خبریں

روہنگیا کے خلاف آن لائن نفرت کو نظر انداز کرنے پر فیس بک کے خلاف عدالت پہنچے پناہ گزیں

نسلی تشدد کی وجہ سے میانمار سے بھاگنے پر مجبور ہونے والے روہنگیا پناہ گزینوں کی جانب سے دہلی ہائی کورٹ میں دائر کی گئی عرضی میں کہا گیا ہے کہ فیس بک اپنے پلیٹ فارم پر ان کے خلاف ہیٹ اسپیچ کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام رہا ہے، جس کی وجہ سے ان کے ساتھ ہر دم تشدد ہونے کا خطرہ لاحق ہے۔

روہنگیا پناہ گزین کیمپ۔ (تصویر: آستھا سویہ ساچی)

روہنگیا پناہ گزین کیمپ۔ (تصویر: آستھا سویہ ساچی)

نئی دہلی: 2019 میں ٹکنالوجی اور انسانی حقوق کے شعبے میں کام کرنے والے ایک ایڈووکیسی گروپ ایکویلٹی  لیبس نے 20 بین الاقوامی محققین کی ایک ٹیم کے ساتھ منظم طریقے سے 1000 فیس بک پوسٹ ریکارڈ کیے جو اس پلیٹ فارم کے کمیونٹی اسٹینڈرڈ کی خلاف ورزی کرتے  پائے گئے۔

ان کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ گروپ کی طرف سے رپورٹ کیے جانے کے بعد ہٹا دی گئی تمام پوسٹ میں سے 40 فیصد سے زیادہ  90 دن کی اوسط مدت کے بعد بحال کی گئی تھیں۔ جن پوسٹ کو بحال کیا گیا ان میں سے زیادہ تر پوسٹ ‘اسلامو فوبک نوعیت’ (اسلام کے خلاف)  کے تھے۔

رپورٹ 2018 کے دوران فیس بک پر ہیٹ اسپیچ پر ایکویلٹی لیبس کے موقف کا خلاصہ پیش کرتی ہے  اور ان تشویشناک اورحقیقی خطرات کو اجاگر کرتی ہے جو فیس بک کے مواد سے ہندوستان اور بیرون ملک مقیم تقریباً 300 ملین ہندوستانی نسلی، مذہبی، صنفی اور ہم جنس پرست اقلیتوں کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں۔

نفرت سے لڑنے کے اپنے تجربات اور ایکویلٹی لیبس کی رپورٹ کے مدنظر روہنگیا پناہ گزینوں نے ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 226، ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 21 کا استعمال کرتے ہوئے کے تحت مفاد عامہ کی عرضی (پی آئی ایل) دائر کی ہے۔ عرضی میں زندگی کے حق کے تحفظ کا مطالبہ کیا گیا ہے کیونکہ ان کی برادری کے افراد کو دہلی اور پورے ملک میں تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جو بعض اوقات جسمانی نقصان کے خطرات تک بڑھ جاتا ہے۔ ان کے مطابق، یہ فیس بک پر ان کی نسل اور مذہب کی بنیاد پر انہیں نشانہ بنا کر کیے گئے  پرتشدد نفرت انگیز تبصروں کے پھیلاؤ کا نتیجہ ہوتاہے۔

درخواست گزار وہ روہنگیا پناہ گزین ہیں جو نسلی تشدد کی وجہ سے میانمار سے بھاگنے پر مجبور ہوئے تھے اور گزشتہ 2 سے 5 سالوں سے نئی دہلی میں رہ رہے ہیں اور انہیں یو این ایچ سی آر، اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی جو درخواست گزاروں کی کمیونٹی کوایک مظلوم کمیونٹی کے طور پر تسلیم کرتی ہے، کی جانب سے شناختی کارڈ جاری کیے گئے ہیں۔ روہنگیا لوگ بنیادی طور پر میانمار کے صوبہ رخائن کے مسلم اقلیت ہیں۔

ان کی عرضی میں استدلال کیا گیا ہے کہ انہیں نشانہ بنانے والی ان پوسٹ کا ماخذ ہندوستان میں ہے، اور فیس بک کے ذریعے اس کے پلیٹ فارم پر ہیٹ اسپیچ کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام رہنے  سے عرضی گزارمتاثر ہو رہے ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ یو این ایچ آر سی نے بتایا ہے کہ ہندوستان 2023 تک میانمار کے تقریباً 74600 روہنگیا پناہ گزینوں کو پناہ دے رہا تھا، جن میں سے لگ بھگ 54100 سے زیادہ فروری 2021 میں تختہ پلٹ کے بعد ہندوستان آئے تھے۔

ہندوستان میں روہنگیا پناہ گزینوں کی موجودگی ایک بڑا سیاسی مسئلہ ہے اور انہیں اکثرہندوستان  کے لیے خطرہ بتاتے ہوئے فیس بک پر نفرت انگیز مواد پوسٹ کرکے نشانہ بنایا جاتا ہے۔ انہیں اکثر ‘دہشت گرد’، ‘گھس پیٹھیا’ بلایا جاتا ہے اور ہندوستان پہنچنے روہنگیا کی تعداد کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔

ہندوستان میں فیس بک پر ہیٹ اسپیچ  کے حوالے سے 2019 میں  ایک ریسرچ میں پایا گیا ہے کہ 6 فیصد اسلامو فوبک پوسٹ خصوصی طور پر روہنگیا مخالف تھیں – حالانکہ اس وقت روہنگیا ہندوستان کی مسلم آبادی کا صرف 0.02 فیصد تھے۔

