خبریں

اتراکھنڈ ٹنل میں پھنسے مزدوروں کو بچانے والے کے گھر چلا بلڈوزر، بیوی نے کہا- مسلمان ہونے کی وجہ سے بنایا گیا نشانہ

اترکاشی کی سلکیارا سرنگ میں پھنسے 41 مزدوروں کو بچانے میں جب جدید ترین مشینیں اور غیرملکی ماہرین ناکام ہو گئے تھے، تب وکیل حسن کی قیادت میں ریٹ مائنرس کی ٹیم نے بچاؤ آپریشن کو انجام تک پہنچایا تھا۔ اب دہلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے وکیل کے مکان کو غیر قانونی قرار دے کر منہدم کر دیا ہے۔

سلکیارا ٹنل کے دہانے پر بچاؤ اہلکار۔ (فائل فوٹو: X/@KirenRijiju)

سلکیارا ٹنل کے دہانے پر بچاؤ اہلکار۔ (فائل فوٹو: X/@KirenRijiju)

نئی دہلی: ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب وکیل حسن اترکاشی میں سلکیارا سرنگ کےسینکڑوں فٹ نیچے پھنسے 41 کارکنوں کو بچانے کے آپریشن کی قیادت کرنے والے قومی ہیرو کے طور پر پہچانے  گئے  تھے، لیکن اب دہلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ڈی ڈی اے) نےان کے مکان کو ایک توڑپھوڑ مہم میں ‘غیر قانونی’ قرار دے کر منہدم کر دیا ہے۔

بتادیں کہ 27 گھنٹے سے بھی کم وقت میں حسن اور ان کی ریٹ مائنرس کی ٹیم نے معمولی اوزاروں کی مدد سےسینکڑوں ٹن کنکریٹ کی کھدائی کر کے تیزی سے 41 لوگوں کو بچانے کا راستہ بنایا تھا، جبکہ 17 دنوں تک دنیا کے بڑے—بڑے انجینئر اور جدیدترین مشینیں بھی یہ کام کرنے میں ناکام رہی تھیں۔ اس کے بعد وکیل اور ان کی غریب ریٹ مائنرس کی ٹیم قومی سرخیوں میں چھا گئی تھی، جن کو پہلے کو ئی جانتا تک نہیں تھا۔

وزیر اعظم نریندر مودی اور صدر دروپدی مرمو دونوں نے ہی ریٹ مائنرس  کی ٹیم کی ان کی بہادری کے لیے تعریف کی تھی، لیکن آج وکیل، ان کا خاندان اور ان کے دوست خود کو تنہا اور ٹھگا ہوا محسوس کر رہے ہیں۔

جب ڈی ڈی اے کے اہلکار پڑوس میں پہنچے تو وکیل اور ان کی اہلیہ شبانہ اپنے گھر پر نہیں تھے۔ وکیل کی بیٹی علیزہ بتاتی ہیں کہ ‘انہوں نے ہمارا دروازہ کھٹکھٹایا اور کہا کہ وہ ہمارے پڑوسی ہیں، لیکن میں نے دروازہ نہیں کھولا۔’

انہوں نے بتایا، ‘وہ بدتمیزی سے بات کر رہے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ پاپا ابھی یہاں نہیں ہیں تو انہوں نے مجھے دروازہ کھولنے کو کہا۔ جب میں نے دروازہ نہیں کھولا تو انہوں نے کہا کہ وہ اسے توڑ دیں گے۔ میں نے ان سے پاپا کا انتظار کرنے کو کہا، لیکن وہ گھر میں داخل ہو گئے۔ انہوں نے میرے بھائی کو مارا اور اسے دور لے گئے۔ پاپا کو بھی پولیس تھانے لے جایا گیا اور ان کا فون بھی چھین لیا گیا۔ جب منا قریشی چاچا نے انہیں روکنے کی کوشش کی، تو انہوں نے انہیں تھپڑ مارا۔’

دی وائر نے مقامی پولیس سے رابطہ کیا، لیکن وہ تبصرہ کے لیے دستیاب نہیں تھی۔

وکیل نے الزام لگایا کہ انہیں ڈی ڈی اے کی طرف سے نوٹس نہیں دیا گیا تھا اور شمال—مشرقی دہلی سے بی جے پی کے رکن پارلیامنٹ منوج تیواری اور دیگر سینئر بی جے پی لیڈروں نے ان سے ان کا گھر بچانے کا وعدہ کیا تھا۔ وکیل نے کہا، ہم  نے جو کیا اس کے لیے میں نے کوئی انعام نہیں مانگا۔ میں  صرف اپنا گھر چاہتا تھا اور وہ بھی مجھ سے چھین لیا گیا ہے۔ ‘

شبانہ کو شبہ ہے کہ وکیل کو ان کے مسلمان ہونے کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا۔

وہ کہتی ہیں، ‘انہوں نے آس پاس کے گھروں کو نشانہ نہیں بنایا۔ مجھے اسے کیسے دیکھنا چاہیے؟ نسل پرستی؟… کیا انہوں نے وکیل کا گھر اس لیے توڑ دیا کہ وہ مسلمان ہے؟ اگر وہ کوئی سنجے، راکیش یا رام ہوتے تو حکومت انہیں فوراً نوکری دے ہی دیتی، ان کے بچوں کو اچھے اسکول میں داخلہ  دلا دیا ہوتا، انہوں نے ان کے لیے ایک نیا گھر بنایا  ہوتا، یا شاید ان کے نام پر کوئی مجسمہ لگا دیتے۔ لیکن، انہوں نے میرے شوہر کے سر سے چھت بھی چھین لی ہے۔’

اپنی پریس ریلیز میں ڈی ڈی اے نے دعویٰ کیا ہے کہ ملحقہ مکان کے پاس لیگل اسٹے آرڈر تھا۔

اپنی پریس ریلیز میں ڈی ڈی اے نے واضح کیا ہے کہ انہدامی کارروائی سے پہلے یا اس کے دوران کسی بھی وقت، ڈی ڈی اے کے حکام کو اتراکھنڈ سرنگ میں پھنسے کارکنوں کے بچاؤ آپریشن میں وکیل کی حالیہ خدمات کے بارے میں جانکاری نہیں تھی۔

پریس ریلیز میں کہا گیا، ‘دیر شام، جب یہ حقیقت سامنے آئی تو ڈی ڈی اے حکام نے وکیل اور ان کے اہل خانہ کے پناہ کے متبادل انتظامات کرنے کے بعد ان سے رابطہ کیا۔ تاہم، وکیل نے کسی بھی مجوزہ امدادی آپشن سے فائدہ اٹھانے سے انکار کر دیا اور اسی جگہ پر یا وہیں کسی قریبی جگہ پر ایک مستقل مکان کا مطالبہ کیا۔’

(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔ )