خبریں

اسرائیلی حملے کو امریکی حمایت کے پیش نظر سندیپ پانڈے نے میگسیسے ایوارڈ لوٹایا

سماجی کارکن سندیپ پانڈے کو سال 2002 میں باوقار میگسیسے ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ انہوں نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی شہریوں کے خلاف موجودہ حملوں میں اسرائیل کی کھل کر حمایت کرنے میں امریکہ کے رول کو دیکھتے ہوئے ان کے لیے اپنے پاس یہ ایوارڈ رکھنا ناقابل برداشت ہو گیا ہے۔

سندیپ پانڈے (مائیک کے ساتھ)۔ (تصویر بہ شکریہ: X/@RajeevKisanNeta)

سندیپ پانڈے (مائیک کے ساتھ)۔ (تصویر بہ شکریہ: X/@RajeevKisanNeta)

نئی دہلی: سماجی کارکن اور سوشلسٹ پارٹی (بھارت) کے موجودہ جنرل سکریٹری سندیپ پانڈے نے غزہ (فلسطین) میں اسرائیلی حملوں کو امریکہ کی حمایت کے خلاف احتجاج کے طور پر2002 میں ملے میگسیسے ایوارڈ کو واپس کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے ایک جنوری (سوموار) کو میگسیسے ایوارڈ کے ساتھ ہی امریکہ میں حاصل کی گئی اپنی ڈگریاں بھی واپس کرنے کا اعلان کیا ہے۔

سال 2002 میں سندیپ پانڈے کو ‘ایک ایسے ہندوستانی کے طور پر تسلیم کیا گیا تھا، جس نے گاندھی کے راستے پر چلتے ہوئے ہندوستانی تارکین وطن کے وسائل کو بروئے کار لا کر غریب بچوں کی تعلیم کی حمایت کی۔’

ان کی تنظیم ‘آشا فار ایجوکیشن’ کی 12 شاخیں ہیں اور یہ ملک کے سماجی، اقتصادی-سیاسی مستقبل کی تشکیل کے مقصد سے پسماندہ بچوں کو تعلیم دینے کے لیے کام کرتی ہے۔

پانڈے نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ‘جب مجھے 2002 میں میگسیسے ایوارڈ ملا تو عراق پر ہوئے حملے کے خلاف منیلا (فلپائن) میں امریکی سفارت خانے کے باہر ایک احتجاج میں حصہ لینے کے میرے فیصلے کی وجہ سے تھوڑا سا تنازعہ کھڑا ہو گیا تھا۔ میگسیسے فاؤنڈیشن کے اس وقت کے چیئرمین نے مجھے اس بہانے سے احتجاج میں شرکت سے روکنے کی کوشش کی تھی کہ اس سے فاؤنڈیشن کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا۔’

انہوں نے کہا، ‘میری دلیل یہ تھی کہ ایوارڈ میں 1999 میں پوکھرن سے سارناتھ تک عالمی جوہری تخفیف اسلحہ کے لیے ہندوستان کے امن مارچ میں میری شرکت کا ذکر تھا اور اس لیے میرا جنگ مخالف موقف سب کو معلوم ہے۔’

ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘مجھے منیلا یونیورسٹی میں ہونے والی امن کانفرنس میں امریکی سفارت خانے کے سامنے احتجاج کرنے کے فیصلے کا احترام کرنا تھا، کیونکہ مجھے بھی کانفرنس میں مدعو کیا گیا تھا۔ اتفاق سے یہ کانفرنس 31 اگست کو ختم ہوئی، اسی دن جس دن میگسیسے ایوارڈز دیے گئے تھے۔ یکم ستمبر کو مظاہروں کے بعد منیلا کے ایک اخبار نے ایک اداریہ میں مجھے چیلنج کیا کہ اگر میں اصول پسند آدمی ہوں تو مجھے ہندوستان واپس لوٹنے سے پہلے امریکی سفارت خانے کو ایوارڈ واپس کر دینا چاہیے۔’

سندیپ کا کہنا ہے کہ مذکورہ واقعہ نے میرے لیے ایوارڈ واپس کرنے کے فیصلہ کو آسان بنا دیا۔

اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ اسی وقت انہوں نے ایوارڈ کے حصے کے طور پر فورڈ فاؤنڈیشن آف امریکہ سے حاصل کی گئی نقد رقم واپس کردی تھی، تاہم میگسیسے فاؤنڈیشن کے چیئرمین کو لکھے گئے خط میں انہوں نے ایوارڈ اپنے پاس رکھنے کی بات کہی تھی کیونکہ اس کا نام سابق مقبول فلپائنی صدر کے نام پر رکھا گیا تھا۔

