فکر و نظر

ایل کے اڈوانی: رتھ یاترا سے بھارت رتن تک — تشدد اور پولرائزیشن سے چلنے والا سیاسی سفر

چھیانوے سالہ لال کرشن اڈوانی کو ایک ایسے وقت میں بھارت رتن دیا گیا ہے، جب ملک اگلے لوک سبھا انتخابات کی تیاری کر رہا ہے اور نریندر مودی اس کے مرکز میں ہیں۔ بے رحمی سے درکنار کیے گئے اپنے ‘گرو’ کو ملک کا سب سے بڑا اعزاز دے کر نریندر مودی نے ایک بار پھر توجہ اپنی جانب مبذول کرائی ہے۔

لال کرشن اڈوانی۔ (تصویر بہ شکریہ: الجزیرہ انگریزی/فلکر/CC BY-SA 2.0/سوشل میڈیا)

لال کرشن اڈوانی۔ (تصویر بہ شکریہ: الجزیرہ انگریزی/فلکر/CC BY-SA 2.0/سوشل میڈیا)

نئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعے بی جے پی کے سینئر رہنما اور سابق نائب وزیر اعظم لال کرشن اڈوانی کو ‘مارگ درشک منڈل’ میں بھیجنے کے بعد اب انہیں دوبارہ سامنے لایا گیا ہے اور انہیں ملک کا سب سے بڑا اعزاز -بھارت رتن دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔

اڈوانی ہی وہ شخص تھے، جنہوں نے 1989 میں پارٹی صدر کے طور پر پہلی بار پالم پور نیشنل ایگزیکٹو کی قرارداد میں ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کو پارٹی کے ایجنڈے میں شامل کیا تھا۔ حال ہی میں 22 جنوری کو مندر کی عظیم الشان پران—پرتشٹھا کی تقریب میں وہ ‘مدعو اور غیر مدعو ‘ دونوں تھے۔

بے یقینی، خوف اور عدم تحفظ کے وسیع جذبات کی علامت بن چکے ‘نیو انڈیا’ میں کسی ہندوتوا مفکر کے لیے بھارت رتن حاصل کرنے کا اس سے زیادہ موزوں وقت نہیں ہو سکتا تھا۔ وہی ہندوستان، جس کی بنیاد کسی اور نے نہیں بلکہ خود اڈوانی نے رکھی تھی۔

ٹی وی اسکرین پر اپنے سب سے اہم سیاسی مقصد- ایودھیا میں رام مندر کو پورا  ہوتے دیکھ رہے 96 سالہ اڈوانی اب ملک کو مذہبی پولرائزیشن کی جانب لے جانے میں اپنے بے مثال کردار کو یاد کر سکتے ہیں کیونکہ ان کی خدمات کو بالآخر ان کے سب سے بڑے شاگرد اور جانشین نریندر مودی نے تسلیم کر لیاہے۔

پچھلی چند دہائیوں میں ملک کا اعلیٰ ترین اعزاز سیاسی پیغام دینے کا ایک ذریعہ بن کر رہ گیا ہے۔ ماضی میں جہاں سائنس دانوں، موسیقاروں، کھلاڑیوں اور سماجی مصلحین کو وقتاً فوقتاً یہ اعزاز ملتا رہا ہے، وہیں مرکز میں برسراقتدار پارٹی زیادہ تر اپنے نظریے کے مفکرین کو ہی اس اعزاز کے لیے منتخب کرتی ہے۔

لیکن کوئی بھی اڈوانی کی طرح پولرائز کرنے والا نہیں ہو سکتا، کیونکہ وہ اپنے ہی ملک میں تفرقہ انگیز سیاسی شخصیت سمجھے جاتے ہیں۔

وہ بی جے پی کے ان بانیوں میں سے ہیں، جنہوں نے پارٹی کو جن سنگھ کے دنوں سے ہی ایک واضح اور تیز نظریاتی لائن دی،اس وقت بھی جب ان کی پارٹی زیادہ تر کانگریس مخالف اتحاد بنانے پر انحصار کرتی تھی۔

انہوں نے شاید بی جے پی کو ایک عوامی تنظیم میں تبدیل کرنے میں سب سے بڑا تنظیمی کردار ادا کیا، خواہ یہ ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی قیمت پر کیوں نہ ہوا ہو ۔

پالم پور میں رام مندر کے عہد کو  اختیار کرنے سے لے کر اپنی ملک گیر رتھ یاترا کے ذریعے ملک میں اکثریتی بیانیہ کو آگے بڑھانے تک، اڈوانی نے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے ساتھ مل کر پارٹی کو اینٹ در اینٹ کھڑا کیا، لیکن آخر میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے ان کے نظریاتی گروؤں (آر ایس ایس) نے انہیں درکنار کردیا۔

وہ ایسے رہنما ہیں، جو سب سے زیادہ عرصے تک پارٹی کے صدر رہے۔ سب سے پہلے 1986-91 کے درمیان، پھر 1993-98 کے درمیان اور آخر کار 2004-05 میں ایک سال کے دور میں وہ پارٹی کے اعلیٰ عہدے پر تھے۔ محمد علی جناح کو ‘سیکولر’ لیڈر کہنے پر ہوئے تنازعہ کے بعد آر ایس ایس نے انہیں عہدے سے استعفیٰ دینے کے لیے مجبور کیا تھا۔ ان کا یہ بیان ان کے اور سنگھ کے نظریہ کے بالکل برعکس تھا۔

جس آر ایس ایس نے واجپائی کو اڈوانی کو نائب وزیر اعظم مقرر کرنے کے لیے مجبور کیا تھا، اسی لیڈر کے بارے میں اس نے اپنا نظریہ بدل لیا۔

تیس سال سے زیادہ عرصے تک بی جے پی کو کور کرنے والی سینئر صحافی نینا ویاس کہتی ہیں، ‘2005 میں اڈوانی کا استعفیٰ ان کے سیاسی کیریئر کے اختتام کا آغاز تھا۔ حالانکہ انہیں 2013 میں ہی باہر کر دیا گیا تھا، لیکن 2009 کے لوک سبھا انتخابات میں ان کے وزیر اعظم کے عہدے  کا امیدوار ہوتے ہوئے بھی بی جے پی ہار گئی تھی، جس کی وجہ سے انہیں سنگھ (پریوار) میں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔’

اتفاق سے نریندر مودی، جن کی انہوں نے ساری زندگی تربیت کی اور ان کا دفاع کیا، آخر کار انہیں ‘مارگ درشک منڈل’ میں دھکیلنے والے شخص کے طور پر سامنے آئے۔ اس کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اڈوانی نے جو بویا وہی کاٹا۔

سال 2004 میں رانچی میں منعقدہ پارٹی کی نیشنل ایگزیکٹو میٹنگ میں اڈوانی نے اس وقت اتحادی سیاست میں پھنسی پارٹی کو کٹر ہندوتوا کو اپنانے کی فوری کوشش میں بی جے پی کو ہندوستان پر حکومت کرنے کے لیے ‘اوپر والے کے ذریعے چنا ہوا‘بتایا تھا۔تاہم، ہندوستانی ریاست کا تصور اسی طرح کیا گیا تھا جس طرح اسرائیل جیسا ملک اپنی تعریف کرتا ہے۔

پارٹی صدر کے طور پر اڈوانی کو واجپائی کو کمزور کرنے والا  مانا گیا، جو ایک اعتدال پسند رہنما کے طور پر شہرت رکھتے تھے۔ تب تک اڈوانی کو پارٹی میں وزیر اعظم واجپائی کا کٹر حریف سمجھا جاتا تھا۔

نینا کہتی ہیں،’اڈوانی نے واجپائی کو کئی بار کمزور کیا۔ مجھے یاد ہے کہ کس طرح انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے 2001 میں آگرہ امن اجلاس اور مذاکرہ کو ناکام کرکے واجپائی کو مشکل میں ڈال دیا تھا۔ لاہور بس سفر کے باوجود پاکستان نے کارگل کی جنگ شروع کر دی۔ اس کے باوجود واجپائی نے پرویز مشرف کو بات چیت کے لیے آگرہ بلا کر ہندوستان—پاکستان دوستی کو ایک موقع دینا چاہتے تھے۔ عملی طور پر ایک مشترکہ بیان بھی تیار کیا گیا تھا، لیکن آخر میں اڈوانی اور سشما سوراج نے اسے مسترد کر دیا، جس کی وجہ سے بات چیت ناکام ہو گئی۔’

بات چیت یا مذاکرہ سے پہلے اڈوانی نے لائن آف کنٹرول کے پار دہشت گردوں کی ‘کھوج’ کی پالیسی کا اعلان کرکے واجپائی کو کمزور کرنے کی کوشش کی تھی ۔ اسی طرح، اڈوانی نے پی ایم او میں واجپائی کے پرنسپل سکریٹری اور اس وقت کے قومی سلامتی کے مشیر برجیش مشرا کو باہر نکالنے کی کئی کوششیں بھی کیں، لیکن ناکام رہے۔

سال 2009 کا لوک سبھا الیکشن ان کے وزیر اعظم بننے کے عزائم کو پورا کرنے کا آخری موقع تھا، لیکن تب تک وہ پارٹی میں دوستوں سے زیادہ دشمن بنا چکے تھے، یہاں تک کہ ان کے دور میں پاکستان کے دورے کے دوران جناح کے بارے میں ان کے تبصرے کی مخالفت ان کے ساتھیوں یشونت سنہا اور سشما سوراج نے بھی کی تھی۔

واجپائی کو شکست دینے کی خواہش میں اڈوانی نے اپریل 2002 میں مشہور گوا نیشنل ایگزیکٹو میٹنگ میں تقریباً بغاوت کر دی تھی۔ 2002 کے گجرات مسلم کش فسادات کے بعد واجپائی نے گجرات کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ مودی سے استعفیٰ طلب کرنے کا تقریباً فیصلہ کر لیا تھا۔ تاہم، نینا ویاس بتاتی  ہیں کہ اڈوانی کو اس کی بھنک لگ گئی اور انہوں نے اس فیصلے کو روکنے کے لیے ارون جیٹلی کو گاندھی نگر بھیجا۔

وہ بتاتی ہیں،’جیٹلی مودی کے ساتھ ہوئے اور اس سے پہلے کہ واجپائی نیشنل ایگزیکٹو میں مودی کے استعفیٰ کا معاملہ اٹھاتے مودی نے خود ہی استعفیٰ کی پیشکش کر دی۔ جیسا کہ منصوبہ تھا، اڈوانی کی قیادت میں کچھ ایگزیکٹو ممبران نے مودی کی اس تجویز کی سخت مخالفت کی۔ واجپائی نے ان کے مزاج کو بھانپ لیا اور آخر کار مودی کی حمایت کی۔’

اڈوانی لمبے وقت تک بی جے پی کے مقبول رہنما تھے، لیکن 2014 میں اقتدار میں آنے کے بعدکسی اور نے نہیں بلکہ مودی نے انہیں پردے کے پیچھے دھکیل دیا، جسے اب اکثر ‘کرم کا پھل’ کہہ کر طنز کیا جاتا ہے۔

سال 2010 تک اڈوانی اپنے سیاسی کیرئیر کے آخری پڑاؤ پر پہنچ چکے تھے۔ وہ 2009 میں جیت نہیں پائے تھے، جس کے بعد وہ انڈین ایکسپریس کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ایک شکست خوردہ لیڈر کے طور پر نظر آئے ، جہاں انہوں نے رام جنم بھومی رتھ یاترا کو بھی مسترد کر دیا  تھا۔

اس وقت تک وہ اپنی سوانح عمری لکھ چکے تھے، جس میں انہوں نے بابری مسجد کے انہدام کی مذمت کی تھی۔ بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ یہ ان کے خلاف ممکنہ قانونی کارروائی سے بچنے کی ایک ہوشیاری تھی۔

انٹرویو میں انہوں نے کہا، ‘اگر مجھے معلوم ہوتا کہ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا تو میں کبھی ایودھیا نہ جاتا، لیکن میں پھر بھی پاکستان جاتا۔’

اسی انٹرویو میں وہ کہتے ہیں، ‘اس یاترا نے شاید کچھ لوگوں کو متاثر کیا  ہوگا، وہ میرے حامی بنے ہوں گے اور میرے مخالفین ناراض ہوئے ہوں گے۔ لیکن مجھے یاد ہے کہ اس نے مجھے بہت کچھ سکھایا’۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ ان کے خاندان میں سکھ رسومات اور روایات کی پیروی کی جاتی تھی اور ان کے گھر پر گرو گرنتھ صاحب بھی موجود ہیں۔

