خبریں

کسانوں کا ’دلی چلو‘ مارچ شروع، قومی راجدھانی میں دفعہ 144 کے نفاذ کے ساتھ سخت سیکورٹی

مرکزی وزراء کے ساتھ ناکام میٹنگ کے بعد سنیکت کسان مورچہ (غیر سیاسی) اور کسان مزدور سنگھرش سمیتی فصلوں کے لیے کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) کی گارنٹی، سوامی ناتھن کمیشن کی سفارشات پر عمل آوری اور کسانوں کے قرض کی معافی سمیت دیگر مطالبات کو لے کر کسانوں کے احتجاج کے دوسرے مرحلے کی قیادت کر رہے ہیں۔

پنجاب کے علاوہ مختلف صوبوں سے کسان اس احتجاجی مارچ میں شامل ہو رہے ہیں۔ (تصویر بہ شکریہ: اسپیشل ارینجمنٹ)

پنجاب کے علاوہ مختلف صوبوں سے کسان اس احتجاجی مارچ میں شامل ہو رہے ہیں۔ (تصویر بہ شکریہ: اسپیشل ارینجمنٹ)

نئی دہلی: گزشتہ سوموار (12 فروری) کو مرکزی وزراء اور کسانوں کے درمیان ایک اہم میٹنگ میں اتفاق رائے پیدا نہ ہونے کے بعد کسان رہنماؤں نے منگل (13 فروری) کو ‘دلی چلو’ مارچ شروع کر دیا ہے۔

ہندوستان کے مختلف حصوں سے آئے ہزاروں کسانوں نے ہریانہ اور دہلی میں پولیس کی بڑی تیاریوں کے درمیان منگل کو ‘دلی چلو’ مارچ کی شکل میں یہ احتجاج شروع کیا ہے۔ اس کے پیش نظر قومی راجدھانی دہلی کی سرحدوں پر دفعہ 144 کے نفاذ کے ساتھ ہی وسیع حفاظتی انتظامات کیے گئے ہیں۔

این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق، دہلی کی طرف مارچ کرنے والے ہزاروں کسانوں کا کہنا ہے کہ وہ طویل احتجاجی مظاہرہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ان کے پاس مہینوں کے لیے خاطر خواہ  راشن اور ڈیزل ہے، کیونکہ انہیں قومی دارالحکومت میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے سرحدوں کو سیل کر دیا گیا ہے۔

تازہ ترین احتجاج ان کے 2020 کے احتجاج کا اگلا قدم ہے، جس میں انہوں نے 13 ماہ تک سرحدوں پر ڈیرہ ڈالا تھا، جس کے نتیجے میں مرکزی حکومت کو تین متنازعہ زرعی قوانین کو واپس لینا پڑا تھا ۔

مرکز نے 9 دسمبر 2021 کو ان کے دیگر مطالبات پر غور کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ اس کے بعد سنیکت کسان مورچہ (ایس کے ایم) نے ایک سال سے زیادہ عرصے سے جاری ان کی تحریک کو معطل کرنے کا اعلان کیا تھا ۔

این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق، کسانوں نے منگل کی صبح پنجاب کے فتح گڑھ صاحب سے اپنا مارچ شروع کیا ہے۔ کسانوں نے کہا کہ صبر کا امتحان انہیں تب تک احتجاج جاری رکھنے سےنہیں روکےگا،جب تک  ان کے مطالبات پورے نہیں کیے جاتے۔

کسان اپنے ٹریکٹروں کے ساتھ پنجاب کے فتح گڑھ صاحب سے امبالہ کے قریب شمبھو بارڈر کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

پنجاب کے گرداسپور سے احتجاج میں شامل کسان ہربھجن سنگھ اپنے ٹریکٹر پر سامان سے بھری دو ٹرالیاں کھینچ کر دہلی جا رہے ہیں۔

این ڈی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ‘سوئی سے لے کر ہتھوڑے تک، ہماری ٹرالیوں میں وہ سب کچھ ہے ، جو ہمیں چاہیے، جس میں پتھر توڑنے کے آلات بھی شامل ہیں۔ ہم اپنے ساتھ چھ ماہ کا راشن لے کر گاؤں سے نکلے ہیں۔ ہمارے پاس خاطر خواہ ڈیزل، یہاں تک کہ ہریانہ میں اپنے بھائیوں کے لیےبھی ہے۔’

کسانوں کا الزام ہے کہ ان کے مارچ کو ناکام بنانے کے لیے انہیں ڈیزل فراہم نہیں کیا جا رہا ہے۔ سنگھ نے کہا کہ وہ 2020 کے کسانوں کے احتجاجی مظاہرے کا حصہ تھے۔ اس بار وہ اپنے مطالبات پورے ہونے تک پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

انہوں نے کہا، ‘پچھلی بار ہم 13 ماہ تک نہیں جھکے۔ ہم سے وعدہ کیا گیا تھا کہ ہمارے مطالبات پورے کیے جائیں گے، لیکن حکومت نے اپنا وعدہ وفا نہیں کیا۔ اس بار ہم اپنے تمام مطالبات پورے ہونے کے بعد ہی وہاں سے ہٹیں گے۔’

دہلی میں سیکورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے

امن و امان برقرار رکھنے کے لیے دہلی پولیس نے دفعہ 144 نافذ کر دی ہے، جس کے تحت ٹریکٹر ٹرالیوں اور بڑے اجتماعات کے داخلے پر پابندی ہے۔

این ڈی ٹی وی کے مطابق، کسانوں کو شہر میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے دہلی کی قلعہ بندی کر دی گئی ہے۔ اہم سرحدی مقامات – غازی پور، ٹکری اور سنگھو پر بیریکیڈنگ کی گئی ہے۔

اس کے علاوہ ٹریکٹر اور ٹرالیوں کو شہر میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے سڑکوں پر کنکریٹ کے بلاک اور کیلیں لگا ئی گئی ہیں۔ پولیس نے شہر بھر میں عوامی اجتماعات پر ایک ماہ کی پابندی بھی عائد کر دی ہے۔ راستوں میں کئی تبدیلی اور پولیس چیک پوسٹوں کی وجہ سے سرحدی علاقوں سے شدید ٹریفک جام کی اطلاع ملی ہے۔

سوموار کو مرکزی وزراء کے ساتھ میٹنگ کی ناکامی کے بعد سنیکت کسان مورچہ (غیرسیاسی) اور کسان مزدور سنگھرش سمیتی (کے ایم ایس سی) فصلوں کے لیے کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) کی گارنٹی سمیت اپنے دیگر مطالبات کو لے کر کسانوں کے احتجاج کے دوسرے مرحلے کی قیادت کر رہے ہیں۔

کسانوں نے سوامی ناتھن کمیشن کی سفارشات پر عملدرآمد، بجلی ایکٹ 2020 کو منسوخ کرنے اور اتر پردیش لکھیم پور کھیری میں مارے گئے کسانوں کو معاوضہ دینے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

دی منٹ کے مطابق ، رہنماؤں نے دعوی کیا ہے کہ 200 سے زیادہ تنظیموں کے کسان قومی دارالحکومت میں شامل ہوں گے اور جمع ہوں گے۔ انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ کسان ہندوستان کے تمام حصوں سے آتے ہیں، لیکن اطلاعات کے مطابق 90 فیصد سے زیادہ کسان ہریانہ اور دہلی سے ہونے کی امیدہے۔

دہلی اور ہریانہ میں انتظامیہ کسانوں کے احتجاج پر قابو پانے کے لیے وسیع انتظامات کر رہی ہے۔

دہلی کی سرحد سمیت مختلف مقامات پر دفعہ 144 نافذ ہے اور پولیس نے کسان گروپوں کو خبردار کیا ہے کہ اگر وہ قومی دارالحکومت میں داخل ہونے کی کوشش کریں گے تو سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔

پولیس نے کئی جگہوں پر مضبوط رکاوٹیں اور باڑ لگا دی ہے اور کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے کے لیے اپنے آنسو گیس کے گولوں کی جانچ بھی کر رہی ہے۔ دریں اثنا، پولیس نے پنجاب-ہریانہ شمبھو سرحد پر احتجاج کرنے والے کسانوں کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے گولے داغے ہیں۔

اس مظاہرے کو دیکھتے ہوئے دہلی حکومت نے بوانا اسٹیڈیم کو جیل میں تبدیل کرنے کی مرکزی حکومت کی تجویز کو مسترد کر دیا ہے۔ مرکز کی تجویز پر دہلی حکومت کے وزیر داخلہ کیلاش گہلوت نے کہا، ‘کسانوں کے مطالبات حقیقی ہیں۔ پرامن احتجاج ہر شہری کا آئینی حق ہے، اس لیے کسانوں کو گرفتار کرنا غلط ہے۔’

