خبریں

بہار: ’سخت‘ تعلیمی اصلاحات سے ناراضگی، دو ماہ میں 150 سے زیادہ اساتذہ نے استعفیٰ دیا

بہار میں حال ہی میں بحال ہونے والے اساتذہ میں سے کچھ نے کہیں اور نوکری لینے کے لیے استعفیٰ دیا ہے اور اکثر نے مبینہ طور پر گزشتہ چھ ماہ میں بہار کے محکمہ تعلیم کے ایڈیشنل چیف سکریٹری کے کے پاٹھک کی جانب سے شروع کی گئی اصلاحات کی وجہ سے نوکری چھوڑی ہے۔ اساتذہ کے ترک ملازمت کی ایک وجہ دیہی علاقے اور دور دراز کی پوسٹنگ بھی ہے۔

(علامتی تصویر،بہ شکریہ: پکسابے)

(علامتی تصویر،بہ شکریہ: پکسابے)

نئی دہلی: بہار میں محکمہ تعلیم کی جانب سے اسکول کے قوانین میں سخت اصلاحات کے بعد گزشتہ دو مہینے میں 150 سے زیادہ نئے اساتذہ نے استعفیٰ دے دیا ہے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، استعفیٰ  دینے والے اساتذہ میں سے کچھ نے کہیں اور ملازمت لینے کے لیے استعفیٰ دے دیا ہے۔ تاہم، ان میں سے اکثر نے مبینہ طور پر گزشتہ چھ ماہ میں بہار کے محکمہ تعلیم کے ایڈیشنل چیف سکریٹری کے کے پاٹھک کی طرف سے شروع کی گئی اصلاحات کی وجہ سے نوکری چھوڑی ہے۔ اساتذہ کے ترک ملازمت کی ایک وجہ دیہی علاقے اور دور دراز کی پوسٹنگ بھی ہے۔

بہار پبلک سروس کمیشن (بی پی ایس سی) نے حال ہی میں 1.22 لاکھ اساتذہ کی بھرتی نکالی ہے۔ فی الحال یہ ریاست کے اسکولوں میں مزید 1.20 لاکھ اساتذہ کی تقرری کے لیے امتحان لے رہی ہے۔

محکمہ تعلیم کی جانب سے متعارف کرائے گئے کچھ نئے اقدامات میں اساتذہ کے لیے صبح 9 بجے سے شام 5 بجے تک اسکول کا وقت بڑھانا (پہلے صبح 9 بجے سے شام 4 بجے تک)، ایک ہفتے میں کم از کم تین معائنہ، رکشا بندھن، تیج اورجتیا، درگا پوجا اور چھٹھ کی تعطیلات میں کٹوتی، اساتذہ کے لیے گرمیوں کی چھٹیاں ختم کرنا اور اس دوران اسکول بند نہیں کرنا شامل ہے۔

رپورٹ کے مطابق، بہار کے دربھنگہ ضلع کے بیرول گاؤں میں واقع اپ گریڈیڈ سیکنڈری اسکول کے ٹیچر امن گپتا کے استعفیٰ میں کہا گیا ہے، ‘محکمہ بہار تعلیم کے حکم کے مطابق، اسکول کے اوقات صبح 9 بجے سے شام 5 بجے تک ہیں۔ ہولی اور دیوالی جیسے تہواروں کے لیے اسکولوں کی چھٹیاں کم کر دی جائے گی۔ میں اوریا (یوپی) سے ہوں اور میرے گھر سے دربھنگہ کے سفر میں 24 گھنٹے سے زیادہ کا وقت لگتا ہے۔ ایسے میں میں ہولی، دیوالی، رکشا بندھن جیسے تہواروں پر بھی اپنے اہل خانہ سے نہیں مل پاؤں گا۔’

اس میں مزید کہا گیا ہے، ‘اس کے علاوہ گرمیوں کی چھٹیاں (اساتذہ کے لیے) منسوخ ہونے کی وجہ سے میں اس وقت بھی گھر نہیں جا سکوں گا۔ میرا سارا دن اسکول میں گزرتا ہے اور میرے لیے بہت کم وقت بچتا ہے۔ اپنے اہل خانہ کے ساتھ صلاح مشورے کے بعد میں نے اپنی ملازمت سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔’

اتر پردیش کے رہنے والے گپتا کو اگست میں بہار پبلک سروس کمیشن (بی پی ایس سی) کے ذریعے کرائے گئے امتحان کے ذریعے پرائمری اسکول ٹیچر (کلاس 1-5) کے طور پر منتخب کیا گیا تھا۔ گپتا نے صرف ایک ماہ قبل ہی اسکول جوائن کیا تھا۔

بہار ٹیچر اہلیت ٹیسٹ (ٹی ای ٹی) ایسوسی ایشن کے صدر امت وکرم نے محکمہ تعلیم کے کئی بڑے فیصلوں کو غیر منطقی قرار دیا ہے۔

وکرم نے کہا، ‘ہمیں دیہی آسامیاں پُر کرنے کے حکومتی فیصلے سے کوئی شکایت نہیں ہے، لیکن حکومت کو اساتذہ کو پوسٹنگ کا تبادلہ کرنے کی اجازت دینے کے لیے اضلاع کے اندر ٹرانسفر کے لیے کھلا رکھنا چاہیے۔’

انہوں نے کہا، ‘اس کے علاوہ گرمیوں کی چھٹیوں میں جب طلباء چھٹیوں پر ہوتے ہیں تو اساتذہ کو اسکولوں میں رکھنے کی کیا منطق ہے؟ اسکول کے اوقات صبح 9 بجے سے شام 5 بجے (طلبہ کے لیے 4.15 بجے) ہیں۔ طلباء کے 4:15 بجے چھٹی کے بعد بھی اساتذہ کو شام 5 بجے تک رکنے کو کہا جاتا ہے۔ کمزور طلباء کے لیے دوپہر 3:30 بجے سے 4:15 بجے کے درمیان خصوصی کلاسز لینا ہوں گی۔ وہ جلد ہی دلچسپی لینا بند کردیں گے۔’

انہوں نے لازمی تعلیمی اصلاحات پر بھی تنقید کی۔ وکرم نے کہا، ‘والدین کی انجمنوں، اساتذہ اور سرکاری افسران کے درمیان  فیصلے لینے کے لیے میٹنگ کرنے دیں۔ جلد ہی اور بھی استعفیٰ دیں گے۔ حکومت نے بھی ہم پر پابندی لگا دی ہے۔ جمہوری نظام میں حکومت کو سب کی آواز سننی پڑتی ہے۔’

انہوں نے کہا کہ پہلے اسکول کے اوقات تعلیم کے حق کے قانون کی دفعات کے مطابق تھے، جس میں پرائمری اسکول کے بچوں کے لیے سال میں 800 گھنٹے اور پانچویں جماعت سے اوپر کے طلبہ کے لیے 1000 گھنٹے پڑھانے کا وقت شامل تھا۔

وہیں محکمہ تعلیم کے ایک سینئر افسر نے بتایا کہ تعلیمی اصلاحات کے حوالے سے بہت اچھا ردعمل مل رہا ہے۔

اہلکار نے کہا، ‘ایڈیشنل چیف سکریٹری کے کے پاٹھک نے کئی اسکولوں کا دورہ کیا اور تعلیمی اصلاحات پر بہت اچھی رائے لی۔ کچھ لوگ اصلاحات سے ناخوش ہو سکتے ہیں، ہم اس کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں کر سکتے۔’