عرضی میں درج  کیا گیا ہے کہ کیسے ہندوستان میں فیس بک کے کئی صارف اکثر روہنگیا، جو زیادہ تر مسلمان ہیں، کو نشانہ بنانے کے لیے ‘غیر قانونی تارکین وطن’، ‘ملک کے دشمن’ اور ‘بنگلہ دیشی’ جیسی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں۔ کچھ صارفین نے ان ‘ملک دشمنوں’ کے گھروں کو گرانے کے لیے ‘بلڈوزر’ کے استعمال کی بھی وکالت کی۔ فیس بک پر کچھ ہندوستانی صارفین روہنگیا کے بارے میں ایسی غلط معلومات بھی پھیلاتے ہیں کہ وہ اغوا اور انسانی جسم کے اعضاء کو فروخت کرنے کا ریکٹ چلاتے ہیں۔

عرضی دائر کرنے والے وکیل کی مدد کرنے والی وکیل ایوا بوزو کا خیال ہے کہ اس پٹیشن کو دائر کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ فیس بک پر روہنگیا کے خلاف پھیلائے جانے والے نقصاندہ مواد کو بار بار  دیکھا جا سکتا ہے۔ بوزو نے دی وائر کو بتایا، یہ انتخابی سال ہے اور اس بات پر غور کرتے ہوئے کہ فیس بک اس طریقے سے کام کرتا ہے جو اصل میں سیاسی تقسیم کو نمایاں کرتا ہے، اس لیے ابھی پٹیشن دائر کرنا ہندوستان میں روہنگیا کے بارے میں پھیلائے جا رہے نقصاندہ مواد کی صورت حال کو روکنے کے لیے احتیاطی کارروائی کی ایک صورت ہے، تاکہ یہ ان کے خلاف حقیقی تشدد کے صورتحال تک نہ پہنچ سکے۔’

بتادیں کہ 2017 میں بوزو روہنگیا کے خلاف تشدد میں فیس بک کے رول کے لیے اس کے خلاف  آئرلینڈ میں ایک مقدمہ چلانے کا بھی حصہ تھیں۔

بوزو نے یہ بھی کہا کہ ہندوستان جیسے ممالک – جنہوں نے پناہ گزینوں کے کنونشن پر دستخط نہیں کیے ہیں – میں روہنگیا کے پاس ان ممالک میں پناہ گزینوں کے برابر حقوق حاصل نہیں ہیں جہاں یہ کنونشن نافذ ہے، جس کی وجہ سے وہ انتہائی خطرناک صورتحال میں ہیں۔

یہاں تک کہ 2023 میں، جب 31 جولائی کو نوح کے فرقہ وارانہ تشدد نے خطے کو ہلا کر رکھ دیا تھا – جس میں مسلمانوں کی دکانوں، گھروں اور عبادت گاہوں میں توڑ پھوڑ کی گئی، آگ لگا دی گئی اور لوٹ مار کی گئی – تب بھی ایک کمیونٹی کے طور پر روہنگیا نے خود کو انتہائی غیر محفوظ اور مقامی غصے اور ریاستی قانون کا ایک آسان ہدف پایا تھا۔ تب انہوں نے دی وائر کو بتایا تھا کہ فارنرز ریجنل رجسٹریشن آفس (ایف آر آر او) کے اہلکار ان کی جھگیوں میں آئے اور ان میں سے بہت سے لوگوں کو واقعات کے سلسلے میں پوچھ گچھ کے لیے دہلی لے گئے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹس سے بھی یہ پایا گیا کہ فیس بک انتباہات پر عمل کرنے سے گریزاں ہے، اس لیے بوزو اور عرضی گزار کاؤنسل نے عدالت سے حکم امتناعی لینے کی ضرورت محسوس کی۔

عدالت میں روہنگیا درخواست گزاروں کی نمائندگی کرنے والی ایڈوکیٹ کنول پریت کور نے کہا کہ ہندوستان میں اقلیتوں بالخصوص روہنگیا برادری کے خلاف تفرقہ انگیز مواد کو فروغ دینے میں فیس بک کے کردار کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ درخواست دائر کی گئی ہے۔

کور نے کہا، ‘یہ پوسٹ ہندوستان سے کی جا رہی ہیں اور ان میں تشدد پھیلانے کی زبردست صلاحیت ہے۔ ہندوستان میں مقیم روہنگیا کمیونٹی کے خلاف اکثر دیے جانے والے بیانات، ان کی کچی آبادیوں کو نشانہ بنانے اور فیس بک کے ان پوسٹ سے جو تشدد ہو سکتا ہے، جیسا کہ ہم نے بنگلہ دیش میں دیکھا، کے حوالے سے واضح مثالیں ہیں۔’

کور نے یہ عرضی داخل کرنے کے پیچھے ایک اور اہم وجہ آنے والے انتخابات کو بتایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں رہنے والے روہنگیا کمیونٹی میں خدشہ ہے کہ فیس بک پر انہیں نشانہ بنانے والے مواد بڑی تعداد میں پوسٹ کی جائیں گی۔

کور نے کہا، ‘ہمارا مقصد فیس بک جیسی تنظیموں کو جوابدہ بنانا ہے تاکہ وہ اپنے کمیونٹی اسٹینڈرڈ کو منتخب طور پر نافذ نہ کریں اور جب اقلیتی برادری کے تحفظ کی بات ہو تو اپنی ذمہ داریوں سے پیچھے نہ ہٹیں۔ فیس بک دراصل یہاں عوامی کردار ادا کر رہا ہے اور اس لیے ہم نے اسے عدالت میں لے جانے کا فیصلہ کیا ہے۔’

معاملے کی سماعت 23 جنوری کو ہوگی۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔ )