خبریں

بلقیس بانو کیس: سپریم کورٹ نے 11 مجرموں کی قبل از وقت رہائی کے فیصلے کو رد کیا، جیل بھیجنے کی ہدایت

بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ اور ان کے خاندان کے قتل کے 11 مجرموں کی سزا معافی اور رہائی کو رد کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ گجرات حکومت کے پاس  مجرموں کو قبل از وقت رہا کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ عدالت نےقصورواروں کو دو ہفتے میں واپس  جیل میں سرینڈر کرنے کو کہا ہے۔

گودھرا جیل سے باہر نکلتے مجرم اور بلقیس بانو ۔ (تصویر: ٹوئٹر/ شوم بسو)

گودھرا جیل سے باہر نکلتے مجرم اور بلقیس بانو ۔ (تصویر: ٹوئٹر/ شوم بسو)

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے سوموار کو بلقیس بانو کے ساتھ  گینگ ریپ  اور ان کے خاندان کے قتل کے 11 مجرموں کی قبل از وقت رہائی کو خارج  کرتے ہوئے کہا کہ گجرات حکومت کے پاس انہیں قبل از وقت رہا کرنے کا اختیار نہیں ہے۔

رپورٹ کے مطابق، سوموار کو ان کی رہائی کے فیصلے کو رد کرتے ہوئے عدالت نے مجرموں کو دو ہفتے کے اندر واپس جیل میں سرینڈر کرنے کو کہا ہے۔

واضح ہو کہ 2002 کے گجرات فسادات کے دوران حاملہ بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ  اور ان کی تین سالہ بیٹی سمیت ان کے خاندان کے کم از کم 14 افراد کے قتل کےلیے ان سب کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

بتادیں کہ 15 اگست 2022 کو گجرات کی بی جے پی حکومت کی معافی کی پالیسی کے تحت معافی ملنے کے بعد تمام 11 مجرموں کو 16 اگست کو گودھرا کی سب جیل سے رہا کر دیا گیا تھا ۔ سوشل میڈیا پر سامنے آنے والے ویڈیو میں جیل سے باہر آنے کے بعد ریپ اور قتل کے ان مجرموں کا  استقبال مٹھائی کھلا کر اور ہار پہنا کر کیا گیا تھا  ۔

اس کو لے کر  کارکنوں نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا تھا۔اس کے علاوہ سینکڑوں خواتین کارکنوں سمیت 6000 سے زائد افراد نے سپریم کورٹ سے مجرموں کی سزا کی معافی کے فیصلے کو رد کرنے کی اپیل کی تھی۔

گزشتہ سال اکتوبر میں سپریم کورٹ نے گجرات حکومت کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا ۔

لائیو لاء کے مطابق، جسٹس بی وی ناگ رتنا اور اجل بھوئیاں کی ایک ڈویژن بنچ نے کہا کہ گجرات حکومت نے ‘مجرموں کے ساتھ ملی بھگت سے کام کیا’ اور مزید کہا کہ ‘یہی خدشہ تھا جس کی وجہ سے اس عدالت کو پہلے مقدمے کو ریاست سے باہر مہاراشٹر منتقل کرنا پڑا تھا۔

عدالت نے مزید کہا کہ اگر مجرم ‘اپنی سزا کے نتائج سے بچ سکتے ہیں تو معاشرے میں امن وامان محض ایک خیال  بن کر رہ جائے گا’۔

عدالت نے یہ بھی کہا، ‘ہم سمجھتے ہیں کہ جواب دہندگان (مجرموں) کو آزادی سے محروم کرنا مناسب ہے۔ ایک بارقصوروار ٹھہرائے جانے اور جیل بھیجنے کے بعد انہوں نے اپنی  آزادی کا حق کھو دیا ہے۔ نیز اگر وہ دوبارہ سزامعافی چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ وہ جیل میں رہیں۔

رہائی  کا فیصلہ قانونی طور پر غلط

لائیو لاء کے مطابق، ایک اور بنیاد جس کی رو سے گجرات حکومت کی سزا معافی کے فیصلے کوغیر قانونی پایا گیا، وہ یہ تھا کہ گجرات حکومت نے اپنی مرضی سے 11 مجرموں کی قبل از وقت رہائی کی ہدایت دے کر ‘اختیار کا غلط استعمال’ کیا۔ یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ عدالت عظمیٰ نے مئی 2022 کے ایک فیصلے میں گجرات حکومت کو  اس کی 1992 کی سزا معافی  کی  پالیسی کے تحت مجرموں میں سے ایک – رادھے شیام شاہ کی سزا معافی  کی درخواست پر غور کرنے کی ہدایت دی تھی، بنچ نے سوموار کو کہا کہ رادھے شیام نے عدالت میں دھوکہ دہی کا ارتکاب کرکے یہ فیصلہ حاصل کیا تھا، جہاں انہوں نے حقائق کو غلط طریقے سے پیش کیا تھا یا اسے دبایا تھا۔

بنچ نے کہا کہ سپریم کورٹ کا 13 مئی 2022 کا فیصلہ ‘غلط’ ہے کیونکہ یہ ‘عدالت میں دھوکہ دہی سے’ حاصل کیا گیا تھا۔ اس نے یہ بھی کہا کہ فیصلے کو آگے بڑھانے کے لیے کیے گئے تمام اقدامات بھی غلط اور قانون کی نظر میں ناجائز ہیں۔

بلقیس خود ان متعدد درخواست گزاروں میں سے ایک ہیں، جنہوں نے گجرات حکومت کی طرف سے مجرموں کی سزا میں معافی کو چیلنج کیا تھا۔ عدالت نے سوموار کو کہا کہ چونکہ بانو کی درخواست قابل سماعت ہے، اس لیے یہ جواب دینے کی ضرورت نہیں ہے کہ کیا دیگر پی آئی ایل عرضیاں بھی قابل سماعت ہیں۔

یہ فیصلہ جسٹس ناگ رتنا نے لکھا تھا، جنہوں نے 8 جنوری کو اپنا فیصلہ پڑھتے ہوئے کہا تھاکہ اس کیس سے چار نکات پیدا ہوئے ہیں؛

کیا آرٹیکل 32 کے تحت متاثرہ کی طرف سے دائر پٹیشن قابل سماعت ہے،

کیا سزا معافی کے فیصلے  پر سوال اٹھانے والی پی آئی ایل کی عرضیاں برقرار رکھنے کے قابل ہیں،

کیا گجرات حکومت معافی کا فیصلہ کرنے کی اہل تھی، اور

کیا معافی کے احکامات قانون کے مطابق ہیں۔

گجرات حکومت کو نہیں تھاسزا معافی کا اختیار

بنچ نے یہ بھی کہا کہ جس ریاست میں مجرم کو سزا سنائی گئی ہے وہ معافی دینے کے لیے مناسب حکومت ہے، نہ کہ اس ریاست کی حکومت جہاں جرم ہوا تھا۔  معلوم ہو کہ بلقیس کے اس معاملے کو لے کر قومی انسانی حقوق کمیشن پہنچنے کے بعد سپریم کورٹ نے سی بی آئی انکوائری کے حکم  دیے تھے۔ کیس کی سماعت احمد آباد میں شروع ہوئی تھی، لیکن بلقیس نے خدشہ ظاہر کیا تھاکہ گواہوں کو نقصان پہنچایا جا سکتا ہے، ساتھ ہی سی بی آئی کے جمع کردہ شواہد کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جا سکتی ہے، جس کے بعد سپریم کورٹ نے اگست 2004 میں کیس کو ممبئی منتقل کر دیا۔ اس کیس کے ملزمین کو 2004 میں ہی گرفتار کیا گیا تھا۔

اس کے بارے میں جسٹس ناگ رتنا نے کہا کہ گجرات حکومت نے مہاراشٹر حکومت کے اختیار کو غصب کرتے ہوئے طاقت کا غلط استعمال کیا۔ سزا کی معافی کے لیے کسی بھی درخواست پر غور کرنے کے لیے مہاراشٹر حکومت موزوں ہوتی۔

کیا تھا معاملہ

غورطلب  ہے کہ 27 فروری 2002 کو سابرمتی ایکسپریس کے کوچ میں تشدد کے بعد 59 کار سیوکوں کی موت ہو گئی تھی۔ اس کے بعد ہونے والے تشدد کے دوران بلقیس بانو، جو اس وقت پانچ ماہ کی حاملہ تھیں، اپنی بچی اور دیگر 15 افراد کے ساتھ اپنے گاؤں سے بھاگ گئی تھیں۔

 تین  مارچ 2002 کو داہود ضلع کے لمکھیڑا تعلقہ کے رندھیک پور گاؤں میں جہاں وہ سب چھپے تھے ،وہاں 20-30 لوگوں کے ہجوم نے بلقیس کے خاندان پر درانتی، تلوار اور لاٹھیوں سے لیس ہو کرحملہ کیا تھا۔ یہاں بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ کیا گیا، جبکہ ان کی بچی سمیت خاندان کے سات افراد کو قتل کر دیا گیا تھا۔

بلقیس کے اس معاملے کو لے کر قومی انسانی حقوق کمیشن پہنچنے کے بعد سپریم کورٹ نے سی بی آئی انکوائری کا حکم دیا۔ کیس کے ملزمان کو 2004 میں گرفتار کیا گیا تھا۔

بتادیں کہ 21 جنوری 2008 کو سی بی آئی کی ایک خصوصی عدالت نے بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ اور ان کے خاندان کے سات افراد کو قتل کرنے کا مجرم قرار دیتے ہوئے 11 ملزمین کوعمر قید کی سزا سنائی تھی۔ انہیں تعزیرات ہند کے تحت ایک حاملہ خاتون کی عصمت دری، قتل  کی سازش کرنے ، قتل اور غیر قانونی طور پر اکٹھا ہونے کا قصوروار ٹھہرایا تھا۔

خصوصی عدالت نے دیگر سات ملزمین کو ثبوت کے فقدان میں بری کر دیا۔ وہیں مقدمے کی سماعت کے دوران ایک ملزم کی موت ہو گئی تھی۔ اس کے بعد 2018 میں، بمبئی ہائی کورٹ نےملزمین کی سزا کو برقرار رکھتے ہوئے سات لوگوں کو بری کرنے کے فیصلے کو پلٹ دیا تھا۔

اپریل 2019 میں سپریم کورٹ نے گجرات حکومت کو بلقیس بانو کو 50 لاکھ روپے معاوضہ، سرکاری نوکری اور رہائش فراہم کرنے کا حکم دیا تھا۔

قابل ذکر ہے کہ 15 اگست 2022 کو مجرموں کی سزا معافی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔ جب سپریم کورٹ نے اس سلسلے میں گجرات حکومت سے جواب طلب کیا تو ریاستی حکومت نے کہا کہ مجرموں کو  مرکز کی منظوری سے رہا کیا گیا  ۔ گجرات حکومت نے کہا تھا کہ اس فیصلے کو مرکزی وزارت داخلہ نے منظور کیا تھا، لیکن سی بی آئی، اسپیشل کرائم برانچ، ممبئی اور سی بی آئی عدالت نے سزا معافی کی مخالفت کی تھی۔

اپنے حلف نامے میں  حکومت نے کہا تھا کہ ‘ان  (مجرموں) کا برتاؤ اچھا پایا گیا تھا’ اور انہیں اس بنیاد پر رہا کیا گیا کہ وہ  14 سال جیل میں گزار چکے ہیں۔ تاہم، ‘اچھے برتاؤ’ کی وجہ سے رہا ہونے والے مجرموں پرپیرول کے دوران بہت سے الزامات لگے تھے۔

ایک  میڈیا رپورٹ میں بتایا  گیا تھاکہ 11 مجرموں میں سے کچھ کے خلاف پیرول پر باہر رہنے کے دوران ‘عورت کے وقارکو مجروح کرنے’ کے الزام میں ایک ایف آئی آر درج کی گئی تھی اور پولیس کو دو شکایتیں بھی موصول ہوئی تھیں۔ ان پر گواہوں کو دھمکیاں دینے کا بھی الزام لگاتھا۔

بی جے پی لیڈروں نے کی تھی سزا معافی کی حمایت

گودھرا سے بی جے پی ایم ایل اے چندر سنگھ راؤل جی  گجرات حکومت کی اس کمیٹی کے ان چار ارکان میں سے ایک تھے، جس نے 11 مجرموں کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا تھا  ۔

راؤل جی نے اس فیصلے کا انتہائی متنازعہ تبصرہ کرتے ہوئے دفاع کیا تھا۔ ایک انٹرویو کے دوران انہوں نے کہا تھاکہ 2002 کے گجرات فسادات کے اس معاملے میں قصورواروں میں شامل کچھ لوگ’برہمن’ ہیں جن کے اچھے ‘سنسکار’ ہیں اور یہ ممکن ہے کہ ان کو پھنسایا گیا ہو۔

اس کے بعد مرکزی وزیر پرہلاد جوشی نے  بھی مجرموں کے دفاع میں ایک بیان میں کہا تھاکہ انہیں اچھے برتاؤ کی وجہ سے رہا کیا گیا تھا۔