خبریں

پارلیامنٹ کی سیکورٹی میں کوتاہی کا معاملہ: پولیس کا دعویٰ – ملزم فیس بک پر ملے، جنوری میں کی تھی منصوبہ بندی

گزشتہ بدھ کو دو افراد لوک سبھا کی وزیٹرگیلری سے ہال میں کودے اور دھوئیں کے کین کھول دیے تھے۔ اس سیکورٹی لیپس کے بعد ان لوگوں کے علاوہ تین دیگر افراد کو بھی گرفتار کیا گیا ہے، جبکہ ایک شخص کی تلاش جاری ہے۔ ذرائع کے مطابق، ملزم منی پور تشدد، کسانوں کی تحریک، مہنگائی اور بے روزگاری کے حوالے سے ایک پیغام دینا چاہتے تھے۔

لوک سبھا میں 13 دسمبر 2023 کو انتشار پھیلانے کے الزام میں پانچ لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ (تصویر بہ شکریہ: ٹوئٹر)

لوک سبھا میں 13 دسمبر 2023 کو انتشار پھیلانے کے الزام میں پانچ لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ (تصویر بہ شکریہ: ٹوئٹر)

نئی دہلی: بدھ (13 دسمبر) کو پارلیامنٹ کی  سیکورٹی میں اس وقت ایک بڑی کوتاہی کا مشاہدہ کیا گیا، جب دو افراد نے سامعین گیلری سے لوک سبھا ہال میں چھلانگ لگا دی اور دھواں پھیلا دیا، جس کی وجہ سے ایوان کی کارروائی کو ملتوی کرنا پڑا۔

دونوں نے حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایک ایم پی (میسور کے ایم پی پرتاپ سمہا) سے انٹری پاس حاصل کیے تھے۔ انہوں نے ایوان میں نعرے لگائے، لیکن ہال میں کسی کو بھی نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں کی۔

واقعے کے فوراً بعد دونوں کو حراست میں لے لیا گیا، لیکن ایوان زیریں میں افراتفری پھیل گئی اور حزب اختلاف کے اراکین پارلیامنٹ نے بعد میں الزام لگایا کہ ایوان میں ہنگامی انخلاء یا فوری ردعمل کے لیے کوئی پروٹوکول نہیں تھا۔

دریں اثنا، خبر ہے کہ لوک سبھا سکریٹریٹ نے جمعرات (14 دسمبر) کو 8 سیکورٹی اہلکاروں کو سیکورٹی میں کوتاہی کی وجہ سے معطل کر دیا ہے۔ اس سے قبل دہلی پولیس کی اسپیشل برانچ نے غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔ وہیں مرکزی وزارت داخلہ نے معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔

اس معاملے میں اب تک پانچ افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ انڈین ایکسپریس کے مطابق، دہلی پولیس کے ذرائع نے بتایا ہے کہ ان کا تعلق ملک کے مختلف حصوں سے ہے۔ بدھ کو پارلیامنٹ کے اندر اور باہر سے گرفتار کیے گئے چار افراد تقریباً ڈیڑھ سال قبل فیس بک پر ملے تھے اور وہ بھگت سنگھ کے نام پر بنائے گئے ایک گروپ کا حصہ ہیں۔

وشال شرما عرف وکی نام کا پانچواں ملزم بعد میں گڑگاؤں میں اس کی رہائش گاہ سے پکڑا گیا، جبکہ للت جھا نامی ایک اور ملزم ابھی تک فرار ہے۔

پولیس ذرائع نے بتایا کہ گیلری سے لوک سبھا کے ہال میں چھلانگ لگانے والے منورنجن ڈی اور ساگر شرما اور پارلیامنٹ کے باہر دھوئیں کا کین کھولنے والی نیلم آزاد اور امول شندے گزشتہ چند دنوں کے دوران الگ الگ دارالحکومت میں داخل ہوئے تھے اور مبینہ طور پر للت جھا ہی انہیں گڑگاؤں میں اپنے دوست وکی کے گھر لے گیا تھا۔

نیلم اور امول نے رنگین گیس کے کنستر کھول کرپارلیامنٹ کے احاطہ کے باہر نعرے لگائے تھے۔

سیکورٹی لیپس کے بعد للت جھا نے پارلیامنٹ کے باہر احتجاج کا ایک ویڈیو کلپ پوسٹ کیا، جس میں آزاد اور شندے کو کنستروں سے رنگین دھواں چھوڑتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔

پولیس ذرائع کے مطابق، ملزم نے جنوری میں اس کی منصوبہ بندی شروع کر دی تھی، اور منورنجن نے مانسون اجلاس کے دوران پارلیامنٹ کمپلیکس کا دورہ بھی کیا تھا۔

ذرائع نے انڈین ایکسپریس کو ابتدائی پوچھ گچھ کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا، ‘پوچھ گچھ کے دوران انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ موجودہ حکومت کے کام کرنے کے انداز سے خوش نہیں ہیں اور وہ منی پور تشدد، کسانوں کی تحریک، مہنگائی اور بے روزگاری کے حوالے سے ملک کو ایک پیغام دینا چاہتے تھے۔’

ذرائع نے بتایا، ‘انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ اپنے آئیڈیل شہید بھگت سنگھ کی طرح ہی ایک پیغام دینا چاہتے تھے اور اس لیے پارلیامنٹ جانے کا فیصلہ کیا۔’

ذرائع نے بتایا، ‘کچھ دن پہلے منورنجن نے اپنے مقامی ایم پی پرتاپ سمہا کے ذاتی عملے سے 14 دسمبر کے لیے وزیٹر پاس مانگا تھا۔ عملے نے انہیں منگل کو بلایا اور اسے اپنا پاس لینے کو کہا، جو 14 دسمبر کے بجائے 13 دسمبر کے لیے بنایا گیا تھا۔ آج (بدھ) کی صبح وہ وکی کے گھر سے ٹیکسی میں پارلیامنٹ پہنچے۔’

ذرائع نے بتایا کہ پارلیامنٹ پہنچنے کے بعد منورنجن ڈی اور ساگر شرما اندر چلے گئے جبکہ للت جھا، نیلم آزاد اور امول شندے باہر انتظار کرتے رہے۔

ذرائع نے بتایا، ‘ملزمان کو سنسد مارگ پولیس اسٹیشن لے جایا گیا، جہاں ان سے انٹلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ ساتھ دہلی پولیس کے حکام نے پوچھ گچھ کی اور ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے سے پہلے قانونی رائے لی گئی۔’

پارلیامنٹ کی سیکورٹی کی خلاف ورزی سے تقریباً 15-16 گھنٹے پہلے شرما نے انسٹاگرام پر اپنی آخری پوسٹ میں کہا تھا، ‘جیتیں یا ہاریں، لیکن کوشش تو ضروری ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سفر کتنا حسین ہوگا…امید ہے پھر ملیں گے۔’

لکھنؤ کے رہنے والے شرما اپنے سوشل میڈیا پروفائل پر خود کو مصنف، شاعر اور فلسفی بتاتے ہیں۔ ان کا انسٹاگرام بایوکہتا ہے کہ وہ ایک ‘آرٹسٹ’ بھی ہیں۔ ان کی پینٹنگز کے علاوہ ان کے اکاؤنٹ میں ان کے مہاراشٹر کے سفر کی ریلز اور شیو، کرشنا اور دیگر دیوتاؤں کے ویڈیوز بھی ہیں۔

فیس بک پر سرگرم نیلم نے سیاسی ریلیوں میں حصہ لینے کی کئی تصاویر کے ساتھ ساتھ بھگت سنگھ اور بی آر امبیڈکر کی تصاویر بھی پوسٹ کی ہیں۔ انہوں نے جنتر منتر اور شمالی ہندوستان کے دیگر احتجاجی مقامات کی تصاویر بھی پوسٹ کی ہیں، جن میں انہیں کسانوں کے ساتھ بیٹھے دیکھا جا سکتا ہے۔ پوسٹس 2020-21 کی کسانوں کی تحریک کی ہیں۔

نیلم ہریانہ کی رہنے والی ہیں۔

وہیں انسٹاگرام پر اپنی آخری پوسٹ میں شندے نے ممبئی کے چھترپتی شیواجی ٹرمینل اسٹیشن کے سامنے کھڑے ہوکر اپنا ایک ویڈیو پوسٹ کیا ہے۔ انہوں نے اپنی دوڑ، باکسنگ اور کھیلوں میں تمغے جیتنے کے ویڈیوز اور تصاویر بھی پوسٹ کی ہیں۔

خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی نے دہلی پولیس کے نامعلوم ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ چھ لوگوں نے ‘منصوبہ بند اور اچھی طرح سے مربوط طریقے سے’ اس حرکت کو انجام دیا تھا۔ وہ چار سال سے سوشل میڈیا پر ایک دوسرے سے رابطے میں تھے۔ انہوں نے یہ منصوبہ کچھ دن پہلے ہی بنایا تھا۔’

ذرائع نے بتایا کہ پلان کے مطابق تمام چھ افراد پارلیامنٹ کے اندر جانا چاہتے تھے لیکن صرف دو کو ہی پاس ملا۔ سیکورٹی ایجنسیاں یہ جاننے کی کوشش کر رہی ہیں کہ آیا انہیں کسی شخص یا کسی تنظیم نے ہدایت دی تھی۔

اس دوران وزیٹر گیلری کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کرنے کی اطلاع ہے۔

اس واقعہ پر ارکان پارلیامنٹ نے بھی اپنے ردعمل کا اظہار کیا ۔ کانگریس کے ایم پی گورو گگوئی نے دکن ہیرالڈ سے بات کرتے ہوئے سیکورٹی انتظامات پر کئی سوال اٹھائے۔

انہوں نے کہا، ‘موقع پر کوئی فوری ردعمل نہیں ملا اور نہ ہی ہیلتھ پروٹوکول کی پیروی کی گئی، نہ ہی ہنگامی طور پر انخلاء کیا گیا۔ ہم نے سیکورٹی کے نظام کی مکمل تباہی دیکھی۔ ابھی تک ارکان پارلیامنٹ سے یہ بھی نہیں پوچھا گیا کہ کیا وہ ٹھیک ہیں – کیا انہیں کسی قسم کے مضر اثرات، دمہ کے دورے وغیرہ پڑے۔’

دریں اثناء وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے اس واقعہ کو افسوسناک قرار دیا ہے اور اس کی مذمت کی ہے۔ ٹوئٹر پر جاری ایک بیان میں انہوں نے کہا، ‘چیئرمین سر (اوم بڑلا) نے فوری طور پر نوٹس لیا ہے اور اس معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ مستقبل میں جو بھی احتیاطی تدابیر اختیار کی جا سکتی ہیں، ان پر عمل کیا جائے گا۔ پرانے پارلیامنٹ ہاؤس میں بھی نعرے بازی کے واقعات ، پیپر پھینکنے اور کودنے کے واقعات پیش آئے ہیں۔