بلقیس بانو کی جیت ہندوستان کی ان خواتین اور مردوں کو شرمندہ کرتی ہے جو اس کیس پر اس لیے خاموش رہےکہ انہیں وزیر اعظم مودی سے سوال کرنا پڑتا، انہیں بی جے پی سے سوال کرنا پڑتا۔
بلقیس بانو کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ آگیا ہے۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ایسے وقت میں آیا ہے، جب رام مندر کے افتتاح کے بہانے وزیر اعظم مودی کو وشنو اور شیو کا ‘اوتار’ بتایا جا رہا ہے۔ انہیں رام کی ‘مریادا’ (وقار/عزت وناموس) کی علامت کے طور پر پیش کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، لیکن اس درمیان سپریم کورٹ کے فیصلے نے یہ سوال کھڑا کر دیا ہے کہ کیا وہ ایک ‘مہاپُرش’ اور ‘دیوک اوتار’ (رام) کے جانشیں بننے کے اہل ہیں بھی یا نہیں۔
وزیراعظم کے ناطے چھوڑیے، ایک عام شہری کی حیثیت سے انہوں نے قتل کرنے والوں اور ریپ کرنے والوں کی رہائی کی مخالفت نہیں کی۔ گجرات انتخابات کے دوران قتل اور ریپ کے مجرموں کی گلپوشی کی جا رہی تھی، بی جے پی ایم ایل اے سی کے راؤل جی کا بیان ہے کہ یہ ’برہمن‘ ہیں اور ان کے ‘سنسکار’ اچھے ہیں۔ وزیر اعظم خاموش رہے، ان کی وزیر اسمرتی ایرانی خاموش رہیں۔
جب آپ اس کیس کی تفصیلات کا مطالعہ کریں گے تو پتہ چلے گا کہ نہ صرف قاتلوں اور ریپ کرنے والوں کو بچایا جا رہا تھا بلکہ اس نظریے کا بھی دفاع کیاجا رہا تھا جس کے نام پر 11 لوگوں نے بلقیس کے ساتھ ریپ کیا اور اس کے خاندان کے 7 افراد کو قتل کیا۔ آج سپریم کورٹ نے اس نظریے کو بھی رنگے ہاتھوں پکڑ لیا ہے۔ اب سوال سپریم کورٹ کے فیصلے سے بھی بڑا ہے۔
گجرات حکومت کو، وزیر اعظم نریندر مودی کو، وزیر داخلہ امت شاہ کو سپریم کورٹ کے اس ایک فیصلے سے بچانے کے لیے گودی میڈیا کیا کرے گا، کیا آپ جانتے ہیں؟ کیا اس فیصلے کوگھر-گھر پہنچائے گا یا پھر گودی میڈیا رام مندر کی کوریج اور بڑھا دے گا تا کہ رام کو گھر-گھر پہنچانے کے نام پر بی جے پی حکومت کی اس کرتوت کو آپ تک پہنچنے سے روکا جا سکے۔ کیا یہ سوال کرے گا کہ گجرات حکومت قاتلوں کا ساتھ دیتی ہوئی پکڑی گئی ہےکیا وزیراعلیٰ سے استعفیٰ مانگا جائے گا؟ کیا کسی کے خلاف کارروائی ہوگی؟
رہائی کے وقت گجرات کے وزیر اعلیٰ بھوپیندر پٹیل تھے اور آج بھی ہیں۔ کیا میڈیا وزیراعظم اور وزیر داخلہ سے سوال کرے گا کہ اس قدرسنگین جرم کا ارتکاب کرنے والوں کی رہائی کی سفارش وزارت داخلہ نےکیوں کی؟ خود گجرات حکومت نے سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ وزارت داخلہ کے کہنے پر یہ لوگ رہا کیے گئے ۔
آپ بھی ٹھیک سے پڑھیے۔ سپریم کورٹ کی جسٹس بی وی ناگ رتنا اور جسٹس اجل بھوئیاں پر مشتمل بنچ نے کہا ہے کہ گجرات حکومت قتل اور ریپ کے معاملے میں سزا یافتہ لوگوں کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔ ہمارا سوال ہے کہ کیا وزیر اعظم مودی اس گجرات حکومت کے وزیر اعلیٰ سے استعفیٰ کا مطالبہ کریں گے، جس کے بارے میں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ اس نے قاتلوں اور ریپ کرنے والوں کے ساتھ مل کر کام کیا۔
جسٹس ناگ رتنا نے فیصلہ پڑھتے ہوئے کہا کہ عدالت کا ماننا ہے کہ رہائی کے فیصلے کا دائرہ اختیار گجرات حکومت کے پاس نہیں تھا بلکہ مہاراشٹر حکومت کے پاس تھا۔ اس لیے عدالت نے رہائی کے فیصلے کو خارج کر دیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ ملزمین کی آزادی پر پابندی عائد کرنا جائز ہے۔ انہوں نے آزادی کے حق کو اسی وقت کھو دیا تھا، جب وہ مجرم پائے گئے تھے اور انہیں جیل ہوئی تھی۔ اگر انہیں رہائی چاہیے تو جیل میں، قانون کے دائرے میں رہ کر اپیل کریں۔
عدالت نے کہا ہے کہ ہمارا ماننا ہے کہ قانون کی حکمرانی پر عمل کیے بغیر انصاف نہیں ہو سکتا۔ اگر ایسا نہیں ہوگا تو عدالتی احکامات متھ بن کر رہ جائیں گے۔ عدالت کو انصاف کرنا ہے، انصاف سے گریز نہیں۔
گجرات حکومت نے سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کی مدد لیتے ہوئے اس معاملے میں رہائی دی تھی۔ اس فیصلے کے مطابق رہائی کااختیارحکومت مہاراشٹر سے حکومت گجرات کو منتقل کر دیا گیا تھا، اس بنیاد پر کہ جرم گجرات میں ہوا تھا۔ آج کے اپنے فیصلے میں عدالت نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ سے 13 مئی 2022 کا وہ فیصلہ فراڈ کے ذریعے حاصل کیا گیا تھا، اس لیے وہ غیر قانونی ہے اور اسی وجہ سے رہائی کے حکم کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔
سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ یہ ایک کلاسک کیس ہے جب سپریم کورٹ کے فیصلے کو قانون شکنی کی غرض سےاستعمال کیا گیا۔ تاکہ مجرموں کو رہا کیا جا سکے۔ عدالت نے کہا ہے کہ یہ ریاستی حکومت کی جانب سے صوابدید کے غلط استعمال اور اختیارات کو غصب کرنے کا معاملہ ہے۔ اس بنیاد پر بھی اس فیصلے کو رد کیا جانا چاہیے۔
آج رام کی مریادا کی ساری عام سمجھ داؤ پر ہے۔ بی جے پی حکومت پر قتل اور عصمت دری کے مجرموں کے ساتھ مل کر کام کرنے کا الزام نہیں ہےبلکہ ثبوت ملا ہے۔ عدالت نے گجرات حکومت کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔ کہا ہے کہ ان قاتلوں کے ساتھ حکومت کی ملی بھگت تھی۔ بتائیے کہ کسی سرکار پر پر آپ نے کب سنا کہ عدالت نے کہا ہو کہ وہ قاتلوں اور ریپ کرنے والوں کے ساتھ ملی ہوئی تھی؟
اب سوال ہے کہ کیا رام کی مریادا کی پاسداری ہوگی، آئینی مریادا کا تو ہم نے ذکر ہی نہیں کیا کیونکہ کروڑوں روپے جھونک کر اور لاکھوں کارکنوں کو اتار کر ملک کو رام کا نعرہ بنایا جا رہا ہے تو رام کی مریادا کی ہی بات کرلیتے ہیں۔ کیا بی جے پی کارکنان، لیڈران اور حامی اس بات کو بھی ہضم کر جائیں گے۔ یا یہ سوال کریں گے کہ وزیر اعظم کے گجرات کی بی جے پی حکومت پر قاتلوں اور ریپ کرنے والوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کے شواہد ملے ہیں تو ایسی صورت حال میں وزیر اعظم کو کیا کرنا چاہیے؟
