خبریں

وارانسی کی گیان واپی مسجد کے نیچے ایک بڑا ہندو مندر موجود تھا: اے ایس آئی کی سروے رپورٹ

یہ پتہ لگانے کے لیے کہ کیا گیان واپی مسجد پہلے سے موجود کسی مندر پر بنائی گئی تھی، آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) نے عدالت کی ہدایت پر مسجد کا سروے کیا ہے ۔ ہندو فریق نے ایک عرضی میں یہاں مندر ہونے کادعویٰ کیا تھا۔ انہوں نے مسجد کے احاطے میں ماں  شرنگار گوری کی پوجا کے لیے داخلے کا مطالبہ کیا ہے۔

گیان واپی مسجد۔ (فوٹو: کبیر اگروال/د ی وائر)

گیان واپی مسجد۔ (فوٹو: کبیر اگروال/د ی وائر)

نئی دہلی: آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) نے اتر پردیش کے وارانسی شہر میں واقع گیان واپی مسجد کی اپنی سروے رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ موجودہ ڈھانچے (مسجد) کی تعمیر سے پہلے وہاں ایک ‘بڑا ہندو مندر’ موجود تھا اور مندر کے کچھ حصوں کا استعمال اسلامی عبادت گاہ کی تعمیر میں کیا گیا تھا۔

یہ پتہ لگانے کے لیے کہ کیا کاشی وشوناتھ مندر سے متصل 17ویں صدی کی یہ مسجد کسی مندر کے پہلے سے موجود ڈھانچے پر بنائی گئی تھی، اے ایس آئی نے عدالت کی ہدایت پر اس کا سائنسی سروے کیا ہے۔ ایک عرضی میں ہندو فریق نے یہاں مندر ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ انہوں نے مسجد کے احاطے میں ماں شرنگار گوری کے درشن اور پوجا کے لیے پورے سال داخلے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

گزشتہ 24 جنوری کو وارانسی کی عدالت نے اے ایس آئی سروے رپورٹ کے نتائج تمام فریقوں کو دستیاب کرانے کی اجازت دی تھی ۔

قابل ذکر ہے کہ 839 صفحات پر مشتمل اے ایس آئی سروے رپورٹ اب تک دستیاب نہیں ہے، حالانکہ رپورٹ کے کچھ حصوں سےیہ نتیجہ  اخذ کیا گیا ہے کہ ‘یہ کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ ڈھانچے کی تعمیر سے پہلے یہاں ایک بڑا ہندو مندر موجود تھا’۔

اے ایس آئی نے کہا کہ اس نے سائنسی سروے، آثارباقیہ کی تحقیق، اس کی نمایاں خصوصیات، نوادرات، نوشتہ جات، آرٹ اور مورتیوں کی بنیاد پریہ نتیجہ  اخذ کیا ہے۔

اے ایس آئی  نے اپنے نتائج کی بنیاد ‘موجودہ ڈھانچے میں پہلے سے موجود  ڈھانچے کے مرکزی ایوان اور مرکزی دروازے’ کے مشاہدے اور سائنسی مطالعے پر رکھی ہے۔

اس میں  دعویٰ کیا گیا ہے کہ ‘ موجود ڈھانچے میں پہلے سے موجودہ ڈھانچے کے ستونوں اور نیم ستونوں کو دوبارہ استعمال کیا گیا تھا’ اور ‘پہلے سے موجود ڈھانچے کا مرکزی ہال موجودہ ڈھانچے کا مرکزی ہال بناتا ہے۔’

اے ایس آئی نے کہا، موجودہ ڈھانچے کی مغربی دیوار، مسجد، ‘پہلے سے موجود ہندو مندر کی باقیات’ تھی۔

رپورٹ میں کہا گیا، ‘پتھر سے بنی اور افقی مولڈنگز سے مزین یہ دیوار، مغربی ہال کے بقیہ حصوں، مرکزی ہال کے مغربی پروجیکشن اور اس کے شمال اور جنوب میں دو ہال کی مغربی دیواروں سے بنی ہے۔ دیوار سے منسلک مرکزی ہال اب بھی تبدیل نہیں ہوا ہے، جبکہ دونوں سائیڈ چیمبرز میں ترمیم کی گئی ہے۔’

اے ایس آئی نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ موجودہ مسجد میں استعمال ہونے والے ستونوں اور نیم ستونوں کو مسجد کی توسیع اور صحن کی تعمیر کے لیے ‘معمولی ترمیم کے ساتھ دوبارہ استعمال کیا گیا  تھا’۔

اے ایس آئی نے کہا کہ مسجد کے کوریڈور میں ستونوں اور نیم ستونوں کی تحقیق سے ‘پتہ چلتا ہے کہ یہ اصل میں پہلے سے موجود ہندو مندر کا حصہ تھے۔’

اس کے مطابق، ‘موجودہ ڈھانچے میں ان کے دوبارہ استعمال کے لیے، کمل پدک (تمغے) کے دونوں طرف تراشے گئے ویالا کے نقش  کو مسخ کر دیا گیا  اور کونوں سے پتھر ہٹانے کے بعد اس مقام  کو فلورل ڈیزائن سے سجایا گیا تھا۔ اس مشاہدے کی تائید دو ملتے جلتے فریسکوز سے ہوتی ہے، جو اب بھی مغربی چیمبر کی شمالی اور جنوبی دیواروں پر اپنی اصل پوزیشن میں موجود ہیں۔’

اے ایس آئی نے اپنے سروے کے دوران’موجودہ اور پہلے سے موجود ڈھانچے’ پر 34 نوشتہ جات کو ریکارڈ کیا اور 32 نوشتہ جات کی نقلیں لی گئی ہیں۔

اے ایس آئی نے کہا، ‘یہ دراصل پہلے سے موجود ہندو مندروں کے پتھر کے نوشتہ جات ہیں، جنہیں موجودہ ڈھانچے کی تعمیر/مرمت کے دوران دوبارہ استعمال کیا گیا ہے۔ ان میں دیوناگری، گرنتھ، تیلگو اور کنڑ رسم الخط میں کتبے شامل ہیں۔’

اس کے مطابق، ڈھانچے میں پہلے کے نوشتہ جات کا دوبارہ استعمال بتاتا ہے کہ پہلے کے ڈھانچے کو تباہ کر دیا گیا تھا اور ان کے حصوں کو موجودہ ڈھانچے کی تعمیر یا مرمت میں دوبارہ استعمال کیا گیا تھا۔

اے ایس آئی نے یہ بھی کہا کہ ان نوشتوں میں جناردن، رودر اور اومیشور نامی دیوتاؤں کے تین نام پائے گئے تھے۔

اے ایس آئی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ‘مندر’ میں ایک  بڑا مرکزی چیمبر اور کم از کم ایک ایک چیمبر بالترتیب شمال، جنوب، مشرق اور مغرب میں تھے۔

اے ایس آئی نے کہا کہ شمال، جنوب اور مغرب میں تین چیمبروں کی باقیات اب بھی موجود ہیں، لیکن مشرقی چیمبر کی باقیات اور اس کی مزید توسیعات کو جسمانی طور پر تلاش نہیں کیا جا سکا ہے کیونکہ یہ علاقہ پتھر کے فرش کے ساتھ ایک پلیٹ فارم سے ڈھکا ہوا ہے۔

سروے رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ تمام تعمیراتی اجزاء اور پھولوں کی سجاوٹ کے ساتھ موٹی اور مضبوط دیواروں والا یہ ڈھانچہ مسجد کے مرکزی ہال کے طور پر استعمال کیا گیا تھا۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہ پہلے سے موجود ڈھانچے کے آراستہ محرابوں کے نچلے سروں پر تراشی گئی جانوروں کی شکلیں مسخ کر دی گئی تھیں اور گنبد کے اندرونی حصے کو جیومیٹریکل ڈیزائنوں سے سجایا گیا ہے۔

شرنگار گوری کی پوجا کا مطالبہ کرتے ہوئے درخواست دائر کرنے والے پانچ ہندو مدعیان میں سے ایک راکھی سنگھ کے وکیل سوربھ تیواری  نے دی وائر کو بتایا کہ اے ایس آئی نے ان کے دعوے کی ‘تصدیق’ کی ہے کہ مندر کا ایک حصہ مسجد کے وجود سے پہلے موجود تھا اور مندر کے ڈھانچے کا ایک حصہ مسجد کی تعمیر کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔

تیواری نے پہلے ہی الہ آباد ہائی کورٹ میں ایک عرضی دائر کی تھی جس میں درخواست کی گئی تھی کہ مسجد کے وضو خانہ  کا بھی ایسا ہی سائنسی سروے کرایا جانا چاہیے، جسے 2022 میں سپریم کورٹ کی ہدایت پر سیل کر دیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا، ‘ہمارا اگلا قدم وضو خانہ کے ساتھ ساتھ پرانے مندر کے وستر گرہ   کا سروے کرنا ہے، جو دیواروں کے پیچھے چھپا ہوا ہے۔ ہمارا کلیدی  ثبوت وہاں ہے۔’

تاہم آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے حیدرآباد کے رکن پارلیامنٹ اسد الدین اویسی نے سوشل سائٹ ایکس پر اس سروے رپورٹ کے بارے میں کہا، ‘اے ایس آئی کے نتائج’ پیشہ ور  ماہرین آثار قدیمہ یا مؤرخین کے کسی بھی گروپ کے سامنے اکیڈمک جانچ میں ٹک نہیں پائیں گے۔رپورٹ قیاس پر مبنی ہے اور سائنسی مطالعات کا مذاق اڑاتی ہے۔ جیسا کہ ایک عظیم اسکالر نے ایک بار کہا تھا،اے ایس آئی ہندوتوا کی خادمہ ہے’۔

اے ایس آئی کے ذریعےکمپلیکس کے سروے کے ڈسٹرکٹ جج کے 21 جولائی 2023 کے حکم کو چیلنج کرنے والے گیان واپی مسجد کمیٹی کی درخواست کو مسترد کرنے کے بعد الہ آباد ہائی کورٹ نے اگست 2023 میں گیان واپی مسجد کا سائنسی سروے کرنے کی راہ ہموار کو کیا تھا۔

ڈسٹرکٹ جج نے جولائی 2023 میں اے ایس آئی کے ڈائریکٹر کو گزشتہ سال (2022) سپریم کورٹ کی جانب سے مسجد کے سیل کیے گئے  علاقوں (وضو خانہ) کو چھوڑ کر، سائٹ پر سائنسی تحقیقات، سروے یا کھدائی کرنےکی ہدایت دی تھی ۔

ضلع عدالت نے اے ایس آئی کو جی پی آر سروے، کھدائی، ڈیٹنگ کے طریقہ کار اور موجودہ ڈھانچے کی دیگر جدید تکنیکوں کا استعمال کرتے ہوئے ایک تفصیلی سائنسی تحقیقات کرنے کی بھی ہدایت کی تھی، تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ کیا یہ ہندو مندر کے پہلے سے موجود ڈھانچے پر تعمیر کیا گیا تھا۔

اے ایس آئی نے 18 دسمبر 2023 کو وارانسی ڈسٹرکٹ کورٹ میں ایک سیل بند لفافے میں گیان واپی مسجد کمپلیکس کے سائنسی سروے کی اپنی رپورٹ پیش کی تھی ۔