حل تلاش کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی: کسان مزدور سنگھرش سمیتی

پنجاب کسان مزدور سنگھرش سمیتی نے کہا ہے کہ حکومت کے ساتھ تصادم سے بچنے کے لیے حل تلاش کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی ہے۔

خبر رساں ایجنسی اے این آئی کے مطابق، سمیتی کے جنرل سکریٹری سرون سنگھ پنڈھیر نے پنجاب کے فتح گڑھ صاحب میں میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ‘ہم پورے ہندوستان کے سامنے اپنا موقف پیش کرنا چاہتے ہیں کہ ہم نے کل (سوموار) کی بیٹھک میں کسی طرح کافیصلہ لینے کی  پوری کوشش کی، تاکہ ہم حکومت کے ساتھ تصادم سے بچ سکیں اور ہمیں وہ مل سکے جس کی ہمیں امید تھی۔ ہم صرف امید اور یقین کر سکتے ہیں۔ ایسا کرنے کے بعد ہم 5 گھنٹے میٹنگ میں بیٹھے رہے۔’

کسان رہنما پنڈھر نے منگل کو احتجاج کے تناظر میں پنجاب اور ہریانہ کی سرحدوں پر بھاری بیریکیڈنگ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ریاست کی سرحدوں کو ‘بین الاقوامی سرحدوں’ میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے منوہر لال کھٹر حکومت پر ہریانہ میں کسانوں کو ہراساں کرنے کا بھی الزام لگایا۔

پنڈھیر نے کہا، ‘کانگریس پارٹی ہماری حمایت نہیں کرتی ہے۔ ہم کانگریس کو بھی اتنا ہی ذمہ دار مانتے  ہیں ، جتنا بی جے پی کو۔ یہ قانون کانگریس ہی لے کر آئی ہے۔ ہم کسی کی طرف نہیں ہیں، ہم کسانوں کی آواز اٹھاتے ہیں۔’

کسانوں کے مارچ پر مرکزی وزیر ارجن منڈا نے کہا، ‘ہمیں کسانوں کے مفادات کی پرواہ ہے۔ اگر کوئی اس معاملے پر سیاست کر رہا ہے تو اس سے ہماری کوئی سروکار نہیں۔ ہم بات چیت اور چرچہ کے لیے ہمیشہ تیار رہے ہیں اور اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے کو تیار ہیں۔’

انہوں نے کہا، ‘یہ مسئلہ ریاستی حکومتوں سے بھی جڑا ہوا ہے۔ ہمیں اس مسئلے کو سمجھنے اور اسے حل کرنے کا راستہ تلاش کرنے کے لیے وقت درکار ہے۔’

منڈا نے کہا، ‘مشاورت کی ضرورت ہوگی۔ ہمیں ریاستوں کے ساتھ اس پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں بحث کے لیے ایک پلیٹ فارم بنانے اور حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت ہند کسانوں کے مفادات کے تحفظ کی پابند ہے۔ اس (احتجاج) سے عوام کو تکلیف نہیں ہونی چاہیے۔ کسان یونین کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔’

دی وائر کی ایک رپورٹ کے مطابق، مرکزی وزیر خوراک پیوش گوئل اور وزیر زراعت ارجن منڈا کسانوں کے ساتھ ملاقات کا حصہ تھے جو سوموار کو تقریباً پانچ گھنٹے تک جاری رہی۔

میٹنگ کے بعد سنیکت کسان مورچہ (غیرسیاسی) کے کنوینر جگجیت سنگھ ڈلیوال نے میڈیا کو بتایا تھا کہ حکومت ان کے کسی بھی مطالبے کو لے کر سنجیدہ نہیں ہے۔ ان مطالبات میں کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) کو قانونی بنانا، 2020 کے فارم احتجاج کے دوران درج فوجداری مقدمات کی واپسی، کسانوں کے قرضوں کی معافی اور دیگر کئی مسائل شامل ہیں۔

انہوں نے کہا تھا، ‘کچھ مثبت نتائج کی امید کے باوجود وہ (حکومت) کچھ کمیٹیاں بنا کر معاملے کو طول دینے کی کوشش کر رہی تھی، اس لیے ہم نے پلان کے مطابق کل (منگل) صبح 10 بجے دہلی کی طرف مارچ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔’