خبریں

مختار انصاری کی موت سے ایک ہفتہ قبل عدالت نے زہر دینے کے الزام کے حوالے سےجیل سے رپورٹ طلب کی تھی

گزشتہ  21 مارچ کو بارہ بنکی کی ایم پی-ایم ایل اے عدالت نے مختار انصاری کی عرضی پر شنوائی  کرتے ہوئے باندہ جیل سپرنٹنڈنٹ کو ہدایت دی تھی کہ وہ 29 مارچ تک انصاری کو مبینہ طور پر زہر دیے جانے کے معاملے میں انصاری کی صحت اور سیکورٹی کے بارے میں رپورٹ پیش کریں۔

مختار انصاری (تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

مختار انصاری (تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

نئی دہلی: سزا یافتہ سابق ایم ایل اے مختار انصاری کو پیٹ میں درد کی وجہ سے اسپتال میں داخل کرنے اور پھر مبینہ طور پر ‘حرکت قلب ‘  بند ہونے سے ان کی موت سے ایک ہفتہ قبل اتر پردیش کی ایک عدالت نے باندہ میں جیل حکام سے انصاری کے ان الزامات کے سلسلے میں ایک رپورٹ مانگی تھی جن میں کہا گیا تھا کہ 40 دنوں میں کم از کم دو بار ان کے کھانے میں زہر ملایا گیا۔

بارہ بنکی کی ایم پی-ایم ایل اے کورٹ کے خصوصی جج کمل کانت سریواستو نے 21 مارچ کو انصاری کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے باندہ جیل سپرنٹنڈنٹ کو ہدایت دی تھی کہ وہ مبینہ طور پر زہر دیے جانے کے معاملے میں انصاری کی صحت اور سکیورٹی کے بارے میں 29 مارچ تک رپورٹ پیش کریں۔ اس آرڈر کی ایک کاپی دی وائر کے پاس دستیاب ہے۔

عدالت نے یہ ہدایت گینگسٹر ایکٹ کیس (2022) کی سماعت کے دوران انصاری کی طرف سے اپنے وکیل کے ذریعے دائر کر دہ ایک درخواست پر دی تھی۔

بارہ بنکی کی عدالت میں 21 مارچ کو داخل کی گئی درخواست میں انصاری نے الزام لگایا تھا کہ 19 مارچ کو رات کے کھانے کے دوران جیل میں ان کو دیے گئے کھانے میں ‘زہریلا مادہ’ ملایا گیا تھا، جس کی وجہ سے وہ شدید بیمار ہو گئے۔

انصاری نے کہا کہ کھانا کھانے کے بعد انہیں بے چینی محسوس ہوئی اور پہلے اپنے جسم کے اعضاء اور پھر باقی جسم میں درد محسوس ہوا۔ انصاری نے اپنی درخواست میں کہا، ‘میرے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے پڑ گئے، اور ایسا لگا جیسے میں مرنے والا ہوں۔ مجھے بے چینی محسوس ہوئی۔ اس سے پہلے میری صحت بالکل ٹھیک تھی۔’

انہوں نے مزید الزام لگایا تھا کہ تقریباً 40 دن پہلے انہیں کھانے کے ساتھ ‘سلو پوائزن’ دیا گیا تھا۔  انصاری نے اپنی دو صفحات پر مشتمل درخواست میں الزام لگایا تھا کہ جیل کے کچھ عملے، جس میں وہ شخص بھی شامل تھاجس نے انہیں کھانا کھلانے سے پہلے کھانا چکھا تھا، بھی بیمار محسوس کر رہے تھے اور ان سب کا علاج کرنا پڑا۔

انصاری نے درخواست کی تھی کہ عدالت پورے واقعہ کی تحقیقات کا حکم دے اور ان کے مکمل علاج کے لیے ایک میڈیکل بورڈ تشکیل دی جائے۔  انہوں نے کہا کہ ان کی سکیورٹی کے لیے بھی ضروری ہدایات دی جائیں۔

انصاری نے کہا تھا، ‘جیل میں میری جان کو خطرہ بڑھ گیا ہے۔ میرے ساتھ کسی بھی وقت کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آ سکتا ہے۔ ساتھ ہی، انہوں نے الزام لگایا تھا کہ انہیں زہر دینا ‘کسی بڑی سازش’ کا حصہ ہے۔

درخواست میں لگائے گئے سنگین الزامات کو ذہن میں رکھتے ہوئے جج سریواستو نے باندہ ڈسٹرکٹ جیل سپرنٹنڈنٹ کو ہدایت دی تھی کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ جیل مینوئل کے مطابق انصاری کو ‘خاطر خواہ  اور مناسب’ طبی معائنہ اور طبی سہولیات فراہم کی جائیں۔

عدالت نے جیل افسر کو انصاری کی حفاظت کے لیے ضروری اقدامات کرنے کی بھی ہدایت کی تھی۔ عدالت نے اس معاملے پر اپنی رپورٹ پیش کرنے کے لیے جیل سپرنٹنڈنٹ کو 29 مارچ تک کا وقت دیا تھا، اور اس فیصلے کی ایک کاپی ڈی آئی جی (جیل) الہ آباد کو بھیجی تھی، جس کے تحت باندہ آتا ہے۔

باندہ ڈسٹرکٹ جیل کے سب جیلر مہندر سنگھ نے 21 مارچ کو عدالت کو مطلع کیا کہ انصاری کو ویڈیو کانفرنس کے ذریعے اس کے سامنے پیش نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ ٹھیک نہیں ہیں۔ افسر نے عدالت کو بتایا تھا کہ انصاری صحت ٹھیک نہیں  ہے اور ان کا علاج چل رہا ہے۔

انصاری کے بیٹے عمر انصاری نے گزشتہ سال سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی تھی کہ ریاستی حکومت انصاری کو باندہ جیل میں قتل کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ اپنے والد کی موت کے بعد 28 مارچ کو دیر رات گئے میڈیا سے بات کرتے ہوئے عمر نے اپنے الزامات کو دہرایا اور عدالت میں اپنے مقتول والد کی دائر کی گئی درخواست کی حمایت کی۔

انہوں نے کہا، ‘میں الزام لگانے والا کوئی نہیں ہوں۔ جسے (مختار انصاری) زہر دیا گیا تھا، اس نے خود الزام لگایا تھا کہ  19 مارچ کو رات کے کھانے میں مجھے زہر دیا گیا ہے۔’

عمر نے یہ بھی بتایا کہ واقعے سے دو دن قبل جب مختار انصاری کو پیٹ میں درد کی وجہ سے اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا تو انہیں اپنے والد سے ملنے نہیں دیا گیا تھا۔ عمر انصاری نے کہا، ‘مجھے (موت کے بارے میں) میڈیا سے معلوم ہوا۔’

انہوں نے کہا کہ وہ اپنے والد کی موت کا معاملہ قانونی طور پر اٹھائیں گے۔ انہوں نے کہا، ‘یہ تحقیقات کا معاملہ ہے۔’

انصاری 2017 میں ریاست میں برسراقتدار آنے کے  بعد  سے  ہی یوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت والی بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کے نشانے پر تھے۔ اسپتال کے ایک میڈیکل بلیٹن میں کہا گیا ہے کہ انصاری جیل کی اپنی کوٹھری میں بے ہوش ہوگئے اور انہیں الٹی  اور بے ہوش ہونے کے بعد جمعرات کی رات 8:25 بجے کے قریب رانی درگاوتی میڈیکل کالج لے جایا گیا۔

بلیٹن میں کہا گیا کہ انہیں ایمرجنسی وارڈ میں لے جایا گیا جہاں نو ڈاکٹروں کی ٹیم نے فوری طور پر ان کا علاج شروع کر دیا، لیکن بہترین کوششوں کے باوجود ‘حرکت قلب ‘ بند ہونے سے ان کی موت ہو گئی ۔

انصاری کی لاش کا پوسٹ مارٹم 29 مارچ کو کیا جائے گا۔

اس سے قبل منگل (26 مارچ) کو بھی انصاری کو پیٹ میں درد کی شکایت کے بعد اچانک کئی گھنٹوں تک اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔

یوپی جیل محکمہ نے کہا کہ انصاری کو منگل کو اسپتال لے جایا گیا جب رات کو ان کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی اور وہ ‘ٹوائلٹ میں گر گئے’۔ محکمہ جیل خانہ جات کے ترجمان نے بتایا کہ جیل کے ڈاکٹر کی جانب سے ابتدائی علاج کے بعد انہیں آدھی رات کو باندہ میڈیکل کالج میں داخل کرایا گیا۔

اسپتال نے کہا تھا کہ انہیں 26 مارچ کو صبح 3:55 بجے ‘پیٹ میں درد اور 4-5 دن تک رفع حاجت  میں پریشانی اور پیٹ پھولنے’ کی شکایت کی وجہ سے داخل کیا گیا تھا۔ باندہ میڈیکل کالج کے صبح 8 بجے کے بلیٹن میں کہا گیا تھا، ‘مریض کو داخل کر کے علاج شروع کر دیا گیا ہے۔ مریض فی الحال مستحکم حالت میں ہے۔’

انصاری کو بعد میں اسپتال کے آئی سی یو سے چھٹی دے کر واپس جیل لے جایا گیا۔ اس دن افضل انصاری نے الزام لگایا تھا کہ ان کے بھائی کو کھانے میں ‘زہریلا مادہ ‘ ملا کر کھلایا گیا تھا۔ افضل نے صحافیوں سے کہا تھا کہ ‘جیل میں ان کے قتل کی سازش رچی گئی ہے۔’

قابل ذکر ہے کہ عمر انصاری نے گزشتہ سال دسمبر میں سپریم کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن دائر کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ان کے والد کو یوپی سے باہر کی جیل میں منتقل کیا جائے۔ 15 دسمبر 2023 کو یوگی حکومت نے سپریم کورٹ کو یقین دلایا تھا کہ ‘ضرورت کے مطابق سیکورٹی میں ضروری اضافہ کیا جائے گا’ تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ انصاری کو حراست میں رہتے ہوئے کوئی نقصان نہ پہنچے۔

عمر نے اپنی عرضی میں سابق لوک سبھا ممبر پارلیامنٹ اور داغدار سیاستداں عتیق احمد اور ان کے بھائی اشرف احمد کے قتل کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے اپنے والد کی حفاظت کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا تھا ۔ احمد بھائیوں کو گزشتہ سال 15 اپریل کو اس وقت قتل کر دیا گیا تھا جب الہ آباد میں پولیس اہلکاروں کی ایک ٹیم انہیں معمول کے میڈیکل ٹیسٹ کے لیے لے جا رہی تھی۔ احمد برادران کو صحافیوں کے سامنے قتل کیا گیا تھا اور فوٹیج ٹیلی ویژن پر براہ راست نشر کی گئی تھی۔

مختار کے بیٹے نے اپنی درخواست میں یوگی حکومت پر سابق ایم ایل اے کے خلاف ‘معاندانہ رویہ’ اپنانے اور جیل میں رہتے ہوئے ان کے قتل کی ‘بڑی سازش’ کرنے کا الزام لگایا تھا۔ خطرے کا خدشہ مختار کو موصولہ ‘باوثوق جانکاری’ پر مبنی تھا کہ ان کی جان کو شدید خطرہ ہے اور کئی لوگ باندہ جیل میں اسے قتل کرنے کی سرکاری سازش میں ملوث ہیں۔

جسٹس ہریش کیش رائے اور پرشانت کمار مشرا کی ایک ڈویژن بنچ نے 16 جنوری 2024 کو یوپی حکومت کو ہدایت دی تھی کہ وہ یہ یقینی بنانے کے لیے کہ انصاری کسی بھی حفاظتی خلاف ورزی اور اس کے نتائج سے مکمل طور پر محفوظ ہیں، تمام حفاظتی انتظامات جاری رکھے۔ اس سماعت کے دوران ایڈیشنل سالیسٹر جنرل کے ایم نٹراج نے انصاری کے لیے کیے گئے سیکورٹی انتظامات کے بارے میں بتایا تھا۔ اس کے بعد عدالت نے کیس جولائی کے تیسرے ہفتے کے لیےلسٹ کر دیا تھا۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔ )