چھتیس گڑھ بچاؤ آندولن کے کنوینر آلوک شکلا نے کہا کہ نئی حکومت کے آنے کے بعد ہسدیو ارنیہ علاقے میں سرگرمیاں اچانک تیز ہو گئی ہیں۔ دسمبر کے آخری ہفتے میں پولیس کی بھاری تعیناتی کے درمیان بڑے پیمانے پر درخت کاٹے گئے۔ مرکزی اور ریاستی حکومتیں اڈانی گروپ کو فائدہ پہنچانے کے مقصد سے کام کر رہی ہیں۔
نئی دہلی: سول سوسائٹی گروپوں، سماجی کارکنوں اور وکلاء کی ایک سرکردہ تنظیم نے منگل کو الزام لگایا کہ چھتیس گڑھ میں بی جے پی حکومت نے اقتدار میں آنے کے فوراً بعد اڈانی گروپ کی کان کنی کی سہولت کے لیے ہسدیو جنگل کے اندر کوئلہ بلاک کے علاقے میں درختوں کی کٹائی شروع کر دی ہے۔
دی ٹیلی گراف کی رپورٹ کے مطابق، ریاست میں عوامی تحریکوں کے مشترکہ پلیٹ فارم چھتیس گڑھ بچاؤ آندولن (سی بی اے)، وکیل پرشانت بھوشن اور کئی کارکنوں نے دعویٰ کیا کہ مرکزی وزارت ماحولیات اور جنگلات نے درختوں، وائلڈ لائف اور ایکولوجی کی وجہ سے ہسدیو ارنیہ کو کان کنی کے لیے ‘نو-گو’علاقہ قرار دیا تھا۔
چھتیس گڑھ بچاؤ آندولن کے کنوینر آلوک شکلا کے مطابق، نئی حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد علاقے میں سرگرمیاں اچانک تیز ہو گئی ہیں۔ 21، 22 اور 23 دسمبر کو پولیس کی بھاری نفری ک بیچ بڑے پیمانے پر درختوں کی کٹائی کی گئی۔
شکلا نے کہا، ‘کسی بھی کان کنی کی سرگرمی کے لیے گرام سبھا کی رضامندی ضروری ہے۔ لیکن حکومت نے کوئلے کی کان کنی کے لیے گرام سبھا سے رضامندی لینے سے پہلے ہی جنگلات کاٹنا شروع کر دیے ہیں۔’
انہوں نے کہا کہ مرکز اور ریاست میں بی جے پی کی حکومتیں اڈانی گروپ کو فائدہ پہنچانے کے یکساں مقصد کے ساتھ کام کر رہی ہیں۔
ایڈوکیٹ پرشانت بھوشن نے کہا کہ ‘نو-گو’ علاقے میں کان کنی کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ انہوں نے کہا کہ راجستھان پی ایس یو کو دی گئی کان کنی لیز اڈانی کو وسائل مختص کرنے کا ایک بالواسطہ طریقہ تھا۔
بھوشن نے کہا، ‘حکومت نے ہسدیو جنگل کو ‘نو-گو’ یا ‘انوایلٹ’ علاقہ قرار دیا ہے جہاں کان کنی کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اس کو نظر انداز کیا گیا اور کان کنی کی لیز راجستھان پی ایس یو کو دی گئی، جس نے اڈانی کے ساتھ معاہدہ کیا ہے۔’
سی بی اے نے الزام لگایا کہ کچھ کارکنوں کو اس وقت حراست میں لیا گیا جب بڑے پیمانے پر درخت کاٹے جا رہے تھے۔ شکلا نے کہا، ‘اب ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ کوئلہ بلاک کے علاقوں میں درختوں کو کاٹنے یا کان کنی شروع کرنے سے پہلے مناسب گرام سبھا کا انعقاد کیا جائے۔’
ہسدیو ارنیہ ایک گھنا جنگل ہے، جو 1500 کلومیٹر کے رقبے پر محیط ہے۔ اس علاقے میں چھتیس گڑھ کی قبائلی برادریاں آباد ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس گھنے جنگل کے نیچے پانچ ارب ٹن کوئلہ دفن ہے۔ علاقے میں کان کنی ایک بڑا کاروبار بن چکا ہے جس کی مقامی لوگ مخالفت کر رہے ہیں ۔
وزارت کوئلہ اور وزارت ماحولیات اور پانی کی مشترکہ تحقیق کی بنیاد پر 2010 میں ہسدیو ارنیہ جنگل کو پوری طرح سے ‘نو گو ایریا’ قرار دیا گیا تھا۔ تاہم، یہ فیصلہ چند مہینوں میں واپس لے لیا گیا اور کان کنی کے پہلے مرحلے کی منظوری دے دی گئی، جس کے بعد کان کنی 2013 میں شروع ہوگئی تھی۔
مرکزی کوئلہ وزارت نے 2011-12 میں مختلف کمپنیوں کو 200 سے زیادہ کول بلاکس الاٹ کیے تھے، جن میں سے کچھ ہسدیو جنگل میں بھی تھے۔ مرکزی ماحولیات اور جنگلات کی وزارت نے بھی جنگلات کی منظوری دے دی تھی۔ تاہم، نیشنل گرین ٹربیونل نے 2014 میں جنگلات کی منظوری کو منسوخ کر دیا اور حکومت سے کہا کہ وہ اس بات کا مطالعہ کرے کہ آیا جنگلی حیات اور نباتات اور حیوانات کے لیے تحفظ کا کوئی علاقہ بنایا جا سکتا ہے۔
حکومت نے وائلڈ لائف انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا (ڈبلیو آئی آئی ) اور انڈین کونسل آف فاریسٹری ریسرچ اینڈ ایجوکیشن (آئی سی ایف آر آئی ) کو یہ کام سونپا۔
سال 2021 میں ڈبلیو آئی آئی نے ہسدیو میں کوئلے کی کان کنی کی اجازت دینے پر جنگلی وائلڈ لائف کو لاحق خطرے کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا۔ آئی سی ایف آر ای نے بھی اسی طرح کے خدشات کا اظہار کیا لیکن ایک تحفظاتی علاقہ تیار کرنے کا متبادل پیش کیا جس سے باہر کان کنی کی جا سکے۔
آئی سی ایف آر ای کی رپورٹ کی بنیاد پر، ماحولیات اور جنگلات کی مرکزی وزارت نے 2022 میں ہسدیو میں کوئلے کی کان کنی کے لیے جنگلات کی نئی منظوری دی۔
چھتیس گڑھ حکومت کی ایک تجویز کی بنیاد پر وزارت کوئلہ نے راجستھان اسٹیٹ پاور جنریشن کارپوریشن (آر آر وی یو این) کو چار کول بلاکس الاٹ کیے، جس نے کان کنی کی سرگرمیوں کے لیے اڈانی گروپ کے ساتھ کان کی ترقی اور آپریشن کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔
اکتوبر 2021 میں ‘غیر قانونی’ طور پر زمین کے حصول کے خلاف قبائلی برادریوں کے تقریباً 350 لوگوں نے رائے پور تک 300 کلومیٹر پیدل مارچ کیا تھا اور مجوزہ کان کے خلاف اپنا احتجاج درج کرایا تھا۔
محکمہ جنگلات نے مئی 2022 میں پی ای کے بی فیز 2 کوئلہ کی کان کی شروعات کرلنے کے لیے درخت کاٹنے کی مشق شروع کی تھی، جس کی مقامی باشندوں نے سخت مخالفت کی تھی۔ بعد میں یہ کارروائی روک دی گئی تھی۔
Categories: خبریں