تب کیا کرنا چاہیے تھا اور اب کیا کرنا چاہیے؟
کیا گھر-گھر آنے والے ان کارکنوں سے ملک کی خواتین پوچھیں گی کہ رام کی پوجا کرتے ہیں لیکن قاتلوں اور عصمت دری کرنے والوں کو چپکے سے رہا کرتے ہیں، وزیر اعظم بولتے کیوں نہیں، کیا اس ملک کی خواتین یہ سوال پوچھیں گی یا وہ اس پر بھی خاموش رہیں گی۔ اس طرح کے پروگراموں کے ذریعے ماحول بنایا جا رہا ہے لیکن کیا خواتین دیکھ پائیں گی، ملک کے لوگوں کو نظر آئے گا کہ رام کے نام پر کیا کیا چھپایا جا رہا ہے؟
سپریم کورٹ نے بلقیس بانو کے ساتھ ریپ کرنے والے، اس کی بچی کو مار دینے والے اور دیگر رشتہ داروں کے قتل جیسے الزام میں سزا یافتہ ان تمام 11 افراد کو جیل بھیجنے کا حکم دیا ہے، جنہیں گجرات انتخابات کے وقت رہا کیا گیا تھا۔ ان کی رہائی 15 اگست کو ہوئی تھی۔ اس دن آزادی کا امرت مہوتسو منایا جا رہا تھا اور قاتلوں کو ‘امرت’ اور ‘آزادی’ دی جا رہی تھی۔ ان 11 مجرموں کو دو ہفتے کے اندر سرینڈر کرنا ہوگا۔
عدالت نے کہا ہے کہ گجرات حکومت کا فیصلہ اختیارات کا غلط استعمال تھا۔ ذرا سوچیے کہ یہ غلط استعمال کس کے لیے کیا گیا، جن کو قتل کے معاملے میں سزا سنائی جا چکی تھی۔ کیا یہ معاملہ سیاسی نہیں ہے؟ کیا ان کی سیاسی ضرورت کے بغیر کوئی حکومت یہ فیصلہ کر سکتی ہے؟ عدالت نے کہا ہے کہ گجرات حکومت کے پاس ایسا کرنے کا کوئی اختیارہی نہیں تھا۔ آپ کسی ریپسٹ اور قاتل کو رہا کر رہے ہیں، اس وقت کر رہے ہیں جب آپ کو ایسا کرنے کا کوئی اختیار ہی نہیں ہے۔
واضح ہے کہ گجرات اسمبلی انتخابات میں ماحول بنانے کے لیے یا کسی اور سیاسی مقصد سے یہ کیا گیا ہو گا۔ یہ لڑائی میڈیا نے نہیں لڑی۔ مہوا موئترا نے لڑی، جسے پارلیامنٹ سے نکال دیا گیا، جن کے خلاف گودی میڈیا نے مہم چلائی۔ مہوا پارلیامنٹ میں ہار گئیں، وہ میڈیا کے سامنے ہار گئیں، لیکن ان کی اس ایک پٹیشن نے اس سچ کو سامنے لا دیا جو نظر سب کو آ رہا تھا، لیکن بول کوئی نہیں رہا تھا۔
بلقیس بانو بلاشبہ کلیدی درخواست گزار تھیں، لیکن ان کے ساتھ ترنمول لیڈر مہوا موئترا، سابق سی پی آئی ایم ایم پی سبھاشنی علی، پروفیسر روپ ریکھا ورما، صحافی ریوتی لال نے بھی 2022 میں مجرموں کی رہائی کے بعد عدالت میں اپنی عرضی داخل کی تھی۔ ایک بار پھر وکیل کپل سبل، وکیل شوبھا گپتا، وکیل ورندا گروور اور وکیل ابھیشیک منو سنگھوی نے اس لڑائی میں پیروی کی۔ سبھاشنی علی نے اپنی عرضی میں کہا تھا کہ یہ ناانصافی ہے۔ انہوں نے دی وائر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ کیا نئے ہندوستان میں مجرم کے مذہب اور ذات کی بنیاد پر انصاف ہوگا؟
مودی سرکار ‘ناری وندنا اور ماتری شکتی’ کے نعرے لگاتی رہی، بی جے پی کے کارکن اور حامی بھی یہی کرتے رہے، لیکن بلقیس کے ذریعے ہندوستان کی خواتین کے ساتھ کھڑے ہونے کا موقع وزیر اعظم مودی نےگنوا دیا۔ خاموشی ان کی تھی، ملی بھگت گجرات سرکار کی تھی، اس جرم میں وہ تمام خواتین شامل ہوگئیں، وہ شہری شامل ہوئے جو مودی کے حامی ہونے کے ناطے خاموش ہو گئے۔ یہ کوئی عام سا معاملہ نہیں تھا۔ قتل اور ریپ کے سنگین کیس میں ان 11 افراد کوسزا سنائی گئی تھی۔
جسونت نائی، گووند نائی، شیلیش بھٹ، رادھےشیام شاہ، وپن چندر جوشی، کیشر بھائی ووہانیہ، پردیپ موڈھڈیا، باکا بھائی ووہانیہ، راجو بھائی سونی، متیش بھٹ اور رمیش چاندنا۔ یہ ان کے نام ہیں۔ مقامی لوگ پھولوں کے ہار اور مٹھائیاں لے کر ان کے استقبال کے لیے پہنچے تھے۔ جب یہ لوگ باہر آئے تھے تو ان کے پاؤں چھوئے گئے تھے، گل پوشی کی گئی تھی، خواتین نے ٹیکے لگائےتھے۔
ایسی خبریں بھی شائع ہوئیں کہ وشو ہندو پریشد کے لیڈروں نے اپنے دفتر میں ان کا استقبال کیا۔ اس پورے معاملے سے وزیر اعظم کو الگ کرنے کے لیے بی جے پی کی ترجمان شاذیہ علمی نے انڈین ایکسپریس میں ایک مضمون لکھا۔ بتایا کہ وشو ہندو پریشد نے کیا ہے۔ اس کا وزیر اعظم مودی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اس پر وشو ہندو پریشد کے لیڈر ناراض ہوگئے اور بی جے پی سے ہی سوال کر دیا کہ کیا یہ پارٹی لائن ہے یا شاذیہ علمی کی رائے ہے۔ تو اس طرح اس معاملے میں بی جے پی گیند کو ایک کورٹ سے دوسرے کورٹ میں پھینک رہی تھی تاکہ وزیر اعظم پر آنچ نہ آئے۔
کیا وزیراعظم اس جوابدہی سے بچ سکتے ہیں؟ انہوں نے کچھ نہیں کہا، اٹل بہاری واجپائی کی طرح بول سکتے تھے کہ جو ہوا غلط تھا لیکن وہ تو خاموش رہے۔ گجرات سے آتے ہیں، وہاں کی حکومت نے ایسا کیا، حکومت ریپ کرنے والے اور قاتلوں کے ساتھ کھڑی ہے اور وزیراعظم کی کوئی جوابدہی نہیں بنتی ہے۔
کیا اس کے لیے بھی وزیراعظم کی کوئی ذمہ داری نہیں بنتی ، ٹھیک سے پڑھیے۔ بی جے پی کے ایم ایل اے ہیں سی کے راؤل جی۔ انہوں نے رہائی پانے والے مجرموں کو ‘سنسکاری برہمن’ کہا تھا۔ بی جے پی ایم ایل اے جیل کی اس کمیٹی کے رکن تھے جس نے ان کی رہائی کی تجویز پیش کی تھی۔ تصور کیجیے کہ برہمن ہونے کی وجہ سے قاتلوں اور ریپ کرنے والوں کورہا کیا گیا۔ کیا آئی ٹی سیل ہندوستان ٹائمز میں شائع ہونے والی اس خبر کو عوام تک پہنچائے گا کہ ہندوستان کے وزیر اعظم کی ناک کے نیچے کیا ہو رہا ہے؟
ملک کے ایک حصے کو بدل دیا گیا ہے اور باقی حصے کو ڈرا کر خاموش کر دیا گیا ہے۔ یہ کسی اور دور کا ہندوستان ہوتا تو وزیر اعظم سیاسی دباؤ کی فکر کرتے، سوچتے کہ عوام میں کیا پیغام جائے گا، لیکن سب کو بھروسہ ہوگیا ہے، رام کے نام کی گاڑی گلی گلی میں گھما جائے گی۔ لوگ بھول جائیں گے کہ حکومت نے کیا کیا ہے۔
کام کچھ اور تقریر کچھ اور۔ جس 15 اگست 2022 کو بلقیس بانو کے ساتھ ریپ کرنے والوں اور ان کے خاندان کے سات افراد کو قتل کرنے والوں کو رہا کیا جا رہا تھا، اسی 15 اگست 2022 کو وزیر اعظم لال قلعہ سے قوم سے اپیل کر رہے تھے کہ ‘کسی نہ کسی وجہ سے ہمارے اندر ایسی بگاڑ پیدا ہو گئی ہے، ہماری بول چال میں، ہمارے طرز عمل میں،ہمارے کچھ لفظوں میں ہم عورتوں کی توہین کرتے ہیں۔ کیا ہم مزاج سے، تہذیب سے روزمرہ کی زندگی میں خواتین کی توہین کرنے والی ہربات سے نجات کا عہد کر سکتے ہیں۔’
عوام سے اپیل کر رہے ہیں ، خود جو کرنا چاہیےنہیں کر رہے تھے۔ خواتین کی ترقی کی وزیر اسمرتی ایرانی عرضی لے کر سپریم کورٹ نہیں گئی تھیں۔ انہیں جانا چاہیے تھا، یہ ان کا کام تھا۔کون اس ملک میں قاتلوں کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے؟ کس مجبوری میں کھڑا ہوتا ہے، گجرات حکومت سے پوچھا جاناچاہیے، کس کی ہدایت پر قاتلوں کے ساتھ یہ سرکار مل کر کام کر رہی تھی۔
گجرات فسادات پر دی اناٹومی آف ہیٹ کے عنوان سے ایک شاندار کتاب لکھنے والی صحافی ریوتی لال بھی درخواست گزاروں میں شامل تھیں۔
بی جے پی کی خواتین لیڈر یہ لڑائی کیوں نہیں لڑ رہی تھیں، ان کے پاس حکومت تھی، طاقت تھی اپنی ہی حکومت سے پوچھنے کے لیے، کیا بی جے پی کی خواتین لیڈروں کو اس میں کچھ غلط نہیں لگا، وہ خاموش کیسے رہ گئیں؟ پھر وہ کس بات کی ‘ناری شکتی اور ناری وندنا’ کے نام پر مذہبی جلسوں میں جاتی ہیں،اگر بلقیس کے مذہب سے دقت تھی تو اس بات سے کوئی دقت کیوں نہیں تھی کہ بی جے پی کےہی مرد ایم ایل اے قاتلوں کو برہمن اوراچھے ‘سنسکار’ والا بتا رہے ہیں۔ کیا بی جے پی خواتین لیڈروں کے ہندو راشٹر کے تصورمیں ان چیزوں کو برداشت کرنا ہوگا؟
سپریم کورٹ نے اب ان تمام لیڈروں کو سزا سنائی ہے جو قوم پرستی اور’ناری وندنا’ کے نام پر پگڑی باندھ کر ‘ویر رس’ میں وزیر اعظم مودی کی تعریف کرتے ہیں، لیکن ریپ کرنے والے اور قاتل کی رہائی پر ایک لفظ بھی کہنے کی ہمت نہیں دکھا سکے۔ یہی مذہب کی سیاست کی بزدلی ہے۔ مذہب کی سیاست عام سمجھ کو بھی کیچڑمیں بدل دیتی ہے۔
اپریل 2019 میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ بلقیس کو 50 لاکھ کا معاوضہ، مکان اور نوکری ملے۔ کیونکہ بلقیس نے 17 سال سے خانہ بدوش کی طرح زندگی گزاری ہے۔ بلقیس نے پندرہ سالوں میں بیس گھر بدلے تھے۔ لیکن گجرات حکومت نے معاوضہ دینے میں پانچ ماہ کی تاخیر کی۔ جب وہ عدالت میں واپس گئی تو حکومت کے وکیل تشار مہتہ نے کہا کہ عدالت کو واضح کرنا چاہیے کہ ایسا صرف اس لیے ہوا کیونکہ اس کیس میں خاص حالات ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ استثنیٰ کے طور پر ہدایات دی جارہی ہیں۔ پھر عدالت نے کہا کہ ٹھیک ہے ہم وضاحت کرتے ہیں۔ اس کے بعد مہتہ نے کہا کہ ہم دو ہفتے میں رقم دے دیں گے۔ اس پر بھی عدالت کو کہنا پڑا تھا کہ اتنی تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔ ریاست ہر قدم پر بلقیس کی مخالفت کر رہی تھی، بلقیس ہر قدم پر لڑتی جا رہی تھی۔