اے ایس آئی نے پہلے ڈسٹرکٹ جج سے درخواست کی تھی کہ وہ الہ آباد ہائی کورٹ کے 19 دسمبر 2023 کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے اگلے چار ہفتوں تک اپنی رپورٹ کوعام نہ کریں، جس میں ہائی کورٹ نے گیان واپی مسجد کی جگہ پر ایک مندر کی بحالی کا مطالبہ کرنے والے 1991 کے مقدمے کے استحکام  کو چیلنج کرنے والے یوپی سنی سینٹرل وقف بورڈ اور مسجد کمیٹی کی کئی درخواستوں کو مسترد کر دیا تھا ۔

جسٹس روہت رنجن اگروال نے وارانسی کی عدالت میں 1991 کے مقدمے میں کارروائی مکمل کرنے کے لیے چھ ماہ کی ڈیڈ لائن مقرر کرتے ہوئے کہا تھا، ‘مقدمے میں اٹھایا گیا تنازعہ انتہائی قومی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ دو مختلف فریقوں کے درمیان کا مقدمہ نہیں ہے۔ یہ  ملک کی دو بڑی کمیونٹی کو متاثر کرتا ہے۔’

ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ 1991 کے اصل مقدمے کو عبادت گاہوں سے متعلق خصوصی ایکٹ، 1991 کی دفعات کے ذریعے روکا نہیں گیا تھا۔

ایکٹ کہتا ہے کہ کوئی بھی شخص کسی مذہبی فرقے یا اس کے کسی بھی طبقے کی عبادت گاہ کو اسی مذہبی فرقے کے کسی دوسرے طبقے کی عبادت گاہ یا کسی بھی مختلف مذہبی فرقے یا اس کے طبقے کی عبادت گاہ میں تبدیل نہیں کرے گا۔ یہ اعلان کرتا ہے کہ 15 اگست 1947 کو موجود عبادت گاہ کا مذہبی کردار جاری رہے گا۔

بتادیں کہ1991 کا اصل مقدمہ گیان واپی مسجد کمپلیکس پر قبضے کے مطالبہ کے لیے ہندو مدعیان نے دائر کیا تھا۔ راکھی سنگھ کی قیادت میں پانچ ہندو خواتین کی طرف سے دائر حالیہ مقدمے میں گیان واپی مسجد کے احاطے میں ماں شرنگار گوری کے درشن اور پوجا کے لیے پورے سال داخلے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

ہائی کورٹ نے اے ایس آئی کو 1991 کے کیس میں اپنی سائنسی سروے رپورٹ 19 دسمبر 2023 کو پیش کرنے کی بھی ہدایت دی، جو اس وقت سول جج سینئر ڈویژن فاسٹ ٹریک کی عدالت میں زیر سماعت ہے۔

عدالت نے کہا تھا کہ اگر یہ پایا گیا کہ ‘مزید سروے کی ضرورت ہے، تو ایسی صورت حال میں اے ایس آئی کے سروے میں جو چھوڑ دیا گیا ہے، ٹرائل کورٹ  8اپریل، 2021 کے حکم کے پیش نظر مزید سروے کرنے کے لیے ضروری ہدایات جاری کرے گی۔’

گزشتہ 3 جنوری کو اے ایس آئی نے ضلع عدالت میں جمع کرائی گئی درخواست میں دلیل دی تھی کہ اس کی رپورٹ ‘انتہائی اہم’ تھی۔

اے ایس آئی نے کہا تھا کہ اگر سول جج، سینئر ڈویژن، فاسٹ ٹریک میں ‘سونم بھو بھگوان وشویشور کا قدیم مجسمہ بنام انجمن انتظاریہ مسجد’ کے مقدمے میں رپورٹ کی ایک کاپی پیش کرنے سے پہلے اس کی رپورٹ کو ‘عام کر دیا جاتا ہے’، تو پھر ‘عوامی’ افواہوں اور غلط بیانیوں کے پھیلنے کا ‘زیادہ امکان’ ہوگا، جو اے ایس آئی  کے کام کو متاثر کر سکتا ہے۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