خبریں

اتراکھنڈ یکساں سول کوڈ منظور کرنے کی طرف گامزن؛ غیر رجسٹرڈ لیو اِن ریلیشن شپ کے لیے ہوگی جیل

بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کی طرف سے اتراکھنڈ اسمبلی میں پیش کیے گئے یکساں سول کوڈ بل کے حوالے سےاپوزیشن کانگریس کا الزام ہے کہ حکومت نے کانگریس کے اراکین اسمبلی کو ان دفعات کا مطالعہ کرنے یا ان کے جائزہ کے لیے وقت دیے بغیر بل پیش کر دیا اور بغیر بحث کے قانون کو منظور کرنا چاہتی ہے۔

اتراکھنڈ اسمبلی میں وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی۔ (تصویر: ویڈیو سے اسکرین گریب)

اتراکھنڈ اسمبلی میں وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی۔ (تصویر: ویڈیو سے اسکرین گریب)

نئی دہلی: بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی اکثریت والی اتراکھنڈ اسمبلی میں ‘جئے شری رام’، ‘وندے ماترم’ اور ‘بھارت ماتا کی جئے’ کے نعروں کے درمیان ریاستی حکومت نے 6 فروری کو ریاستی اسمبلی میں یکساں سول کوڈ (یو سی سی) بل پیش کیا۔ اس بل کے ایک حصے میں لیو اِن ریلیشن شپ کے لازمی رجسٹریشن اور ایسا نہ کرنے پر تین سے چھ ماہ کی جیل کی سزا یا جرمانے کا اہتمام کیا گیاہے۔

اگر یہ منظور ہو جاتا ہے تو اتراکھنڈ یو سی سی کو نافذ کرنے والی ملک کی پہلی ریاست بن جائے گی۔ بتادیں کہ یو سی سی طویل عرصے سے بی جے پی کا انتخابی ایجنڈہ رہا ہے۔

دوسری طرف، اپوزیشن کانگریس نے وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی کی قیادت والی حکمراں بی جے پی پر کانگریس کے اراکین اسمبلی کو دفعات کا مطالعہ یا جائزہ کا وقت دیے بغیر اسمبلی میں بل پیش کرنے کا الزام لگایا اور کہا کہ وہ بغیر بحث کے قانون کو پاس کرنا چاہتی ہے۔

بل دو شریک حیات یا تعدد ازدواج پر پابندی لگاتا ہے؛ لیو اِن ریلیشن شپ کو منظم کرتا ہے جس میں ان کے لازمی رجسٹریشن کے لیے ضابطے وضع کرنا اور ایسا کرنے میں ناکامی پر تعزیری اقدامات شامل ہیں؛ مرد اور عورت دونوں کے لیے طلاق کے عمل کی معیار بندی کرتا ہے؛ شادی کے لازمی رجسٹریشن کا طریقہ کار طے کرتا ہے اور خاندان کے قریبی افراد اور رشتہ داروں جیسے ممنوعہ رشتوں کے دائرے میں آنے والے افراد کے درمیان شادی اور لیو اِن ریلیشن شپ کو ممنوع قرار دیتا ہے؛  اور جائز اور ناجائز بچوں کی تفریق کو ختم کرتا ہے اور گود لیے بچے کو حیاتیاتی بچے کے برابر سمجھتا ہے اور مرد اور عورت کو وراثت کے مساوی حقوق فراہم کرتا ہے۔

اس بل کا اطلاق درج فہرست قبائل (ایس ٹی) کے ارکان پر نہیں ہوگا، جو ریاست کی آبادی کا 3 فیصد سے کم ہیں۔

دھامی نے اسے ایک ‘تاریخی لمحہ’ قرار دیا اور کہا کہ ان کی حکومت نے سماج کے تمام طبقات کو ساتھ لے کر اسمبلی میں بل پیش کیا ہے۔

دھامی نے کہا، ‘دیو بھومی کے لیے وہ تاریخی لمحہ قریب ہے جب اتراکھنڈ وزیر اعظم نریندر مودی کے ‘ایک بھارت، شریشٹھ بھارت’ کے وژن کا ایک مضبوط ستون بن جائے گا۔’

لیو اِن ریلیشن شپ کا لازمی رجسٹریشن

اتراکھنڈ یونیفارم سول کوڈ-2024 کے اہم نکات میں سے ایک یہ ہے کہ یہ لیو اِن ریلیشن شپ کے لازمی رجسٹریشن کا حکم دیتا ہے۔ یہاں تک کہ اتراکھنڈ کے وہ باشندے جو ریاست سے باہر لیو اِن ریلیشن شپ میں ہیں انہیں ریاست کے رجسٹرار کو ایک بیان جمع کرنا ہوگا۔

وہ لوگ جو لیو اِن ریلیشن شپ میں ہیں، یا لیو اِن ریلیشن شپ میں رہنے کا ارادہ رکھتے ہیں، انہیں رجسٹرار کے پاس لیو اِن ریلیشن شپ کا ایک بیان جمع کرانا ہوگا جو ایک تفتیش کرے گا جس میں اضافی معلومات یا ثبوت فراہم کرنے کے لیے افراد یا جوڑوں کو شامل کیا جاسکتا  ہے یا تصدیق کے لیے بلایا جا سکتا ہے۔ تفتیش کے بعد رجسٹرار لیو اِن کی تفصیلات کی وصولی کے 30 دنوں کے اندر یا تو رشتے کو رجسٹر کرے گا اور ایک سرٹیفکیٹ جاری کرے گا یا بیان درج  کرنے سے انکار کر دے گا۔ رجسٹریشن مسترد ہونے کی صورت میں جوڑوں کو تحریری طور پر اس کی وجہ سے آگاہ کیا جائے گا۔

بل میں کہا گیا ہے کہ رجسٹرار کو لیو اِن ریلیشن شپ کی تفصیلات مقامی پولیس اسٹیشن انچارج کو ریکارڈ کے لیے بھیجنی ہوں گی اور اگر جوڑے میں سے کسی کی عمر 21 سال سے کم ہے تو ایسے جوڑوں کے سرپرستوں یا گارجین کو بھی مطلع کرنا ہوگا۔

بل میں کہا گیا ہے کہ جو کوئی بھی ایسے رشتے کا بیان جمع کرائے بغیر ایک ماہ سے زائد عرصے تک لیو اِن ریلیشن شپ میں رہتا ہے، اسے جوڈیشل مجسٹریٹ کی طرف سے قصوروار ٹھہرائے جانے پر تین ماہ تک کی قید یا 10000 روپے تک جرمانے کی سزا دی جائے گی یا دونوں سزا ملے گی۔

اگر متعلقہ افراد رجسٹریشن کے دوران غلط معلومات جمع کراتے ہیں  یا معلومات چھپاتے ہیں تو انہیں بھی تین ماہ قید اور 25 ہزار روپے جرمانے کی سزا کا سامنا کرنا ہوگا۔ اگر کوئی بھی پارٹنر نوٹس طلب کیے جانے پر لیو اِن ریلیشن شپ کی تفصیلات پیش کرنے میں ناکام رہتا ہے تو انہیں چھ ماہ قید اور 25000 روپے جرمانے کا سامنا کرنا پڑے گا۔

یو سی سی بل میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ لیو اِن ریلیشن شپ سے پیدا ہونے والا بچہ بھی جوڑے کا جائز بچہ ہو گا اور یہ بھی شرط رکھتا ہے کہ اگر کسی خاتون کو اس کے لیو ان پارٹنر نے چھوڑ دیا ہے تو وہ اپنے پارٹنر سے کفالت کا دعوی کرنے کی حقدار ہوگی۔

نکاح اور طلاق کے احکام

اپنے انتخابی وعدے کے تحت ریاستی حکومت کی جانب سےتشکیل کر دہ ریٹائرڈ جج رنجنا پرکاش دیسائی کی سربراہی میں ماہرین کی ایک پانچ رکنی کمیٹی نے گزشتہ ہفتے یو سی سی پر اپنی رپورٹ دھامی کو سونپی تھی۔

کمیٹی کو ریاست کے باشندوں کے ذاتی شہری معاملات کو منظم کرنے والے متعلقہ قوانین کا جائزہ لینا تھا اور ایک مسودہ قانون تیار کرنا تھا یا شادی، طلاق، جائیداد کے حقوق، جانشینی، وراثت، گود لینے، دیکھ بھال، کسٹڈی (بچوں کی) اور سرپرستی سے متعلق موجودہ قوانین میں تبدیلی کا مشورہ دینا تھا۔کمیٹی کو ریاست میں یو سی سی کے نفاذ کے بارے میں ایک رپورٹ تیار کرنے کا کام بھی سونپا گیا تھا۔

یو سی سی بل کا مسودہ کابینہ کی منظوری کے دو دن بعد منگل کو ریاستی اسمبلی میں پیش کیا گیا۔

یہ بل یو سی سی کے نفاذ کے بعد باقاعدہ شادیوں اور معاہدہ شدہ شادیوں کے رجسٹریشن کو لازمی قرار دیتا ہے۔ یہ تعدد ازدواج کو یہ شرط لگا کر منع کرتا ہے کہ شادی کرنے والے شخص کے پاس زندہ شریک حیات نہیں ہونی چاہیے اور اس کی عمر کم از کم 18 (عورت) اور 21 (مرد) سال ہونی چاہیے۔

اس میں کہا گیا ہے کہ مذہبی عقائد، رسومات، روایتی رسومات اور رواج کے مطابق ایک مرد اور عورت کے درمیان شادی کی جا سکتی ہے یا اس کا معاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ بل میں طلاق کے لیے ایک عام طریقہ کار بھی طے کیا گیا ہے۔

یو سی سی سے پہلے یا بعد میں کی گئی شادی کو زدوکوب، اڈلٹری، دو سال کے لیے چھوڑنا اور مذہب کی  تبدیلی سمیت کئی بنیادوں پر کسی بھی  پارٹنر کے ذریعے (عرضی کے توسط سے) تحلیل کیا جا سکتا ہے۔

بیوی ان اضافی بنیادوں پر بھی طلاق کے حکم نامے کے ذریعے شادی کو تحلیل کرنے کے لیے عدالت میں درخواست بھی کر سکتی ہے کہ شوہر – شادی کے بعد رسمی طور پر عہد یا معاہدہ کے بعد سے – ریپ یا کسی اور قسم کے غیر فطری جنسی جرم کا مجرم ہےیا  یو سی سی کے متعارف ہونے سے پہلے ہوئی شادیوں سے شوہر کی ایک سے زیادہ بیویاں تھیں۔

بل کی مخالفت

کابینہ وزیر پریم چند اگروال نے یو سی سی کو پیش کرتے ہوئے کہا کہ ‘اپیزمنٹ’ کی پالیسی نے پچھلی حکومتوں کو ایسا قانون لانے سے روک دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ یو سی سی تمام ذاتوں اور مذاہب کی خواتین کو مساوی حقوق دیتا ہے۔

اگروال نے یو سی سی کے پس پردہ بی جے پی کے ارادوں کے بارے میں اپوزیشن کے الزامات کا جواب دینے کی کوشش میں کہا کہ مصر، ترکی، بنگلہ دیش، ملیشیا، سوڈان، پاکستان اور انڈونیشیا جیسے مسلم ممالک میں بھی اسی طرح کے سول کوڈ ہیں۔

کانگریس نے کہا کہ اس کے اراکین اسمبلی کو بل پر بحث کی تیاری کے لیے کوئی وقت نہیں دیا گیا اور انہیں ماہرین کی کمیٹی کی رپورٹ کے مواد کے بارے میں مطلع نہیں کیا گیا۔

کانگریس ایم ایل اے اور اپوزیشن لیڈر یشپال آریہ نے کہا کہ بل پیش کرنے سے پہلے حکومت کو ماہرین کی  کمیٹی کی رپورٹ بحث کے لیے پیش کرنی چاہیے تھی۔ آریہ نے اس سیشن میں وقفہ سوالات کے مسترد کیے جانے کے بعد حکومت پر الزام لگایا کہ وہ اپوزیشن ایم ایل اے کو سوال پوچھنے کے حق سے محروم کر رہی ہے۔ آریہ نے تجویز دی کہ بل کو جانچ کے لیے سلیکٹ کمیٹی کے پاس بھیجا جائے۔

کانگریس نے ابھی تک یو سی سی بل کی مخصوص دفعات پر ردعمل نہیں دیا ہے۔ تاہم، آریہ نے کہا کہ وہ یو سی سی کے خلاف نہیں ہیں۔

ایک نیوز ایجنسی سے بات کرتے ہوئے سابق وزیر اعلیٰ ہریش راوت نے پوچھا کہ کیا مرکزی حکومت دیگر ریاستوں کو بھی اسی طرح کے قوانین لانے کی اجازت دے گی، جبکہ اس نے قومی سطح پر یو سی سی لانے کا وعدہ کیا ہے۔

راوت نے سوال کیا، ‘اگر کوئی ریاستی حکومت ووٹ بینک کی سیاست کے لیے کسی دوسرے کمیونٹی کی ذاتی روایت میں مداخلت کرنے کی غرض سےحکمراں طبقے کے لیے یو سی سی کے نام پر ایک قانون لاتی ہے، تو کیا اس سے ریاست میں بدامنی پیدا نہیں ہو گی؟’ اس سلسلے میں انہوں نے منی پور میں ذات پات کے تنازعہ کی مثال دی۔

دوسری طرف جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ وہ شریعت کے خلاف کسی بھی قانون کو قبول نہیں کر سکتے اور کہا کہ یو سی سی شہریوں کو دیے گئے بنیادی حقوق سے متصادم ہے۔

آئین ہند کے آرٹیکل 366 کے باب 25 کی ذیلی دفعہ 342 کے تحت یو سی سی سے ایس ٹی کے اخراج پر تبصرہ کرتے ہوئے مدنی نے پوچھا کہ اگر آدی واسیوں کو قانون سے چھوٹ  دی جا سکتی ہے تو ‘شہریوں کے بنیادی حقوق کو تسلیم کرتے ہوئے’ آئین کی دفعہ 24 اور 26 کے تحت مذہبی آزادی کیوں نہیں دی جا سکتی۔’

مدنی نے کہا، جے یو ایچ کی قانونی ٹیم بل کے قانونی پہلوؤں کا جائزہ لے گی اور قانونی کارروائی کا فیصلہ کرے گی۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔ )