خبریں

الیکٹورل بانڈ کی تفصیلات آسانی سے دستیاب؛ ایس بی آئی نے عدالت سے بہانہ بنایا ہے: سابق فنانس سکریٹری

پہلی بار الیکٹورل بانڈ پیش کیے جانے کے وقت اقتصادی امور کے سکریٹری رہے سابق فنانس سکریٹری سبھاش چندر گرگ کا کہنا ہے کہ اسٹیٹ بینک آف انڈیا کو الیکٹورل بانڈ کی جانکاری، جسے سپریم کورٹ نے بینک سے الیکشن کمیشن کو دینے کے لیے کہا ہے، دستیاب کرانے کے لیے ‘ایک دن سے زیادہ کی ضرورت’ نہیں ہے۔

کرن تھاپر اور سابق فنانس سکریٹری سبھاش چندر گرگ۔ (تصویر: دی وائر)

کرن تھاپر اور سابق فنانس سکریٹری سبھاش چندر گرگ۔ (تصویر: دی وائر)

نئی دہلی: سابق فنانس سکریٹری سبھاش چندر گرگ، جو پہلی بار الیکٹورل بانڈ پیش کیے جانے کے وقت اقتصادی امور کے سکریٹری تھے، کا کہنا ہے کہ اسٹیٹ بینک آف انڈیا (ایس بی آئی) کو الیکٹورل بانڈ کی جانکاری، جسے سپریم کورٹ نے بینک سے الیکشن کمیشن کو دینے کے لیے کہا ہے ، دستیاب کرانے کے لیے ‘ایک دن سے زیادہ کی ضرورت’ نہیں ہے۔

گرگ کا کہنا ہے کہ یہ جانکاری آسانی سے دستیاب ہے – ایک بٹن کے کلک پر۔

دی وائر کے لیے سینئر صحافی کرن تھاپر کو دیے گئے ایک انٹرویو میں گرگ نے کہا کہ اسٹیٹ بینک نے یا الیکشن کمیشن کو دی جانے والی  چھ جانکاری کی سادہ نوعیت کو یا تو جان بوجھ کر غلط سمجھا ہے یا وہ سمجھنے میں ناکام رہا ہے اور اس کے بجائے، بینک کا دعویٰ ہے کہ اسے مختلف قسم کی معلومات جمع کرنے کے لیے کہا گیا ہے، جوکہ اس کو  نہیں کہا گیا  تھا۔ دوسرے لفظوں میں، بینک نے اہم، سادہ چیزوں کو مزید پیچیدہ اور طویل عرصے تک جاری رہنے والا بنا دیا ہے۔ جس سے ایس بی آئی کو یہ دلیل دینے کی بنیاد ملتی ہے کہ اسے 30 جون تک مزید ساڑھے تین مہینے ملنے چاہیے۔

گرگ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے صرف چھ سیدھی  جانکاریاں طلب کی تھیں: بانڈ کس نے خریدے، کس تاریخ اور رقم اور یہ بھی کہ کس پارٹی کو بانڈ موصول ہوئے، انہیں  کب کیش کرایا گیا اور اس کی رقم۔ یہ معلومات آسانی سے دستیاب ہیں۔ 2018 کے الیکٹورل بانڈ کے رہنما خطوط کے مطابق، اسے کسی بھی عدالت میں مانگے جانے پر دیا جانا چاہیے اور جسٹس دیپک گپتا نے انکشاف کیا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کی اس بنچ کا حصہ تھے جس نے بینک کو 2019 میں اس طرح کے ریکارڈ کو رکھنے کا حکم دیا تھا۔

گرگ نے یہ بھی کہا کہ ان کا ماننا ہے کہ سال 2019 میں اس تاریخ تک فروخت کیے گئے الیکٹورل بانڈ کی تفصیلات سیل بند لفافے میں سپریم کورٹ کو دی گئی تھیں۔ اس وقت نہ تو بینک کو اضافی وقت کی ضرورت پڑی تھی اور نہ ہی اس نے اضافی وقت مانگا تھا۔ انہوں نے پوچھا، ‘اب انہیں 2019 کے بعد کی مدت کے لیے اسی طرح کی تفصیلات دینے کے لیے اضافی وقت کی ضرورت کیوں ہے؟’

گرگ کا خیال ہے کہ اسٹیٹ بینک سپریم کورٹ کی طرف سے مقرر کردہ 6 مارچ کی ڈیڈ لائن کو پورا کرنے میں ناکام ہو کر پہلے ہی توہین عدالت کا قصوروار ہے۔ واضح ہو کہ ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز نے ایس بی آئی کے خلاف عدالت کی توہین کا مقدمہ دائر کیا ہے ۔

کیا یہ ایس بی آئی  کی شبیہ اور سالمیت کے لیے آزمائش کا وقت ہے؟ کیا ایس بی آئی انتظامیہ اس کے لیے شرمندہ ہوگی؟ اگر بینک توہین کا مرتکب پایا جاتا ہے تو اس کا کیا اثر ہوگا؟ گرگ نے اس انٹرویو میں ان مسائل پر بھی بات کی ہے۔ مکمل انٹرویو نیچے دیے گئے لنک پر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