکومتی کارروائی کے خطرے کو باضابطہ بنانے اور تو ڈیجیٹل میڈیا تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش ہے۔

اگر 2019 کو کچھ لوگوں نے ‘انڈیا کا پہلا وہاٹس ایپ الیکشن’ کہا تھا تو ایسا لگتا ہے کہ آنے والا عام انتخاب یوٹیوب پر ہندوستان کا پہلا الیکشن ہونے کی طرف گامزن ہے۔ ڈیجیٹل میڈیا واضح طور پر مؤثر ہے اور ہندوستان کے ڈیجیٹل ماحول کو بھی ٹیلی ویژن (یا پرنٹ) کی طرح ایک  رنگ میں رنگ دیا جائے، یہ بل اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہے۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں)