خبریں

الیکٹورل بانڈ کے حوالے سے ایس بی آئی کو دی گئی ڈیڈ لائن ختم، الیکشن کمیشن نے خاموشی اختیار کی

ایس بی آئی نے 5 مارچ کو عدالت عظمیٰ سے سیاسی جماعتوں کے ذریعے خریدے گئے یا کیش کرائے گئے تمام الیکٹورل بانڈز کی تفصیلات فراہم کرنے کے لیے 30 جون تک کا وقت مانگا تھا۔اس کے بعد  سے پبلک سیکٹر کے اس سب سے بڑے بینک کے کام کاج کو لے کر کئی طرح کے سوال اٹھ رہے ہیں۔

(علامتی تصویر بہ شکریہ: فلکر/مونیٹو)

(علامتی تصویر بہ شکریہ: فلکر/مونیٹو)

نئی دہلی: الیکشن کمیشن کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ اسٹیٹ بینک آف انڈیا (ایس بی آئی) نے 2019 سے خریدے گئے اور کیش کرائے  گئے الیکٹورل بانڈ کے بارے میں جانکاری فراہم کرنے کے لیے سپریم کورٹ کی 6 مارچ کی ڈیڈ لائن کی تعمیل کی ہے یا نہیں، اس پر اس کے پاس ‘کوئی جانکاری یا تبصرہ کرنے کے لیے کچھ نہیں’ ہے۔

اس بارے میں کچھ نہیں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے جانکاری کے لیے ایس بی آئی سے رابطہ کیا ہے یا نہیں۔

الیکشن کمیشن، وزارت خزانہ اور وزارت قانون سپریم کورٹ کے الیکٹورل بانڈ کو ‘غیر آئینی’ قرار دینے والے فیصلے پر خاموش ہیں۔

ایس بی آئی نے سوموار (5 مارچ) کو سپریم کورٹ میں ایک عرضی دائر کی تھی جس میں سیاسی جماعتوں کے ذریعے خریدے گئے یا کیش کرائے گئے تمام الیکٹورل بانڈ کی تفصیلات کا انکشاف کرنے کے لیے 30 جون تک کا وقت مانگا گیا تھا، جس کی وجہ سے ہندوستان کے پبلک سیکٹر کے اس سب سے بڑے بینک کے تئیں اس کے ذریعے سیاسی جماعتوں کو جاری کیے گئے تقریباً کروڑوں روپے کے بارے میں جانکاری نہ ہونے کے حوالے سے عدم اعتماد کا ماحول بن رہا ہے۔

ایس بی آئی پر کڑی تنقید کرنے والی تنظیم بینک ملازمین کی ٹریڈ یونین بینک ایمپلائز فیڈریشن آف انڈیا (بی ای ایف آئی) ہے، جس نے کہا ہے کہ اسٹیٹ بینک کو سپریم کورٹ کی طرف سے دی گئی ڈیڈ لائن کی تعمیل کرنی چاہیے ۔

بی ای ایف آئی میں کامرشیل بینکوں، ریزرو بینک آف انڈیا، نابارڈ، علاقائی دیہی بینکوں اور کوآپریٹو بینکوں کے ملازمین شامل ہیں۔ یونین نے کہا کہ پبلک سیکٹر کے بینکوں اور ان کے ملازمین کو ‘حکمراں  طاقتوں کے تنگ سیاسی مفادات’ کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

یونین نے سپریم کورٹ سے توسیع مانگتے ہوئے ایس بی آئی کی طرف سے دی گئی وجوہات پر شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔

یونین نے اپنے سکریٹری ایس ہری راؤ کے دستخط والا ایک بیان کولکاتہ سے جاری کرتے ہوئے کہا، ‘ہندوستان کے سب سے بڑے بینک ایس بی آئی نے جو وجہ بتائی ہے کہ کچھ ڈیٹا فزیکلی سیل بند لفافے میں ہے، آج کے ڈیجیٹل دور میں، خاص طور پر بینکنگ سیکٹر میں— جب زیادہ تر جانکاری ماؤس کے ایک کلک پر دستیاب ہوتی ہے- کئی  لوگ یہ جان کر حیران ہیں۔’

اس میں یہ بھی کہا گیا ہے، ‘حال ہی میں، یہ دیکھا گیا ہے کہ پبلک سیکٹر کے بینکوں اور ان کے عملے کو حکمران طاقتوں کے تنگ سیاسی مفاد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، جیسے کہ تقسیم کی ہولناکی کے یادگاری دن، وکست بھارت سنکلپ یاترا وغیرہ کے انعقاد کے معاملے میں۔ ہم ایسی سرگرمیوں پر اپنے شدید احتجاج کا اظہار کرتے ہیں کہ جب وقت کی اہم ضرورت ہے کہ بینکنگ انڈسٹری میں مزید بھرتیاں کی جائیں اور مختلف ذرائع سے عوامی پیسے کی لوٹ مار کو روکا جائے۔

الیکٹورل بانڈ پر سپریم کورٹ کے فیصلے کو ‘تاریخی’ قرار دیتے ہوئے یونین نے کہا، ‘ملک نے دیکھا ہے کہ فیصلے کے 17 دن بعد ایس بی آئی نے 4 مارچ 2024 کو سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی، 6 مارچ 2024 کی ڈیڈ لائن سے عین دو روز قبل، اور عدالت کی ہدایت پر عمل کرنے کے لیے 30 جون 2024 تک کا وقت مانگا، اس وقت تک آئندہ عام انتخابات مکمل ہو جائیں گے۔’

سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس دیپک گپتا، جو 2019 میں اس بنچ کا حصہ تھے جس نے ایس بی آئی کو الیکٹورل بانڈ کا ریکارڈ برقرار رکھنے کا حکم دیا تھا، نے اس ہفتے کے شروع میں دی وائر سے کہا تھا کہ انہیں ایس بی آئی کی طرف سے اضافی وقت مانگنے کے دوران دی گئی  وجہ پر یقین نہیں  ہوا۔

انہوں نے کہا تھا، ‘ایک بار جب عدالت نے ہدایت دی تھی کہ آپ یہ جانکاری اپنے پاس رکھیں گے، تو اس کو اس طرح رکھناان کی ذمہ داری تھی کہ جب کوئی عدالت ان سے اس کا انکشاف  کرنے کے لیے کہے تو وہ جلد از جلد اس کا انکشاف کر  سکیں۔ ایسا نہیں کہ وہ اس کا انکشاف کرنے میں مہینوں لے لیں۔

(بی ای ایف آئی  کے مکمل بیان کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔ )