چار شنکراچاریوں نے رام مندر کی تقریب میں حصہ لینے سے انکار کر دیا ہے۔ انہوں نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ یہ کوئی مذہبی تقریب نہیں ہے، یہ بی جے پی کی سیاسی تقریب ہے۔ پھر یہ سادہ سی بات کانگریس یا دیگر پارٹیاں کیوں نہیں کہہ سکتیں؟
‘اس مندر میں کوئی دیوتا نہیں ہے،’ سادھونے کہا۔
راجا روش (غصے) سے بھر اٹھا:
‘دیوتا نہیں! ارے سنیاسی، ناستک کی طرح بولتا ہےتو۔
رتن جڑت سنہاسن پردیپت ہے رتن وگرہ!
پھر بھی کہتا ہے تو کہ خالی ہے یہ ؟’
راجدرپ سے پورن ہے، خالی نہیں۔
تم نے اپنے کو استھاپت کیا ہے، دیوتا کو نہیں۔’
رابندر ناتھ ٹیگور کے در وازے پر اگر وشو ہندو پریشد کے لوگ 22 جنوری 2024 کو ایودھیا میں عظیم الشان رام مندر میں رام للا کی پران پرتشٹھا کی دعوت لے کر پہنچتے، تو وہ انہیں یہی جواب دیتے جو نظم ‘دین دان’ میں سادھو راجا کو دیتا ہے۔
لیکن کانگریس پارٹی اس تذتذب میں مبتلا ہے کہ وہ ایودھیا میں اس رام مندر کی افتتاحی تقریب میں جائے یا نہ جائے جو ایک مجرمانہ فعل کو انجام دیتے ہوئے بابری مسجد کو توڑ کر عدالتی دھوکہ دہی کے ذریعے اس کی زمین حاصل کرکے اس پر بنایا جارہا ہے۔کئی لوگوں کو کانگریس کی اس الجھن میں لطف آ رہا ہے۔ کچھ لوگ بھارتیہ جنتا پارٹی کی ہوشیاری پر دانتوں تلے انگلی دبا رہے ہیں کہ دیکھو، کانگریس کو کیسا پھنسایا!’
لیکن ہم سب کو سوال کرنا چاہیے کہ یہ مخمصہ اور تذبذب کیوں ہونا چاہیےاور آخر کانگریس کو؟ اور اگر یہ مخمصہ ہے تو پھر دوسرے لوگ اس سے لطف اندوز کیوں ہو رہے ہیں؟ اور یہ مخمصہ اس ملک کے بارے میں کیا ظاہر کرتا ہے؟ کیا یہ صرف کانگریس کا مسئلہ ہے یا پورے ملک کا مسئلہ ہے؟
جب ہم ملک کہہ رہے ہیں تو پھر ایمانداری سے کہیں کہ یہ ہندوؤں کا مسئلہ ہے۔ اب مسلمانوں کو اس مندر کی تعمیر، اس کی تاریخ، کون اس میں شامل ہوتا ہے اور کون نہیں، اس سے زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ انہوں نے اس مندر کی تعمیر کی قیمت ادا کی ہے۔ یہ مندر بابری مسجد کے انہدام کے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔
اس کے علاوہ رام مندر کی مہم مسلمانوں کو کمتر ثابت کرنے کی مہم تھی۔ اگر اس مہم کے نعروں کو یاد کریں تو وہ جتنا رام کے بارے میں تھے اس سے زیادہ مسلمانوں کے خلاف تھے۔ اس توہین کے علاوہ یہ مندر مسلمانوں کو ان کے خلاف تشدد اور خونریزی کی یاد دلاتا رہے گا۔ اور آخر میں، سپریم کورٹ کی آخری ناانصافی کو بھی مسلمان فراموش نہیں کر سکتے۔
مسلمان جانتے ہیں کہ یہ مندر رام کی تعظیم سے زیادہ مسلمانوں کے خلاف نفرت اور ان پر ہندوؤں کی خیالی فتح کی یادگار ہے۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اس ملک کی تقریباً تمام سیاسی جماعتیں ایک لحاظ سے ہندو جماعتیں ہی ہیں۔ اس لیے وہ اس رام مندر کے افتتاح کی دعوت کو لے کر مخمصے میں ہیں۔
اگر دعوت قبول نہیں کرتے ہیں تو ہندوؤں کے ووٹ جانے کا خطرہ ہے، لیکن اگر قبول کر لیں تو اس کا مطلب اپنی اخلاقیات سے سمجھوتہ کرلینا ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس ملک میں سیاسی اخلاقیات کی قدر یا احترام کا احساس ابھی زندہ ہے۔ وہ اخلاقیات سادہ معنوں میں سیکولرازم نہیں ہے، حالانکہ یہ بھی اس میں شامل ہے۔ یہی وسیع تر معنوں میں انصاف کی اخلاقیات ہے۔
سب جانتے ہیں کہ یہ مندر ایک بڑی ناانصافی کی علامت ہے۔ اس ناانصافی کا جشن نہیں منایا جا سکتا۔ لیکن اس سوال پر غور کرنے سے پہلے کچھ اور سوال ہیں۔ یہ سوال ان لوگوں کے لیے ہیں جو اس مندر کو قبول کر رہے ہیں اور انہیں وہاں جانے میں کوئی برائی نظر نہیں آتی۔
ہم جانتے ہیں کہ یہ مندر ابھی ادھورا ہے، تعمیراتی کام جاری ہے۔ تو پھر مندر کی تعمیر مکمل ہوئے بغیر گربھ گرہ کے افتتاح کی جلدی کیوں؟
ہم سب جانتے ہیں کہ کئی بار ادھورے گھر میں گرہ پرویش کی رسم ادا کر لی جاتی ہے۔ کچھ عملی مجبوریوں کی وجہ سے۔ گھر کا کوئی خاص فرد بیرون ملک جا رہا ہوتا ہے، کسی کے والدین اتنے بوڑھے ہو گئے ہیں کہ لگتا ہے کہ وہ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے بچوں کا اپنا گھر تودیکھ لیں! لیکن یہاں اب تک ادھورے مندر میں ‘ششو رام’ کو بٹھا دینے کی بے تابی کیوں؟ ہم جانتے ہیں کہ مندر کیا اس کے لیے وہ کھلے میں بھیگ رہے ہیں؟ یا انہیں سردی سے بچانا ہے؟
لیکن ہم جانتے ہیں کہ معاملہ کچھ اور ہے۔ جو معصوم جذبات کے ساتھ رام بھکت ہیں، یعنی سیاسی رام بھکت نہیں، وہ کہیں نہیں جا رہے۔ رام مندر کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد ہی اس کا افتتاح کوئی معنی رکھتا ہے۔ پھر یہ عجلت پسندی کیوں؟
بھارتیہ جنتا پارٹی کو عجلت ہے کہ وہ ادھورےمندر میں ہی نابالغ ‘ششو رام’ کو بٹھا دے۔ کیا یہ اس لیے کہ اگلے 1 یا 5 سال تک اس کا ‘شبھ مہورت’ نہیں نکلے گا؟ ہم سب، یہاں تک کہ وہ لوگ جو خود کو سچے رام بھکت، مذہبی ہندو کہتے ہیں، جانتے ہیں کہ اس کی وجہ صرف ایک ہے: 3 ماہ بعد ہونے والے لوک سبھا کے انتخابات۔ انتخابی مہم میں بی جے پی ‘ششو رام’ کو ان کا گھر دلانے کی اپنی حصولیابی کا ڈھول پیٹ سکے، اس لیے ابھی ہی یہ افتتاح کر لیا جانا چاہیے۔
یہ اس لیے بھی ہے کہ بابری مسجد کی زمین ہڑپنے کے بعد اور اس کا رام مندر کی زمین کے طور پر پوجا کرنے کی نریندر مودی کی تصویریں پرانی ہو چکی ہیں، حالانکہ ان کا ابھی بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ لیکن مزید تصاویر کی ضرورت ہے۔ نریندر مودی کو ہندوستان کے پہلے ہندو کے طور پر قائم کرنے کے لیے، جس میں وہی پروہت ہوں اور وہی یجمان۔ ایسی تصویروں کی روزانہ ضرورت ہے۔
ایودھیا میں ‘رام للا’ کی پران پرتشٹھا کرتے ہوئے وزیر اعظم کی تصویر مودی کو ‘سبھیتا پُرش’، ‘بادشاہ’ کے طور پر مشتہر کرےگی، وہ ‘راجا’ جس نے رام کو واپس گھر دلوایا۔ اس تصویر کی انتخابی اہمیت ہے۔
ہندو ذہن میں مودی کو منتخب شہنشاہ کے طور پر قائم کرنے کی مہم میں ‘رام للا’ کی ‘پران پرتشٹھا’ کرتے ہوئے مودی کی تصویر ضروری ہے۔ آپ نے رام مندر ٹرسٹ کے بانی چمپت رائے کا بیان ضرور سنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ راجا وشنو کا اوتار ہوتا ہے اور مودی راجا ہیں۔ اس لیے وہ وشنو کے اوتار ہیں۔
بی جے پی کو امید ہے کہ کسی بھی دوسرے نعرے یا وعدے کے مقابلے ایودھیا کے اس نئے رام مندر میں ‘رام للا’کے پران پرتشٹھا کی تصویریں ہندو نفسیات کو زیادہ متاثر کریں گی۔ یہ کہنے کے لیے آپ کو تجزیہ کار بننے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس سے بی جے پی حکومت کی دیگر ناکامیوں کو چھپانے میں کافی مدد ملے گی۔ یہ تصویر ایک ‘ہندو راشٹر’ کے طلوع ہونے کا ثبوت بھی ہو گی۔
ہم یہ سب جانتے ہیں اور کانگریس یا دیگر پارٹیاں بھی۔ پھر بھی وہ خوفزدہ ہیں کہ اگر وہ رام مندر کی اس تقریب میں شریک نہیں ہوئیں تو انہیں ہندو مخالف قرار دے دیا جائے گا۔
اس ملک میں اس طرح کے اخلاقی تذبذب کا سامنا کرنے پر گاندھی کے پاس جانے کی روایت اب بھی برقرار ہے۔ اپنے غلط کاموں کو بھی درست ثابت کرنے کے لیے بڑے لوگ گاندھی کا نام لے لیتے ہیں۔ جیسا کہ ابھی حال میں چیف جسٹس آف انڈیا نے گجرات میں مندر کے دورے کے اپنے عوامی نمائش کا جواز پیش کرنے کے لیے کیا تھا۔
کیا گاندھی اب بھی کانگریس کےلیے اخلاقی پیمانہ ہیں؟ اگر ہیں تو کانگریس کو یہ سوال کرنا چاہیے کہ ایسی حالت میں وہ کیا کرتے؟ کیا جواب دیتے وشو ہندو پریشد یا راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کو؟
اگر وہ زندہ ہوتے تو آپ فرض کر سکتے ہیں کہ مندر ٹرسٹ گاندھی کو ضرور مدعو کرتا۔ یہ اس کے لیے ستم ظریفی ہے کیونکہ اس ٹرسٹ سے وابستہ لوگوں کی ایک بڑی تنظیم کے رکن ہی نے گاندھی کو قتل کیا تھا۔ اسے جانے دیں، کچھ لوگ کہیں گے کہ اس مبارک موقع پر قتل کا ذکر کیوں؟ بہرحال! اگر گاندھی کو یہ دعوت ملتی تو وہ اسے ٹھکرانے میں ایک لمحے کی بھی تاخیر نہ کرتے۔
اس کی وجہ صرف یہ نہیں ہے کہ گاندھی مندرشاید ہی جاتے تھے۔ اپنا ہندوپن ثابت کرنے کی انہیں ضرورت نہیں تھی بلکہ اپنے ہندوپن کو نمایاں کرنےاور اسے نئے تجربات سے مالا مال کرنے کی کوشش انہوں زندگی بھر کی۔ انہیں کبھی کسی شنکراچاریہ یا کسی مذہبی گرو سے منظوری کی ضرورت نہیں پڑی۔
لیکن اس دعوت کو قبول کرنے کے لیے عام طور پراپنے مندر نہ جانے کو گاندھی وجہ نہیں بناتے۔ اول تووہ اس سے پہلے شاید یہ تحریک شروع کرتے کہ گرائی گئی بابری مسجد کو دوبارہ بناکر مسلمانوں کو واپس کیا جائے۔
غور طلب ہے کہ 1947-48 میں دہلی میں کئی مساجد، مقبروں اور درگاہوں کو نقصان پہنچایا گیا اور ہندوؤں نے ان پر قبضہ بھی کر لیا۔ کناٹ پلیس کی مسجد پر قبضہ کر کے اس کے اندر مورتیاں رکھ دی گئیں۔ گاندھی نے بار بار کہا کہ جن مساجد پر قبضہ کیا گیاتھا، انہیں خالی کر دیا جائے۔ مزید آگے بڑھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جن اسلامی عمارتوں پر پناہ گزینوں نے قبضہ کر لیا تھا، انہیں بھی خالی کیا جائے۔