بلقیس کی جیت ہندوستان کی ان خواتین اور مردوں کو شرمندہ کرتی ہے جو اس معاملے پر اس لیے خاموش رہے کیونکہ انہیں وزیر اعظم مودی سے سوال کرنا پڑتا، انہیں بی جے پی سے سوال کرنا پڑتا۔
آپ اپنی اس شکست کو رام مندر کی آڑ میں نہیں چھپا سکتے۔ وہاں بھی جواب دینا پڑے گا۔ جب آپ نے کسی قسم کی ‘مریادا’ ہی بچنے نہیں دی تو پھر رام کی ‘مریادا’ کہاں سے کھڑی کر پائیں گے۔ ورنہ رام کے نام پر اتنی طاقت تو آ ہی جاتی کہ غلط کے خلاف بولتے۔ ناانصافی کے خلاف بولتے اور انصاف کا مطالبہ کرتے۔ گجرات پرڈاکیومنٹری کیا بنی، بی بی سی پر چھاپے پڑ گئے، پابندی لگ گئی۔ بلقیس بانو کے اس فیصلے سے آج گجرات فسادات کے دور کی خبریں پھر سے لوٹ رہی ہیں۔ ملک کے لوگ ہر غلط پر خاموش رہے کیونکہ انہیں رام مندر کا خواب دکھایا جا رہا تھا، ایک بار پھر سے اسے موقع ملا ہے غلط کو غلط کہنے کا۔
ہم نے یہ مثال کیوں دی؟ دینا بہت ضروری تھا۔ ان کی رہائی کی مخالفت کرنے والے کچھ لوگ بچے ہوئے تھے۔ سسٹم کے اندر کوئی تھا جس کا ایمان کانپ رہا تھا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ مارچ 2021 میں ممبئی کی ٹرائل کورٹ کے سول جج نے کہا تھا کہ ان لوگوں کی بلقیس یا مارے گئے لوگوں سے کوئی دشمنی نہیں تھی، کوئی رشتہ نہیں تھا۔ انہیں صرف اس لیے قتل کیا گیا اور ریپ کا نشانہ بنایا گیا کہ وہ ایک خاص مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔ نابالغوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ یہ انسانیت کے بدترین جرائم میں سےہے۔ یہ معاشرے کی روح کو متاثر کرتے ہیں۔
اس لیے ہم نے رام یاترا کی تصویریں دکھائیں آپ سے پوچھنے کے لیے کہ رام کی تصویر کا استعمال خود کو اخلاقی طور پر مضبوط بنانے کے لیے ہے یا بس پر بنی وزیر اعظم کی ایسی بہت سی غیر اخلاقی خاموشیوں کو چھپانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ اگر ان قاتلوں کی رہائی کو چیلنج نہ کیا جاتا تو بہت سی سچائیاں سامنے نہ آتیں۔ جیسے سماعت کے دوران ہی معلوم ہوا کہ سی بی آئی بھی رہائی کے لیے تیار نہیں تھی۔ ممبئی کے ٹرائل جج نے بھی اس سے اتفاق نہیں کیا تھا۔ سماعت کی وجہ سے خود گجرات حکومت کو سپریم کورٹ کو یہ سب بتانا پڑا۔سی بی آئی افسر نے گودھرا سب جیل میں سی بی آئی کی اسپیشل کرائم برانچ کے سپرنٹنڈنٹ کو مارچ 2021 میں خط لکھ کر کہا تھا کہ مجرموں کے جرائم انتہائی سنگین اور بدترین ہیں۔ اس لیے انہیں جلد رہائی نہیں ملنی چاہیے اور نہ ہی انہیں کوئی رعایت دی جانی چاہیے۔ ممبئی کے سول جج نے کہا تھا کہ چونکہ سماعت مہاراشٹر میں ہوئی ہے، اس لیے مہاراشٹر حکومت کے رہائی کے قوانین لاگو ہونے چاہیے۔ لیکن 13 مئی 2022 کو سپریم کورٹ نے گیارہ ملزمین میں سے ایک کی درخواست پر اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ یہ مقدمہ گجرات حکومت کے پاس جانا چاہیے کیونکہ جرم وہاں ہوا تھا۔
اس طرح گجرات حکومت نے 15 اگست کو حکم جاری کیا اور قتل اورریپ کے 11 قصورواروں کو وقت سے پہلے رہا کر دیا۔ اس کا مطلب کوئی تھا،کسی کا ہاتھ رہا ہوگاجو ان کی رہائی کا متمنی رہا ہوگا۔
گجرات حکومت نے عدالت کو بتایا تھا کہ مرکزی وزارت داخلہ کی رضامندی سے یہ رہائی ہوئی تھی۔ ریاستی حکومت نے کہا تھا کہ مرکز کو بھیجنے کے دو ہفتے کے اندر ہی ان کی رہائی کے مطالبہ کو قبول کر لیا گیا تھا۔ تو سوال یہ ہے کہ جب ان کی رہائی ہوئی تھی اس وقت حکومت نے یہ بات سامنے کیوں نہیں رکھی تھی؟
رہائی کے وقت یہ کہا جا رہا تھا کہ گودھرا کمیٹی نے منظوری دی، کیونکہ گجرات حکومت کی رہائی کے ضابطے کے تحت اس کی اور دیگر محکموں کی رضامندی ضروری تھی۔ لیکن رہائی کے دو ماہ بعد عدالت کے سامنے رکھے گئے دستاویزوں سے معلوم ہوا کہ وزارت داخلہ نے دو ہفتے کے اندر اپنی رضامندی دے دی تھی۔ گجرات حکومت نے سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ ملزمین 14 سال یا اس سے زیادہ کی سزا کاٹ چکے ہیں، ان کا طرزعمل اچھا ہے اور مرکز نے بھی رضامندی ظاہر کی ہے، اس لیے انہیں رہا کیا گیا۔
جب یہ خبر آئی تو بلقیس پر گویا بجلی گر گئی۔ بلقیس نے کہا تھا کہ مجھے اکیلا چھوڑ دیں، میں اپنی مرحومہ بیٹی صالحہ کے لیے دعا پڑھ رہی ہوں۔ بلقیس کے شوہر یعقوب رسول نے خبر آنے کے بعد کہا تھا کہ خبر ملنے کے بعد کچھ دیر تک بلقیس کو یقین نہیں آیا، اس کے بعد وہ رو پڑیں اور پھر خوفزدہ ہو کر خاموش ہوگئیں۔ ہم اس بارے میں نہیں جانتے۔ وہ صدمے میں ہیں، سلامتی کی دعا کرتے ہیں۔
گجرات میں تشدد کے دوران بلقیس اپنے خاندان کے ساتھ اپنے گاؤں رندھیک پور سے بھاگ گئیں۔ وہ چھپرواڑ ضلع میں پناہ لے رہی تھیں جب 20-30 لوگوں کے ایک گروپ نے ان پر حملہ کیا۔ ان میں سے گیارہ وہ تھے جن پر 3 مارچ 2002 کو 21 سالہ بلقیس بانو کے ساتھ ریپ کرنے کا الزام لگا۔ بلقیس اس وقت پانچ ماہ کی حاملہ تھی۔ ان کے بچہ کو دنیا میں آنے سے پہلے ہی مار دیا گیا، اور ان کی تین سالہ بیٹی سمیت ان کے خاندان کے سات افراد کو قتل کر دیا گیا۔ 2008 میں مقدمے کی سماعت مہاراشٹر منتقل ہونے کے بعد، ایک سیشن کورٹ نے تمام ملزمین کو دفعہ 302 اور 376 کے تحت عمر قید کی سزا سنائی۔ مئی 2017 میں بامبے ہائی کورٹ کی ایک بنچ نے سزا کو برقرار رکھا۔ 2019 میں سپریم کورٹ نے 50 لاکھ روپے کے معاوضے کا آرڈر دیا۔
اپریل 2023 میں جسٹس ناگ رتنا اور جسٹس کے ایم جوزف کی بنچ سماعت کر رہی تھی۔ انہوں نے حکم دیا کہ مرکزی اور گجرات حکومتیں آئندہ سماعت کے لیے مجرموں کی رہائی کی فائل تیار رکھیں گی۔ مرکزی اور گجرات حکومتوں نے کہا کہ وہ عدالت کے فیصلے پر ریویو فائل کریں گے، تب جسٹس جوزف بھی حیران ہوئے تھے۔ جسٹس جوزف نے کہا تھا کہ ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ کیا ریاستی حکومت نے آرڈر جاری کرتے ہوئےدرست سوالات پوچھے تھے اور صوابدید کا استعمال کیا تھا۔ حکومت کی جانب سے وکیل نے کہا کہ صوابدید کا استعمال کیا گیا ہے تو عدالت نے کہا کہ آپ فائل دکھائیں، ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ کیا حکومت نے قانون کے دائرے میں رہ کر رہائی کا حکم دیا اور کیا یہ مستند طریقے سے کیا گیا۔ اگر آپ وجوہات نہیں بتاتے تو ہمیں مجبوراً اپنے نتیجے پر آنا ہوگا۔
مذہب کی آڑ لے کر سیاست داں اپنے آپ کو اوتار اعلان کروا دیں، لیکن جس آئینی منصب پر وزیر اعظم نریندر مودی بیٹھے ہیں اور ان کی پارٹی بی جے پی کی حکومت ہے،اس سے جو جرم ہوا ہے، اس سے بچنے کے لیے مذہب کے کس واقعہ کا، کس صحیفے کا سہارا لیا جائے گا،کیا والمیکی یا تلسی کی رامائن میں ایسا کوئی آپ کوواقعہ ملتا ہے جہاں حکومت کے اعلیٰ عہدے پر بیٹھے شخص کو ایسے واقعے پر کوئی افسوس نہ ہوتا ہو، جو کبھی کارروائی نہ کرتا ہو، جو کبھی غلط کو غلط نہ بولتا ہو؟
راجستھان کے شری کرن پور میں ضمنی انتخابات ہو رہے تھے، اپنے امیدوار کو ہی وزیر بنا دیا۔ ضابطہ اخلاق نافذ تھا، لیکن کوئی پرواہ نہیں کی گئی، وہ جانتے ہیں کہ رام مندر کے جشن میں غرق ہندوستان میں اب غلط نظر ہی نہیں آئے گا، جتنا غلط کرنا ہے اس سے زیادہ غلط کر لو۔ نتیجہ کیا نکلا، شری کرن پور کے لوگوں نے بی جے پی امیدوار کو شکست دی۔ جسے جیتنے سے پہلے وزیر بنایا گیا تھا۔ آج بھی وزیراعظم کی جانب سے کوئی جواب نہیں آیا۔ وہ ایودھیا پر ٹوئٹ کر رہے ہیں، انہیں یہ ناانصافی نظر نہیں آ رہی، چاروں طرف ‘منگل گان’ نظر آ رہا ہے۔
کیا یہ رام کی ‘مریادا ‘کا ہندوستان ہے، آئینی مریادا کا ہندوستان ہے یا مودی کی مریادا کا ہندوستان ہے جس کے نیچے ساری مریادائیں پامال ہورہی ہیں۔ سوال آپ کو کرنا ہے اس سے پہلے آپ کو طے کرنا ہے کہ سوال کرنا کس سے ہے؟ مودی سے یا رام سے؟ مودی سرکارجس سپریم کورٹ سے کیس در کیس بچتی رہی، ایک ایسے فیصلے کی زد میں آ گئی ہے جو مودی، ان کی حکومت اور بی جے پی کی سیاست اور نظریہ سب سے پردہ ہٹا دیتا ہے۔
امید ہے آپ کو کچھ تو دکھا ہوگا کہ رام نہیں آرہے ہیں، رام کے نام پر کوئی اور آرہے ہیں۔
افسوس کہ بلقیس بانو نے آج ایک بار پھر سے پردہ ہٹایا ہے۔
(یہ مضمون رویش کمار کے بلقیس بانو کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر بنائے گئے ویڈیو پروگرام کا ترمیم شدہ اسکرپٹ ہے۔)
Categories: فکر و نظر