خبریں

کیا پی ایم مودی گارنٹی دے سکتے ہیں کہ نتیش کمار ایک اور یو—ٹرن نہیں لیں گے: تیجسوی یادو

بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے سوموار کو اسمبلی میں اعتماد کا ووٹ حاصل کر لیا۔ دریں اثنا، آر جے ڈی لیڈر اور سابق نائب وزیر اعلیٰ تیجسوی پرساد یادو نے کہا کہ ‘بغیر کسی جائز وجہ کے’ ساتھ چھوڑنے کے نتیش کمار کے قدم سے مہا گٹھ بندھن حیران اور مایوس ہے۔

تیجسوی یادو۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

تیجسوی یادو۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

نئی دہلی: گزشتہ سوموار (12 فروری) کو ریاستی اسمبلی میں بہار کے وزیر اعلیٰ اور جے ڈی یو سپریمو نتیش کمار کو نشانہ بناتے ہوئے آر جے ڈی لیڈر اور سابق نائب وزیر اعلیٰ تیجسوی پرساد یادو نے بار بار نتیش کو آڑے ہاتھوں لیا۔ تیجسوی نے نتیش پر ان کے بار بار خیمہ بدلنے، مہا گٹھ بندھن سے این ڈی اے میں جانے کے علاوہ ان کے ‘نظریاتی انحطاط اور انحرافی رویے’ کے حوالے سے بھی ان کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

ایوان میں نتیش حکومت کی طرف سے پیش کردہ اعتماد کی تحریک پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے تیجسوی نے نتیش کی قیادت والی مہا گٹھ بندھن حکومت کے 17 مہینے میں بڑے پیمانے پر تقرریوں کی راہ ہموار کرنے کا کریڈٹ لیا۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، تیجسوی نے نئے نائب وزیر اعلیٰ اور بی جے پی لیڈر سمراٹ چودھری اور وجئے کمار سنہا کو بھی نشانہ بنایا۔ انہوں نے سمراٹ کو جے ڈی یو کے سربراہ نتیش کے خلاف ان کے حملوں کی یاد دلاتے ہوئے ان سے اپنی پگڑی اتارنے کو کہا، جو انہوں نے نتیش کے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد ہی ہٹانے کی قسم کھائی تھی۔

انہوں نے وجئے کمار سنہا سے پوچھا کہ کیا انہوں نے کبھی سوچا تھا کہ نتیش کے یو—ٹرن کے بعد وہ تین سال کے اندر اسمبلی اسپیکر، قائد حزب اختلاف اور نائب وزیر اعلیٰ بن سکتے ہیں۔

بغیر کسی غصے کے نتیش کو نشانہ بناتے ہوئے تیجسوی نے کہا، ‘میں آپ کا بہت احترام کرتا ہوں اور مستقبل میں بھی کرتا رہوں گا۔ میں آپ کو ہمیشہ اپنے دشرتھ کی طرح سمجھتا ہوں۔ میں آپ کی اچھی صحت اور لمبی زندگی کی خواہش کرتا ہوں۔ میرا آپ کو مشورہ ہے کہ آپ کو اپنی کیکیئی کو پہچاننا ہوگا۔ دشرتھ نے رام کو بن واس دے دیا تھا، لیکن میں لوگوں کے پاس جانے کا موقع ڈھونڈ رہا ہوں۔ میں حیران ہوں کہ آپ اپنی تازہ ترین تبدیلی کا جواز کیسے پیش کریں گے۔’

جب این ڈی اے کے ایک ایم ایل اے نے انہیں ٹوکا کہ آر جے ڈی لوگوں کو کیا بتائے گی، تیجسوی نے کہا، ‘میں انہیں بتاؤں گا کہ کیسے میں نے انہیں آر جے ڈی (پچھلی مہا گٹھ بندھن حکومت میں) کے تحت محکموں میں بہت ساری نوکریاں دی تھیں۔ ہم نے ثابت کر دیا کہ کس طرح ایک محکمہ (تعلیم) 17 ماہ میں دو لاکھ سے زیادہ نوکریاں  فراہم کر سکتا ہے، یہ ایسی حصولیابی ہے جو کسی حکومت نے حاصل نہیں کی۔’

انہوں نے دعویٰ کیا کہ وزیر اعلیٰ نتیش اور اس وقت کے وزیر خزانہ وجئے کمار چودھری نے فنانس سکریٹری ایس سدھارتھ کو یہ سمجھانے کے لیے ان کے پاس بھیجا تھا کہ حکومت کے پاس بڑے پیمانے پر بھرتی شروع کرنے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا، ‘لیکن میں نے واضح الفاظ میں اصرار کیا کہ یہ کرنا ہی ہوگا  اور یہ کیا گیا۔ یہ تب تھا جب وزیر اعلیٰ نے 2020 کی انتخابی تقریر کے دوران کہا تھا کہ کیا مجھے اپنے والد (آر جے ڈی سربراہ لالو پرساد) سے بڑے پیمانے پر تقرریوں کے لیے پیسے ملیں گے۔ مجھے کریڈٹ کیوں لینا چاہیے؟ میں بی جے پی سے یہ بھی پوچھتا ہوں کہ جب نتیش آپ کو آپ کے کام کا کریڈٹ دینے سے انکار کر دیں گے تو وہ کیا کریں گے۔’

حال ہی میں بھارت رتن سے نوازے گئے آنجہانی کرپوری ٹھاکر پر، تیجسوی نے نتیش سے کہا، ‘لیکن میں آپ کو یہ بھی یاد دلانا چاہتا ہوں کہ یہ جن سنگھ (بی جے پی) ہی تھی جس نے 1979 میں او بی سی اور ای بی سی کے لیے کوٹا لانے کے لیے کرپوری کو وزیر اعلیٰ کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ لیکن اب آپ بی جے پی میں شامل ہو گئے ہیں، جس کے لیے بھارت رتن اعزاز نہیں بلکہ سودے اور ووٹ کی سیاست ہے۔’

‘مودی کی گارنٹی’ کے معاملے پر بی جے پی پر طنز کرتے ہوئے تیجسوی نے پوچھا، ‘کیا پی ایم مودی اس بات کی ضمانت دے سکتے ہیں کہ نتیش کمار ایک اور یو ٹرن نہیں لیں گے؟’

انہوں نے نتیش کو یہ بھی یاد دلایا کہ انہوں نے اگست 2022 میں کس طرح بی جے پی سے علیحدگی اختیار کی تھی اور الزام لگایا تھا کہ وہ جے ڈی یو کو تقسیم کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

تیجسوی نے کہا، ‘بغیر کسی جائز وجہ کے’ ساتھ چھوڑنے کے نتیش  کے قدم سے مہاگٹھ بندھن حیران اور مایوس ہے۔ انہوں نے کہا، ‘آپ (نتیش) نے یہ بھی کہا تھا کہ آپ پی ایم نہیں بننا چاہتے اور صرف بی جے پی کے خلاف اپوزیشن کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔’

معلوم ہو کہ بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے گزشتہ سوموار کو اسمبلی میں اعتماد کا ووٹ حاصل کر لیا ۔ چند ہفتوں کے ڈرامائی واقعات کے بعد انہوں نے آر جے ڈی چھوڑ کر بی جے پی کے ساتھ اتحاد کیا اور ریکارڈ نویں بار وزیر اعلیٰ کے طور پر حلف لیا۔

اپوزیشن (آر جے ڈی، کانگریس اور بائیں بازو) کے واک آؤٹ کے بعد حکمراں اتحاد کو 243 رکنی اسمبلی میں 129 ووٹ ملے، جبکہ اپوزیشن آر جے ڈی کے تین ارکان نے بھی حکومت کی حمایت میں ووٹ کیا۔