بیان میں انہوں نے کہا، ‘میں نے میگسیسے فاؤنڈیشن کے چیئرمین کو لکھے گئے خط میں کہا تھا کہ یہ ایوارڈ میرے ملک میں جئے پرکاش نارائن، ونوبا بھاوے اور بابا آمٹے جیسی شخصیات کو دیا گیا تھا، جنہیں میں اپنا رول ماڈل مانتا ہوں۔ میں نے اس خط میں کہا تھا کہ اگر میگسیسے فاؤنڈیشن نے کبھی محسوس کیا کہ میں ان کی ساکھ کو بہت نقصان پہنچا رہا ہوں تو مجھے ایوارڈ واپس کرنے میں خوشی ہوگی۔’

سندیپ پانڈے کا کہنا ہے، ‘میرے خیال میں اب وقت آگیا ہے (ایوارڈ واپس کرنے کا)۔’

انھوں نے اپنے بیان میں کہا، ‘میگسیسے ایوارڈ کو بنیادی طور پر راک فیلر فاؤنڈیشن کی طرف سے فنڈز فراہم کیے جاتے ہیں اور جس زمرے میں مجھے یہ ایوارڈ ملا ہے اس کی مالی اعانت فورڈ فاؤنڈیشن نے کی ہے، یہ دونوں امریکی فاؤنڈیشن ہیں۔ فلسطینی شہریوں کے خلاف جاری حملے– جس میں 21500 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور امریکہ ابھی بھی اسرائیل کو ہتھیار فروخت کر رہا ہے – میں اسرائیل کی کھلم کھلا حمایت کرنے میں امریکہ کے کردار کو دیکھتے ہوئے میرے لیے یہ ایوارڈ رکھنا ناقابل برداشت ہو گیا ہے۔ اس لیے آخرکار میں ایوارڈ بھی واپس کرنے کا فیصلہ کر رہا ہوں۔’

انہوں نے ایوارڈ واپس کرنے کی وجہ سے فلپائنی عوام کودکھ پہنچنے کی حالت  میں ان سے معافی بھی مانگی ہے، کیونکہ اس ایوارڈ کے ساتھ سابق صدر ریمن میگسیسے کا نام جڑا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ‘میری مخالفت صرف اس ایوارڈ سے امریکی تعلق کی وجہ سے ہے۔’

انہوں نے کہا، ‘میگسیسے ایوارڈ واپس کرتے ہوئے میں یہ بھی محسوس کرتا ہوں کہ مجھے امریکہ میں حاصل کی گئی ڈگریوں سے خود کو آزاد کر لینا چاہیے۔ اس لیے میں مینوفیکچرنگ اور کمپیوٹر انجینئرنگ میں اپنی دوہری ایم ایس کی ڈگری کو نیویارک کی سائراکیز یونیورسٹی اور مکینیکل انجینئرنگ میں اپنی پی ایچ ڈی کی ڈگری یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، برکلے کو واپس کرنے کا فیصلہ کر رہا ہوں۔’

بیان کے مطابق، ‘امریکہ ایک ایسا ملک ہے جو انسانی حقوق کا سب سے زیادہ احترام کرتا ہے اور اظہار رائے کی آزادی کی وکالت کرتا ہے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ صرف ان کے ملک کے اندر کا ہی سچ ہے۔ امریکہ سے باہر خصوصاً تیسری دنیا کے ممالک میں ایسا لگتا ہے کہ اس میں انسانی حقوق کا کوئی احترام نہیں ہے۔’

سندیپ پانڈے نے امریکہ کی دوہری عالمی پالیسی پر بھی تبصرہ کیا اور کہا ہے کہ ‘اگر امریکہ انصاف کا احترام کرتا ہے تو اسے کسی بھی جنگ میں ظلم کا سامنا کرنے والے فریق کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ یوکرین پر روسی حملے میں اس نے صحیح موقف اختیار کیا لیکن جب فلسطین کے خلاف اسرائیل کی بات آتی ہے تو یہ سمجھ سے باہر ہے کہ امریکہ فلسطینیوں کی حالت زار اور مصائب پر کیوں آنکھیں بند کر لیتا ہے اور اسرائیلی دفاعی افواج کے جرائم کو نظر انداز کرتا ہے۔ اگر یہ کوئی اور ملک ہوتا تو اس کے خلاف پابندیاں لگا دیتا، جیسا کہ اس نے جنوبی افریقہ کے معاملے میں باقی دنیا کے ساتھ کیا تھا جب وہاں نسل پرستی  کا رواج  تھا۔’

ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘مجھے ایک سخت فیصلہ لینا ہوگا، کیونکہ میں محسوس کرتا ہوں کہ اسرائیل کو فلسطینیوں کے خلاف جارحیت جاری رکھنے کی ترغیب دینے کا ذمہ دار صرف امریکہ ہے۔ یہ ثالث کا کردار ادا کر سکتا تھا، جیسا کہ اس نے ایک بار کیا تھا، اور اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن مذاکرات کی کوشش کر سکتا تھا۔’

سندیپ پانڈے کا مکمل بیان انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