خبریں

ہندوستانی مزدوروں کو سیکورٹی کے بغیر اسرائیل بھیجے جانے پر ٹریڈ یونینوں نے تشویش کا اظہار کیا

گزشتہ دسمبر میں اتر پردیش اور ہریانہ کی سرکارنے اسرائیل میں ملازمت کے لیے تعمیراتی کارکنوں سے درخواستیں طلب کی تھیں۔ حکومت کا منصوبہ تنازعات سے متاثرہ ملک میں کم از کم 10000 مزدوروں کو بھیجنے کا ہے۔ ٹریڈ یونینوں کی دلیل ہے کہ ہندوستانی حکومت بیرون ملک تنازعات والے علاقوں میں کام کرنے جانے والے ہندوستانی مزدوروں کے لیے طے شدہ عمومی حفاظتی معیارات کو نظر انداز کر رہی ہے۔

 (علامتی تصویر بہ شکریہ: Pixabay)

(علامتی تصویر بہ شکریہ: Pixabay)

نئی دہلی: مزدور تنظیموں اور ٹریڈ یونینوں نے اسرائیل میں ملازمت کے لیے ہندوستانی مزدوروں کی بھرتی پر تشویش کا اظہار کیا ہے، کیونکہ اتر پردیش اور ہریانہ کے حکام ان آسامیوں کے لیے درخواست دہندگان کی اسکریننگ شروع کرنے جا رہے ہیں۔

دی ہندو کے مطابق ، کارکنوں کا استدلال ہے کہ ہندوستانی حکومت بیرون ملک تنازعات والے علاقوں میں کام کرنے جانے والے ہندوستانی مزدوروں کے لیے طے شدہ عمومی حفاظتی معیارات کو نظر انداز کر رہی ہے۔

ان مزدوروں کو وزارت خارجہ کے ذریعے چلائے جانے والے ‘ای مائیگریٹ’ پورٹل پر خود کو رجسٹر کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہوگی۔ اس میں کہا گیا ہے کہ بہت سی سرکاری وزارتوں اور ایجنسیوں نے مزدوروں کی فلاح و بہبود اور حفاظت سے متعلق کسی بھی  ذمہ داری سے انکار کر دیا ہے۔

دسمبر 2023 میں اتر پردیش اور ہریانہ کی سرکار نے اسرائیل میں ملازمت کے لیے تعمیراتی کارکنوں سےدرخواستیں طلب کی تھیں۔ حکومت تنازعات سے متاثرہ ملک میں کم از کم 10000 کارکنوں کو بھیجنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ کارکنوں کا انتخاب نیشنل اسکل ڈیولپمنٹ کارپوریشن (این ایس ڈی سی) کرے گا۔

یہ ملازمتیں تقریباً 1.37 لاکھ روپے ماہانہ کی پرکشش تنخواہوں کا وعدہ کر رہی ہیں، لیکن کانٹریکٹ یا کانٹریکٹ سیکورٹی سے متعلق تفصیلات واضح نہیں کی گئی ہیں۔ رہائش، خوراک اور میڈیکل انشورنس تنخواہ سے کاٹی جائے گی۔

اس کے علاوہ، اخبار نے دستاویزوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کارکنوں سے اپنے ٹکٹوں کی ادائیگی خود کرنے کی توقع کی گئی ہے۔

کارکنوں نے اس اقدام کو ‘غیر انسانی’ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ اور ویسٹ بینک میں مسلسل اسرائیلی کریک ڈاؤن کے باوجود ہندوستانی تعمیراتی کارکنوں، نرسوں اور دیکھ بھال کرنے والوں کی بھرتی میں تیزی لانے کا حکومتی فیصلہ انہیں نقصان میں ڈال دے گا۔

آل انڈیا ٹریڈ یونین کانگریس (اے آئی ٹی یو سی) کی جنرل سکریٹری امرجیت کور نے کہا، ‘یہ قدم ہندوستانی اخلاقیات کے خلاف ہے۔ ہم اسرائیل میں جنگ بندی کے حق میں ہیں۔ ہمیں مزدوروں کی حفاظت کی فکر ہے۔’

انہوں نے مزید کہا کہ ٹریڈ یونین اب عدالتوں سے رجوع کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں۔

دی ہندو نے بتایا کہ ایسا لگتا ہے کہ مرکزی حکومت اس معاملے پر اپنی ذمہ داری سے بچ رہی ہے۔ اس میں کہا گیا، ‘اگرچہ مختلف سرکاری ایجنسیوں نے باضابطہ طور پر خود کو این ایس ڈی سی انٹرنیشنل کے نام سے جاری کردہ دستاویزوں سے دور کر لیا ہے، لیکن سرکاری ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ بھرتی کا عمل اس ہفتے کئی شہروں میں انٹرویوز اور اسکریننگ کے ساتھ شروع ہو جائے گا۔’

جب پوچھا گیا تو این ایس ڈی سی کے چیف ایگزیکٹو وید منی تیواری نے کہا کہ اشتہارات ریاستی حکومتوں نے جاری کیے ہیں نہ کہ این ایس ڈی سی نے۔

تیواری نے اخبار کو بتایا، ‘ہمارے پاس اسرائیل یا آجروں کے لیے کوئی سرکاری حکم نہیں ہے۔ ہم بھرتی کرنے والی کمپنی نہیں ہیں۔ کچھ ریاستی حکومتوں نے اسرائیل میں ملازمتوں کے لیے درخواستیں طلب کی ہیں اور ہمارا کام کارکنوں کو ہنر کی تربیت فراہم کرنا ہے۔’

مرکزی وزارت محنت نے ان منصوبوں پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا، ایسا ہی ہریانہ کے وزیر محنت انوپ دھانک نے بھی کیا۔ ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا، ‘مزدوروں کی اس طرح کی نقل مکانی کی نگرانی صرف وزارت خارجہ ہی کرتی ہے۔’

تاہم، وزارت خارجہ نے دی ہندو کی طرف سے بھیجے گئے سوالات کی تفصیلی فہرست کا جواب دینے سے بھی انکار کر دیا، جس میں پوچھا گیا تھاکہ اسرائیلی لیبر ایجنسی – پاپولیشن اینڈ امیگریشن اتھارٹی، جسے پی آئی بی اے کہا جاتا ہے – سے یقین دہانی کی درخواست کیسے کی جا رہی ہے۔

عہدیداروں نے کہا کہ بھرتی ایک ‘بی2بی’ یا بزنس ٹو بزنس کے طور پرکی جا رہی ہے، جس میں اس بارے میں کوئی وضاحت نہیں ہے کہ کارکنوں کے ساتھ مستقبل میں ہونے والے کسی بھی معاملے کا اصل میں ذمہ دار کون ہوگا۔

فی الحال، تمام کارکنان جو تنازعات والے علاقوں یا ایسی جگہوں پر منتقل ہو رہے ہیں جہاں مزدوروں کو مناسب تحفظ دستیاب نہیں ہے، انہیں وزارت خارجہ کے ‘ای-مائیگریٹ’ پورٹل پر رجسٹر کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم، اسرائیل تنازعات والے علاقوں کے لیے ‘ای-مائیگریٹ’ عمل کا حصہ نہیں ہے۔

رپورٹ کے مطابق، اسرائیلی امیگریشن ایجنسی پی آئی بی اے نے کارکنوں کی سلامتی سے متعلق مخصوص سوالات پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا تاہم ذرائع نے بتایا کہ وہ ہندوستانی حکومت کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کی بنیاد پر آگے بڑھیں گے۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