ظاہر ہے کہ گاندھی اپنے اس اسٹینڈ کی وجہ سے ہندوؤں میں غیر مقبول ہو ئے۔ لیکن اس کی وجہ سے انہوں نے نہ تو اپنا اسٹینڈ بدلا اور نہ ہی خاموش رہنے کا فیصلہ کیا۔
بابری مسجد کو مندر بنانے کے لیے دو جرائم کیے گئے،یہ سپریم کورٹ نے قبول کیا ہے۔ کیا اس جرم میں ملوث افراد کو سزا دی گئی؟ سزا تو دور کی بات، جنہوں نے اس جرم کی منصوبہ بندی کی، انہیں ہی مندر بنانے کے لیے زمین دے دی گئی۔
کوئی بھی انصاف پسندیہ کیسے قبول کر سکتا ہے؟
علاوہ ازیں سبھی جانتے ہیں کہ یہ پورا پروگرام بھارتیہ جنتا پارٹی کی تقریب ہے۔ ملک بھر میں، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے کارکنان گھر-گھر جا رہے ہیں اور رام اکشت،یا پیلے چاول کی پڑیا کے ساتھ مندر کے افتتاح کے لیے دعوت نامے لے کر گھوم رہے ہیں۔ کیوں کہا جا رہا ہے کہ 22 جنوری کو ہر محلے اور گلی میں مندروں میں اس حوالے سے تقریبات کا انعقاد کیا جائے؟ کیوں نریندر مودی ہندوؤں سے کہہ رہے ہیں کہ ہر گھر میں دیوالی منائی جانی چاہیے؟ کیوں وشو ہندو پریشد دنیا کے 55 ممالک میں 22 جنوری کو اس مندر کے افتتاح کا جشن منا رہی ہے؟ کیوں سرکاری خرچ پر اس تقریب کی تشہیر کی جا رہی ہے؟
کیا یہ سچ نہیں ہے کہ حال ہی میں ختم ہوئے اسمبلی انتخابات کے دوران، بی جے پی کارکنان گھر گھر جا کر رام مندر کے دعوت نامے لے کر بی جے پی کو ووٹ دینے کا حلف دلایا؟ کیا کسی ایک مندر بنانے کے اس دکھاوے کے پیچھے چھپے فریب کو نہیں پہچان پا رہے ہیں؟
چار شنکراچاریوں نے اس تقریب میں شرکت سے انکار کر دیا ہے۔ انہوں نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ یہ کوئی مذہبی تقریب نہیں ہے، یہ بی جے پی کی سیاسی تقریب ہے۔ پھر کانگریس یا دیگر پارٹیاں یہ سادہ سی بات کیوں نہیں کہہ سکتیں؟ اس کے بجائے کیا وہ خود بی جے پی کی اس مہم میں حصہ لیں گی؟ سنا ہے کرناٹک کی حکومت ریاست بھر میں جشن منانے جارہی ہے؟ کیا یہ سیاسی حماقت نہیں ہے؟
عوام یہ سب دیکھ رہے ہیں لیکن یہ بھی بتانے کی ضرورت ہے کہ اس رام مندر کی تعمیر کا ہر قدم آلودہ ہے اس لیے اس میں شامل ہونا بھی آلودگی ہے۔
کانگریس پارٹی کو گاندھی کی اخلاقی ہمت دوبارہ حاصل کرنی ہوگی اگر اسے بی جے پی کی نفرت انگیز مہم کا مقابلہ کرنا ہے۔ بی جے پی ہندوؤں کو ذہنی اور اخلاقی طور پر گرا رہی ہے۔ کانگریس کو اس کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ اسے دوبارہ ووٹر کو انسان بھی بنانا ہے۔ یہ کام وہ ڈرتے ہوئے نہیں کر سکتی۔
ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اگر ٹیگور آج زندہ ہوتے تو وہ ایودھیا میں بی جے پی کی ملکیت والے رام مندر پر اور زیادہ سخت نظم لکھتے۔ کانگریس پارٹی نہ تو مہاتما ہے اور نہ شاعر، لیکن کیا یہ اخلاقی جرٲت صرف ان دونوں کے پاس ہے اور کیا سیاست بالآخر دھوکے اور بزدلی سے ہی بنتی ہے؟
کہا جا سکتا ہے کہ 22 جنوری 2024 ایک طرح سے سیاست کی حقیقت اور صداقت کا امتحان ہے۔ دیکھنا ہے،اس میں کون پاس ہوتا ہے۔
(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)
Categories: فکر و نظر