جناح پر کیے گئے تبصروں نے پارٹی میں ان کے دوستوں کے ایک بڑے حصے کو پہلے ہی ناراض کر دیا تھا، جن کا خیال تھا کہ یہ تبصرے انہیں تقسیم کرنے والے لیڈر کے طور پر نہیں بلکہ سب کے لیڈر کے طور پر دیکھے جانے کی ان کی مایوسی سے پیدا ہوئےتھے۔

سینئر صحافی کلدیپ کمار کہتے ہیں کہ یہ حیرت کی بات نہیں تھی کہ اڈوانی نے جناح کو ‘سیکولر لیڈر’ کہا۔ انہوں نے کہا، ‘میں جناح اور اڈوانی کو ایک دوسرے کے بہت قریب پاتا ہوں۔ جناح نے دو قومی نظریہ مذہبی بنیادوں پر پیش کیا۔ وہ ایک مسلم قوم چاہتے تھے، جبکہ اڈوانی اور سنگھ پریوار ہندو قوم چاہتے تھے۔ دونوں کا عقیدہ یکساں ہے اور وہ صرف مذہبی بنیادوں پر قومیں بنانے کی بات کرتے ہیں۔’

تاہم، جن صحافیوں نے اڈوانی کے ساتھ قریبی بات چیت کی ہے وہ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ وہ ایک بہت ہی شائستہ اور گرم جوش انسان تھے اور سوالات سے کبھی نہیں گھبراتے تھے۔

نینا ویاس کہتی ہیں، ‘اڈوانی اپنے ناقدین سے بھی بات کرتے تھے اور ان کے سوالوں کے جواب دیتے تھے، جو آج کے بی جے پی لیڈروں کے رویے سے بہت مختلف ہے۔’

کلدیپ کمار کہتے ہیں، ‘بی جے پی میں کسی نے بھی بی جے پی کے نظریے کو اڈوانی کی طرح واضح طور پر ظاہر نہیں کیا۔ وہ اپنی باتوں میں کبھی ترشی اختیار نہیں کرتے تھے اور صحافیوں کے ساتھ اچھے، پیشہ ورانہ تعلقات برقرار رکھتے تھے۔ انہوں نے مشکل سوالوں کے جواب دینے سے کبھی انکار نہیں کیا۔’

تاہم، انہوں نے مزید کہا کہ اڈوانی کی وراثت کو ان کی پولرائزیشن والی رتھ یاترا کے ذریعے ہندوستان کو دی گئی  سمت کے لیے یاد رکھا جائے گا۔

کمار کہتے ہیں، ‘اڈوانی نے ان تقسیموں کو ہوا دینے میں سب سے نمایاں کردار ادا کیا جو آج آپ ہندوستان میں دیکھ رہے ہیں۔’

اڈوانی کو ایک ایسے وقت میں بھارت رتن دیا گیا ہے جب ملک اگلے لوک سبھا انتخابات کی تیاری کر رہا ہے اور نریندر مودی اس کے مرکز میں ہیں۔

یہاں تک کہ اپنے گرو،جنہیں وہ بے رحمی سے در کنار کرچکے تھے، کو  ملک کا سب سے بڑا اعزاز دے کرنریندر مودی نے ایک بار پھر توجہ اپنی جانب مبذول کرائی ہے۔ انہوں نے ہندوتوا کیمپ میں موجود ان لوگوں کو مطمئن کیا جو رام مندر کی پران—پرتشٹھا کی تقریب میں اڈوانی کی عدم موجودگی پر ناراض تھے، جو ویسے بھی مودی کا ون مین شو تھا۔

انہوں نے لوگوں کو یہ بھی جتا دیا ہے کہ آخر کار وہ ایک ‘انصاف پسند’ شخص ہیں جنہوں نے اڈوانی کو پھر سےسیاسی سرخیوں میں لانے کا کام کیا ہے۔

وزیراعظم اپنے سارے پتے کھول چکے ہیں۔ اڈوانی اور سوشلسٹ رہنما کرپوری ٹھاکر کو بھارت رتن دینے کے ساتھ انہوں نے 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں رام جنم بھومی سے چلنے والے ہندوتوا کے ساتھ ساتھ او بی سی سیاست کو بی جے پی کا اہم بیانیہ بنا دیا ہے۔

تاہم، بھارت رتن بھی 96 سالہ اڈوانی کو مودی کی سیاسی بساط پر محض پیادہ بننے میں مدد نہیں کر سکتا۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)