الیکشن نامہ

پاکستانی انتخابی نتائج اور ہندوستانی مبصرین کی آراء

پاکستانی انتخابات کے نتائج نے ہندوستان میں بھی مبصرین کو حیران و پریشان کرکے رکھ دیا ہے۔ انتخابات سے قبل تمام اشارے مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کی برتری کی پیشن گوئی کر رہے تھے، کیونکہ اس بار ایک کھلا میدان ان کے حوالے کرکے ان کے حریفوں کو چت کر دیا گیا تھا۔ وہ یا تو جیلوں میں یا مفرور تھے۔ گو کہ جوڑ توڑ سے اقتدار کا ہما نوزاز شریف کے سر پر ایک بار پھر بیٹھ سکتا ہے، مگر اس حکومت میں اقبال موجود نہیں ہوگا۔ اس کے پائے دیمک زدہ حلیفوں کی بیساکھیوں کے رحم و کرم پر ہوں گے۔ ان حالات میں ایک طاقتور اپوزیشن قابل رشک پوزیشن میں ہوگی۔

بائیں سے دائیں نواز شریف، عمران خان اور بلاول بھٹو زرداری۔ تصویر: آفیشل ایکس اکاؤنٹ

بائیں سے دائیں نواز شریف، عمران خان اور بلاول بھٹو زرداری۔ تصویر: آفیشل ایکس اکاؤنٹ

چند برس قبل ہندوستانی دارالحکومت دہلی میں صحافیوں کی ایک انجمن کا الیکشن ہو رہا تھا، جس میں ایک سینئر صحافی کپور صاحب کو دوستوں نے صدارتی کرسی پر بٹھانے کے لیے میدان میں اتارا۔ وہ اس کے اہل بھی تھے۔ ان کے مقابل دو اور امیدوار تھے، مگر چونکہ کپور صاحب خاصے سینئر اور سبھی کے کام آنے والے مقبول صحافی تھے، اس لیے ان کا جیتنا ایک رسمی کارروائی لگتی تھی۔

پریس انفارمیشن بیورو میں کسی صحافی کا کام پھنسا ہوا ہو، تو کپور صاحب حاضر۔ کسی وزیر کے ساتھ ملاقات طے نہیں ہوتی تھی، تو کپور صاحب چٹکیوں میں یہ مسئلہ حل کردیتے تھے۔ مگر ووٹنگ کرتے وقت احباب کے دل میں نہ جانے کیسے یہ خیال آیا کہ کپور صاحب تو جیت ہی رہے ہیں، کیوں نہ ایک آدھ ووٹ باقی دو افراد کو دیا جائے، تاکہ ان کی سبکی نہ ہو۔

اس یقین کی وجہ سے کپور صاحب نے بھی کیمپینگ ڈھیلی رکھی تھی۔ جب نتائج آگئے، تو معلوم ہوا کہ کپور صاحب کو بس چار ووٹ ملے ہیں۔

کپور صاحب نے پریس کلب آنا چھوڑ دیا، جن احباب نے ان کو مجبور کرکے انتخابات میں اتارا تھا وہ ان سے ناراض ہوگئے۔ ایک دن جب ملے تو بتایا کہ تین ووٹ کا تو پتہ ہے، کس نے دیے، مگر یہ چوتھا ووٹ، جس نے دیا، اگر پتہ چلے تو اس کی خوب پٹائی کروں گا۔ کیونکہ اس کے نام پر ابھی تک کئی سو افراد بتا چکے ہیں کہ انہوں نے ووٹ دیا تھا۔ یہی حال کچھ 8 فروری کو ہوئے پاکستانی انتخابات کا بھی ہوا۔

پاکستانی انتخابات کے نتائج نے ہندوستان میں بھی مبصرین کو حیران و پریشان کرکے رکھ دیا ہے۔ انتخابات سے قبل تمام اشارے مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کی برتری کی پیشن گوئی کر رہے تھے، کیونکہ اس بار ایک کھلا میدان ان کے حوالے کرکے ان کے حریفوں کو چت کر دیا گیا تھا۔ وہ یا تو جیلوں میں یا مفرور تھے۔ گو کہ جوڑ توڑ سے اقتدار کا ہما نوزاز شریف کے سر پر ایک بار پھر بیٹھ سکتا ہے، مگر اس حکومت میں اقبال موجود نہیں ہوگا۔ اس کے پائے دیمک زدہ حلیفوں کی بیساکھیوں کے رحم و کرم پر ہوں گے۔ ان حالات میں ایک طاقتور اپوزیشن قابل رشک پوزیشن میں ہوگی۔

مجھے یاد ہے کہ 1996کے انتخابات میں پہلی بار اٹل بہاری واجپائی کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) 161 سیٹیں لے کر پہلے نمبر پر آگئی تھی، مگر اقتدار تک پہنچے کے لیے 543 رکنی ایوان میں 272سیٹیں لانا لازمی ہوتا ہے۔ کانگریس 140 سیٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر تھی۔

واجپائی کو صدر شنکر دیال شرما نے حکومت سازی کی دعوت دی، مگر تیرہ دن بعد انہوں نے استعفیٰ دےکر اپوزیشن میں بیٹھنے کو ترجیح دی۔محض 46 سیٹوں والی پارٹی جنتا دل نے کانگریس کی باہری مدد سے اقتدار سنبھالا، جس کے لیڈران پہلے دیوے گوڑا اور بعد میں اندر کمار گجرال وزیر اعظم بنے۔

گو کہ اقتدار ان کے پاس تھا، مگر ان دنوں غیر ملکی مندوبین سے لےکر افسر شاہی واجپائی کی خاطر مدارت کرتی نظر آتی تھی۔ ان دنوں جب ناوابستہ ممالک کے وزراء خارجہ کا اجلاس ہندوستان میں منعقد ہوا تو وزیر اعظم دیوے گوڑا کے بجائے مندوبین واجپائی کے اردگرد منڈلا رہے تھے۔ اس دوران جب ایک پارلیامانی وفد یورپ کے کسی ملک کے دورے پر گیا ہوا تھا، بی جے پی کے ایک لیڈر آنجہانی پرمود مہاجن اس کے ایک رکن تھے۔

وہ اس دورے کی رودار بتاتے ہوئے کہتے تھے کہ جب ہمارا تعارف ہوتا تھا، تو یہ بتایا جاتا تھا کہ مہاجن ہندوستانی پارلیامان میں سب سے بڑی پارٹی کے رکن ہیں۔ دوسرا رکن کانگریس سے تعلق رکھتا ہے اور وہ دوسری بڑی پارٹی ہے۔ مگر دونوں اپوزیشن میں ہیں۔ اور تیسرا رکن جس کے پچاس اراکین بھی نہیں ہیں، حکومت میں ہے۔

ان کے میزبان بیچارے چکرا جاتے تھے۔ لگتا ہے کہ یہی حال اب شاید پاکستانی سیاست کا ہونے والا ہے۔  واجپائی کو بس دو سال ہی انتظار کرنا پڑا۔ 1998کو وہ پہلے تیرہ ماہ کے لیے اور پھر 1999میں پورے پانچ سال تک وزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہے۔

ہندوستانی خفیہ ایجنسی انٹلی جنس بیورو یعنی آئی بی کے سابق نائب سربراہ انیویش موھانانی کے مطابق پاکستانی انتخابات کے نتائج کے سلسلے میں خفیہ ایجنسیوں اور سیاسی مبصرین کی پیشن گوئیاں غلط ثابت ہوئیں۔ہندوستان میں اپریل اور مئی میں خود عام انتخابات ہونے والے ہیں، اس لیے خفیہ ایجنسیوں نے نواز شریف کو ذہن میں رکھتے ہوئے، نئی حکومت کے لیے سفارشات تیار رکھی ہوئی تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے امریکہ کے خلاف نفرت سے زیادہ اپنے آپ کو سمجھوتہ نہ کرنے والا پیش کرکے پاکستانی عوام کا دل جیت لیا۔ جنوبی ایشیا میں خاص طور پر نوجوان نسل ایک اٹل، بے باک اور غیر متزلزل لیڈر کو پسند کرتے ہیں، جس نے جلا وطنی کے بجائے جیل میں رہنے کو ترجیح دی۔

ان کا کہنا ہے کہ نواز شریف یقیناً فوج کی مدد سے پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت سازی کریں گے، مگر اس حکومت کا اعتماد متزلل ہوگا اور بین الاقوامی طور پر بھی اس کی ساکھ متاثر ہوگی۔ آئی ایم ایف ہو یا کوئی اور غیر ملکی مندوب، وہ حکومت سے زیادہ  اپویشن لیڈر کو رام کرنے میں لگے گا، جیسی صورت حال ہندوستان میں 1996سے 1998تک تھی یا اسے قبل جب راجیو گاندھی 1989سے 1991تک اپوزیشن لیڈر تھے۔

پاکستان میں ہندوستان کے آخری ہائی کمشنر اجئے بساریا کا کہنا ہے کہ نوز شریف کے تجربہ سے یہ امید رکھنی چاہیے کہ وہ مفاہمت پر مبنی سیاست کرکے سبھی طاقتوں کو ایک پیج پر لاکر فوج کو بھی قائل کرنے کا کوئی راستہ نکال دیں گے۔

اسی طرح ایک اور سابق سفارت کار وویک کاٹجو کا بھی کہنا ہے کہ پاکستان عوام نے جس طرح کا ووٹ دیا ہے، اس کو دیکھ فوج کو اب داخلی سیاست میں مداخلت سے پرہیز کرکے قومی سلامتی پر ہی توجہ دینی چاہیے۔

پاکستان میں ہندوستان کے ایک اور سابق ہائی کمشنر ٹی سی اے راگھون کا کہنا ہے کہ ان انتخابات نے ان کے اندازے بھی غلط ثابت کردیے۔ ان کے مطابق اگر عمران خان کو سطح کا میدان مل جاتا، تو وہ شاید دو تہائی سے زائد اکثریت لا سکتے تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ نواز شریف اور ان کو لانے والوں کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ اس دھچکے کے اثرات دیرپا ہوں گے۔ فی الحال بغیر منڈیٹ کی حکومت کے ساتھ بین الاقوامی برادری کیسے معاملات طے کرے گی ایک مسئلہ ہوگا ۔ یعنی ان کے مطابق فی الحال پاکستان کے بارے میں پر امید ہونا مشکل ہے۔

ہندوستان کی سب سے بڑی اپوزیشن کانگریس اور اس کے روح رواں راہل گاندھی کا خاندان روایتی طور پر خود کو بھٹو خاندان سے زیادہ قریب محسوس کرتا ہے‘جس کا اظہار متعدد مواقع پر ہوتا بھی رہا ہے۔

تاہم ہندوستانی سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ بھٹو خاندان کے مقابلے نواز شریف کو زیادہ بااعتماد و بااثر مان کر اس کے ساتھ زیادہ اطمینان محسوس کرتا رہا ہے۔عمران خان کے بارے میں عمومی تاثر تھا کہ وہ فوج کے زیر اثر ہیں، اس لیے اس کے بجائے براہ راست فوج سے ہی معاملات طے کیے جائیں۔

مگر اب ایک نئی صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے  پاکستان کی نئی حکومت ہوشمندی سے کام لے کر ویٹ اینڈ واچ کی پالیسی اپنا کر ہندوستان کے عام انتخابات کے مکمل ہونے تک ملک کے دیگر اداروں اور سیاسی جماعتو ں کے ساتھ مل کر اتفاق رائے پیدا کرے اور جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک نیز دیگر پڑوسیوں ایران و افغانستان کے ساتھ تعلقات کو مزید بہتر بنانے اور ایک اقتصادی بلاک کو کھڑا کرنے کے لیے عملی اقدامات کا آغاز کرے، چاہے اس کے لیے کتنی ہی مراعات دینی پڑیں۔

اگرچہ نواز شریف اپنی انتخابی تقریروں میں ہندوستان کے ساتھ خوشگوار تعلقات کی بحالی کی بات کرتے آرہے ہیں لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ سب کچھ ان کو اقتدار میں لانے والوں پر اور پھر ہندوستان کی اگلی حکومت کے رویہ پر منحصر ہے۔

نواز شریف کا ہندوستان میں اور پیپلز پارٹی کا مغربی دنیا میں اچھا اثر و رسوخ ہے۔ان دونوں پارٹیوں کا اگرگٹھ جوڑ بنتا ہے، تو اس خیر سگالی کو کشمیری عوام کی مشکلات آسان کرنے کے لیے استعمال کریں، تو بہت اچھا ہوگا۔