کیجریوال کی گرفتاری پر بیان کے معاملے میں ہندوستان کے امریکی سفارت کار گلوریا بربینا کو طلب کرنے کے چند گھنٹے بعد ہی امریکہ نے اس بات کا اعادہ کیا کہ وہ ان کارروائیوں پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے اور منصفانہ، شفاف، بروقت قانونی عمل کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔
نئی دہلی: دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کی گرفتاری کے معاملے میں امریکہ کے ریمارکس پر سخت اعتراض کرتے ہوئے ہندوستان کی وزارت خارجہ نے بدھ (28 مارچ) کو ایک سینئر امریکی سفارت کار کو طلب کیا۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، حالاں کہ ،اس سمن کے چند گھنٹے بعد ہی امریکہ نے اس بات کا اعادہ کیا کہ وہ ان کارروائیوں پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے اور منصفانہ، شفاف، بروقت قانونی عمل کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔
اس سلسلے میں امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے کہا، ‘ہم دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کی گرفتاری سمیت ان کارروائیوں کی کڑی نگرانی کرتے رہیں گے۔ ہم کانگریس پارٹی کے ان الزامات سے بھی واقف ہیں کہ ٹیکس حکام نے ان کے کچھ بینک کھاتوں کو اس طرح سے فریز کر دیا ہے کہ آئندہ انتخابات میں مؤثر طریقے سے مہم چلانا مشکل ہو جائے گا۔ ہم ان مسائل میں سے ہر ایک کے لیے منصفانہ، شفاف اور بروقت قانونی عمل کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔’
بتادیں کہ میتھیو ملر کیجریوال کی گرفتاری پر تبصرے کے حوالے سےہندوستان کے امریکی سفارت کار کو طلب کرنے اور پر کانگریس کے بینک اکاؤنٹ کو ضبط کرنے سمیت حالیہ سیاسی بحران اور سیاسی ہلچل اور انتخاب سےقبل اپوزیشن کے خلاف کریک ڈاؤن کے حوالے سے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سوالوں کا جواب دے رہے تھے۔
اس بات چیت کے دوران انہوں نے کہا، ‘آپ کے پہلے سوال (سفارت کار کو بلانے) کے بارے میں، میں کسی نجی سفارت کار کی بات چیت کے بارے میں بات نہیں کرنے جا رہا ہوں، لیکن یقیناً ہم نے عوامی سطح پر جو کہا ہے وہی میں نے یہاں سے بھی کہا ہے کہ ہم غیر جانبدار شفاف اور بروقت قانونی عمل کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں ۔ ہمیں نہیں لگتا کہ اس پر کسی کو کوئی اعتراض ہونا چاہیے۔’
واضح ہو کہ اس سے قبل وزیر اعلیٰ کیجریوال کی گرفتاری کے حوالے سے وزارت خارجہ نے جرمنی کے تبصروں کے خلاف سخت احتجاج درج کرانے کے لیے جرمن مشن کے نائب سربراہ جارج اینزویلر کو طلب کیا تھا۔ اس کے بعد اب سینئر امریکی سفارت کار گلوریا بربینا کو طلب کیا گیا جو کہ امریکی سفارت خانے میں شعبہ امور عامہ کی سربراہ ہیں۔
بدھ کو جب جرمن وزارت خارجہ کے ترجمان سے برلن میں سفارت کاروں کو بلانے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ انہیں اس بارے میں بہت کم معلومات ہیں۔
انہوں نے کہا، ‘دراصل یہ مسئلہ گزشتہ ہفتے میرے ساتھی نے اٹھایا تھا۔ میرے پاس اس سلسلے میں کوئی اپڈیٹ نہیں ہے۔ لیکن میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جیسا کہ آپ لوگوں نے بتایا، اس موضوع پر سنیچر کو ہندوستانی فریق کے ساتھ بات چیت ہوئی اور میں ایک بار پھر اس بات پر زور دینا چاہتا ہوں کہ ہم (ہندوستان اور جرمنی) قریبی تعاون اور اعتماد کے ماحول میں مل کر کام کرنے میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ایسے، میں یہاں خفیہ اندرونی بات چیت کے بارے میں بات کرنا پسند نہیں کروں گا۔’
دوسری جانب، امریکی بیان محکمہ خارجہ کے سابقہ تبصروں کا اعادہ تھا۔ منگل (26 مارچ) کو رائٹرز نے بتایا کہ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے ایک ای میل سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ ‘ہم وزیر اعلیٰ کیجریوال کے لیے ایک منصفانہ، شفاف اور بروقت قانونی عمل کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔’
بدھ کو، وزارت خارجہ کے سرکاری ترجمان رندھیر جیسوال نے ‘ہندوستان میں قانونی کارروائی کے بارے میں’ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کے ریمارکس پر ‘سخت اعتراض’ ظاہر کیا۔
انہوں نے کہا، ‘سفارت کاری میں ریاستوں سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ دوسروں کی خودمختاری اور اندرونی معاملات کا احترام کریں۔ یہ ذمہ داری ساتھی جمہوریتوں کے معاملے میں اور بھی زیادہ ہے۔ بصورت دیگر یہ ایک غیر صحت بخش نظیر قائم کر سکتا ہے۔’
انہوں نے مزید کہا، ‘ہندوستان کا قانونی عمل ایک آزاد عدلیہ پر مبنی ہے جو معروضی اور بروقت نتائج کے لیے پرعزم ہے۔ اس پر الزام لگانا نامناسب ہے۔’
قابل ذکر ہے کہ گزشتہ دو ہفتوں میں یہ دوسرا موقع ہے جب ہندوستان نے امریکہ کے خلاف جوابی کارروائی کی ہے۔ اس سے قبل، شہریت (ترمیمی) ایکٹ (سی اے اے) پر امریکی تنقید کا جواب دیتے ہوئے، ہندوستان نے 15 مارچ کو کہا تھا کہ یہ ایک ‘اندرونی معاملہ’ ہے۔ سی اے اے کو ‘انسانی حقوق کا حامی’ قرار دیتے ہوئے وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا تھا کہ ‘جہاں تک اس قانون کے نفاذ سے متعلق امریکی محکمہ خارجہ کے بیان کا تعلق ہے، ہمارا خیال ہے کہ یہ غلط اور نامناسب ہے۔’
بتادیں کہ وزارت خارجہ نے اروند کیجریوال کی گرفتاری سے متعلق جرمنی کے بیان پر سخت اعتراض کیا تھا اور جرمن مشن کے ڈپٹی چیف کو فوری طور پر طلب کیا تھا۔ جرمنی نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ وہ اس خبر پر نظر رکھے ہوئے ہے اور توقع کرتا ہے کہ اس معاملے میں عدلیہ کی آزادی اور بنیادی جمہوری اصولوں سے متعلق معیارات پر عمل کیا جائے گا۔
خیال رہے کہ گزشتہ تین سالوں میں یہ تیسرا موقع ہے جب جرمنی اور ہندوستان کی وزارت خارجہ ہندوستانی اپوزیشن رہنماؤں اور سول سوسائٹی کے خلاف عدالتی کارروائیوں کے معاملے پر آمنے سامنے ہیں۔
Categories: عالمی خبریں