فکر و نظر

فصیح البیانی کا مطلب راست گوئی اور ایمانداری نہیں ہے

سی جے آئی کا انٹرویو یاد دلاتا ہے کہ اپنی باتوں میں فصاحت اور بلاغت پیداکرنا ایک فن ہے اور لوگ اس میں ماہر ہوسکتے ہیں، لیکن کیا وہ ایمانداری سے بول رہے ہیں؟ چالاک مقرر اپنے لیے ایک خاص پہلو کا انتخاب کرتے ہیں یا دیے گئے پہلو کے لیے دلائل اکٹھا کرتے ہیں۔ وہ یہ کہہ کر اس ذمہ داری سے خود کو بری نہیں کر سکتے کہ یہ خیال ان کا نہیں ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ انہوں نے اپنے لیے ایک خاص پہلو کا انتخاب کیا ہے۔

 (تصویر بہ شکریہ: وکی پیڈیا/دی وائر)

(تصویر بہ شکریہ: وکی پیڈیا/دی وائر)

سال کے آخر میں چیف جسٹس آف انڈیا کا انٹرویو سنتے ہوئے مجھے عرصہ پہلے سیکھا ہوا سبق یاد آیاکہ فصیح البیانی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ ایماندار مقرربھی ہیں۔ بیان میں فصاحت اور بلاغت پیدا کرناایک فن ہے اور لوگ اس میں ماہر ہوسکتے ہیں لیکن کیا وہ  سچ بھی بول رہے ہیں یا ایمانداری سے بول رہے ہیں؟ اسی لیے میں اکثر اپنے طالبعلموں کو ‘مقرر’ بننے کے خطرات سے خبردار کرتا ہوں۔

ہمارے اسکول میں ‘ڈیبیٹنگ’ میں زبان کی اخلاقی تعلیم نہیں دی جاتی ۔ کسی مسئلے کے حق میں اور اس کے خلاف یکساں فصاحت کے ساتھ استدلال کر سکیں ، یہی سکھایا جاتا ہے۔ موضوع اہم نہیں ہوتا۔

لیکن موضوع اہم ہوتاہے۔ ہوشیار مقرر اس پہلو کا انتخاب کرتے ہیں یا دیے گئے موضوع کے لیے دلائل اکٹھا کرتے ہیں۔ وہ یہ کہہ کر اس ذمہ داری سے بری نہیں ہو سکتے کہ یہ ان کا خیال نہیں ہے، ان کا کام تو صرف دلائل اکٹھا کرنا تھا۔ ہم جانتے ہیں کہ انہوں نے اپنے لیے ایک خاص پہلوکا انتخاب کیا ہے۔ ڈیبیٹر اسے اپنے پیشے کی ناگزیریت کہہ کر بری الذمہ ہو جاتا ہے۔ وہ اکثر اپنے خیال کی، جو کہ اس کا عمل ہے، ذمہ داری نہیں لیتا۔

چیف جسٹس چندر چوڑ سے کئی سوال پوچھے گئے۔ ان میں ایودھیا میں مسمار کی گئی بابری مسجد کی زمین پر رام مندر بنانے کے ان کے فیصلے سے متعلق بھی  ایک سوال تھا۔ سب سے بڑا سوال یہ تھا کہ اس پر فیصلہ  لکھنے والے جج کا نام کیوں نہیں تھا۔ جس کے جواب میں چیف جسٹس نے کہا کہ یہ پوری  بنچ کا متفقہ فیصلہ تھا، اس لیے بنچ نے فیصلہ لکھنے والے کا نام نہ دینے کا فیصلہ کیا۔

لیکن یہ بات اس لیے ہضم  نہیں ہوتی کہ یہ عدالت کی روایت نہیں ہے۔ اس فیصلے سے پہلے، نہ اس کے بعد اس نوع کی کوئی اور مثال ملتی  ہے۔ فیصلہ لکھنے والے  کا اپنا نام نہ دینے کی ایک وجہ اس کا انکسار یا عاجزی ہوسکتی ہے۔ دوسری بزدلی۔

ہم پچھلی مثالوں سے جانتے ہیں کہ عاجزی کا الزام آپ اکثر ججوں پر نہیں لگا سکتے۔ اتنے اہم معاملے کو حل کرلینے کی تسلی کافی نہیں ہوتی۔ اس کا کریڈٹ لینے کے لالچ کو راز میں کیوں رکھا گیا؟ یا مسئلہ یہ تھا کہ فیصلہ ہی ایسا تھا کہ کوئی بھی جج نہیں چاہتا تھا کہ مستقبل میں اس کے لیے ذمہ دارٹھہرایا جائے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ فیصلہ، جیسا کہ گوتم بھاٹیہ اور سہرتھ پارتھا سارتھی نے لکھا تھا، متسیہ نیائے(بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو کھا جاتی ہے) کی ایک مثال ہے۔ اس فیصلے کا تجزیہ کرتے ہوئے قانون کے ماہرین نے کہا کہ ‘جو طاقتور ہے، حق اسی کاہے اور کمزور کو صرف برداشت کرنا ہے’ کے اصول پر مبنی ہے۔ چونکہ ہندو ایک لمبے عرصے تک مسجد کے اندرونی حصے پر اپنا دعویٰ کرتے رہے،جس میں وقفے وقفے سے تشدد کرنابھی شامل تھا، عدالت نے مانا کہ اس حصے پر ان کا حق بن جاتاہے۔ کم از کم وہ جگہ متنازعہ ہو جاتی ہے۔ لیکن چونکہ مسلمانوں نے مسجد کے بیرونی حصے جس پر ہندوؤں کا قبضہ ہو گیا تھا، ہندوؤں کی طرح ضدنہیں کی، عدالت نے یہ مان لیا کہ وہ اس حصے میں اتنی دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ اور اس لیے یہ متنازعہ بھی نہیں ہے۔ لیکن چونکہ ہندو مسجد کے اندرونی حصہ کو دیکھ کر پوجا کرتے رہے، ان کی  دلچسپی اس میں تھی، یہ مان لیا گیا۔ دوسری طرف مسلمان باہری حصے کی طرف دیکھ کر نماز نہیں پڑھ رہے تھے۔ یعنی ان کی  دلچسپی اس میں نہیں تھی۔ فیصلہ اس طرح کی کٹ حجتی یا بیہودہ دلائل سے بھرا ہوا ہے۔

عدالت نے اپنے دلائل سے دو غیر مساوی فریق تیار کیے اور مسلمانوں کے مقابلے ہندوؤں کو زیادہ وزن دیا۔ پھر یہ ماننے کے باوجود کہ 1949 میں چوری -چوری مسجد کے اندر مورتی  رکھنا اور 6 دسمبر 1992 کو مسجدگرانا جرم تھا، عدالت نے مسجد کی زمین اسے مسمار کرنے والوں کے حوالے کر دی۔ عدالت کی منطق کے مطابق ان دونوں جرائم کو ہندوؤں کی مسجد میں دلچسپی کی مثال ہی سمجھا جانا چاہیے۔ ان کے ذریعے ہندو یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ وہ اس جگہ سے اتنی محبت کرتے ہیں کہ اسے حاصل کرنے کے لیے وہ بار بار جرائم کر سکتے ہیں۔ عدالت مسجد کی زمین کو لے کر ہندوؤں کی اس  وابستگی سے متاثر ہوئی اور فیصلہ کیا کہ ان کا دعویٰ مضبوط ہے۔

اس کے ساتھ ہی بار بار یہ کہنے کے باوجود کہ وہ اپنا فیصلہ کسی برادری کی آستھا اور عقیدے کی بنیاد پر نہیں دے رہی، بالآخر اس نے اپنا فیصلہ ہندوؤں کی آستھا کی بنیاد پر ہی دیا۔ آستھا یہ ہے کہ یہ سرزمین رام کی جائے پیدائش ہے۔ اس آستھا کا وزن اس حقیقت کے مقابلے کہ وہاں ایک زندہ مسجد تھی، زیادہ مانا گیا۔

فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ فیصلے کا مقصد ملک میں امن اور چین قائم کرنا ہے۔ اس لیے کمزور کو شہ زور کی بات مان لینی چاہیے۔

جسٹس چندر چوڑ نے کہا کہ یہ کیس بہت پرانا، لمبا اور پیچیدہ تھا اور وہ مطمئن ہیں کہ انہوں نے اسےایک مقام تک پہنچایا۔ لیکن سوال رہ جاتا ہے کہ کیا یہ فیصلہ منصفانہ تھا؟ اور کیا اس سے امن و چین قائم ہوا؟

اس کا جواب سامنے ہے۔ بابری مسجد کی زمین رام کے سرپرستوں کو سپرد کرنے کے بعد جسٹس چندر چوڑ نے اپنے تخیل کی اڑان  سے گیان واپی مسجد کو متنازعہ بنا دیا۔ انہوں نے کہا کہ آخر کسی کو یہ جاننے کا تجسس ہو سکتا ہے کہ مسجد کے اندر کیا ہے۔ اس تجسس کی تسکین اس کا حق ہے، اس لیے مسجد کا سروے کیا جا سکتا ہے۔ تجسس کی تسکین کے عمل میں اگر دعویٰ کرنے والا مسجد کے وضو خانے میں موجود چشمے کو شیولنگ مان لے، تو اس کا بھی احترام کیا جانا چاہیے۔ اس راستے پر چلتے ہوئے اب متھرا کی شاہی مسجد کو بھی اتر پردیش کی ہائی کورٹ سروے کے لیے کھول رہی ہے۔

چنانچہ جسٹس چندر چوڑ نے بابری مسجد میں امن و آشتی کے لیے جس مکمل انصاف کے اصول کو اپناتے ہوئے انصاف کو ہی سر کے بل کھڑا کردیا، وہ امن و سکون قائم نہ ہو اور دیگ ہمیشہ ابلتی رہے، اس کا بھی انتظام انہوں نے کر دیا ہے۔

جسٹس چندر چوڑ کو اس بات کا بھی کریڈٹ ملے گا کہ انہوں نے اس ملک کے وفاقی ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ جموں و کشمیر کے معاملے میں انہوں نے دفعہ 370 کو ختم کرنے کے اقدام کو جائز ٹھہرایا اور ان سے یہی توقع کی جا رہی تھی۔ لیکن انہوں نے ایک قدم آگے بڑھ کر یہ بھی فیصلہ کیا کہ اگر وفاقی حکومت چاہے تو وہ کسی بھی ریاست کو توڑ سکتی ہے اور اس کے اندر سے یونین ٹریٹری بنا سکتی ہے۔ اس ایک فیصلے نے ہندوستان کو مکمل غیر یقینی صورتحال میں ڈال دیا ہے اور ریاستوں کو مرکز کی مرضی کا غلام بنا دیا ہے۔

جسٹس چندر چوڑ ایک ماہر مقرر ہیں اور ان کے تمام بیانات عصری سیاست کے مزاج کے مطابق ہوتے ہیں۔ لیکن وہ عدالت میں حکومت کو تکلیف نہیں دینا چاہتے۔ وہ یہ چاہتے ہیں کہ لوگ فیصلہ لینے والوں پر اعتماد کریں۔ لیکن فیصلہ لینے والوں  کا طرز عمل اعتماد پیدا نہیں کرتا۔ یہ سوال باقی ہے کہ اس حکومت کے تمام ناقدین کی ضمانتوں کے کیس وہ ایک خصوصی جج کو کیوں بھیج رہے ہیں؟ اس کا جواب یہ نہیں ہے کہ ان کے فیصلوں پر ہمیں بھروسہ کرنا چاہیے۔

چیف جسٹس بڑے دن پر کیرول گا سکتے ہیں، معذور افراد کے لیے کینٹین تیار کر سکتے ہیں اور اس سے انہیں تالیاں ملیں گی۔ لیکن ان کا کام انصاف کرنا ہے۔ بہت دن نہیں ہوئے انہوں نے اپنے ایک لیکچر میں کہا تھا کہ اکثریت پسندی کے دور میں سب سے بڑی عدالت کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔ اس وقت ہم نہیں جانتے تھے کہ اس بات کا مطلب یہ تھا کہ عدالت آئین کی اس طرح تشریح کرے گی کہ اکثریتی نظریہ آئینی نظر آئے۔ بالآخر وہ امن-چین تو قائم کرہی دیتا ہے۔

(اپورواننددہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)