خبریں

مختار انصاری کی موت: اپوزیشن رہنماؤں نے زہر دینے کے دعوے کو دہرایا، تحقیقات کا مطالبہ

اتر پردیش کی باندہ جیل میں بندگینگسٹر سے سیاستداں بنے 63 سالہ مختار انصاری کی ایک اسپتال میں موت کے بعد ان کے اہل خانہ کے ساتھ ہی اپوزیشن کے کئی رہنماؤں نے اعلیٰ سطحی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

مختار انصاری (تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

مختار انصاری (تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

نئی دہلی: اترپردیش کے باندہ کے ایک اسپتال نے جمعرات کی رات کو بتایا کہ شہر کی جیل میں بند گینگسٹر سے سیاستدان بنے  63 سالہ مختار انصاری کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوگئی ۔

اس سے کچھ دن پہلے ان کے بھائی اور غازی پور کے ایم پی افضل انصاری نے الزام لگایا تھا کہ انہیں جیل میں ‘سلو پوائزن’ (دھیما زہر) دیا جا رہا ہے۔ تاہم حکام نے اس الزام کی تردید کی تھی۔

رپورٹ کے مطابق، اتر پردیش کی ایک عدالت نے باندہ میں جیل حکام سے ان کے کھانے میں گڑبڑی کے الزامات پر رپورٹ طلب کی تھی۔ دعویٰ کیا گیا تھا کہ 40 دنوں میں کم از کم دو بار زہر دیا گیا۔

بارہ بنکی کی عدالت میں 21 مارچ کو دائر کی گئی عرضی میں انصاری نے الزام لگایا تھا کہ 19 مارچ کو رات کے کھانے کے دوران جیل میں انہیں دیے گئے کھانے میں ‘زہریلا مادہ’ ملایا گیا تھا جس کی وجہ سے وہ شدید بیمار ہو گئے تھے۔

انہوں نے مزید الزام لگایا تھا کہ تقریباً 40 دن پہلے انہیں کھانے کے ساتھ ‘سلو پوائزن’ دیا گیا تھا۔ انصاری نے اپنی دو صفحات پر مشتمل درخواست میں الزام لگایا تھا کہ جیل کے کچھ عملے جس میں وہ شخص بھی شامل تھا جو انہیں کھانا کھلانے سے پہلے کھانا چکھتا تھا، وہ بھی بیمار ہو گیا تھا اور ان سب کا علاج کرنا پڑا۔

انصاری نے درخواست کی تھی کہ عدالت پورے واقعہ کی تحقیقات کی ہدایت دے اور ان کے مکمل علاج کے لیے ایک میڈیکل بورڈ تشکیل دی جائے۔ انہوں نے کہا تھا کہ ان کی حفاظت کے لیے بھی ضروری ہدایات دی جانی چاہیے۔

انصاری نے الزام لگایا تھا کہ انہیں زہر دینا ‘کسی بڑی سازش’ کا حصہ تھا اور کہا تھا، ‘جیل میں میری جان کو خطرہ بڑھ گیا ہے۔ میرے ساتھ کسی بھی وقت کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آ سکتا ہے۔’

عرضی میں لگائے گئے سنگین الزامات کا نوٹس لیتے ہوئے جج سریواستو نے باندہ ڈسٹرکٹ جیل سپرنٹنڈنٹ کو ہدایت دی کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ جیل مینوئل کے مطابق انصاری کو ‘خاطر خواہ اور مناسب’ طبی معائنہ اور طبی سہولیات فراہم کی جائیں۔

عدالت نے جیل افسر کو انصاری کی حفاظت کے لیے ضروری اقدامات کرنے کی بھی ہدایت دی تھی۔ عدالت نے جیل سپرنٹنڈنٹ کو کیس کی رپورٹ پیش کرنے کے لیے 29 مارچ تک کا وقت دیا تھا۔

انصاری کے بیٹے عمر انصاری نے گزشتہ سال سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی تھی کہ ریاستی حکومت انصاری کو باندہ جیل میں قتل کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔

اپنے والد کی موت کے بعد 28 مارچ کی دیر رات میڈیا سے بات کرتے ہوئے عمر نے اپنے الزامات کو دہرایا اور عدالت میں اپنے مقتول والد کی درخواست کی حمایت کی۔

انہوں نے کہا، ‘میں الزام لگانے والا کوئی نہیں ہوں۔ جسے زہر دیا گیا (مختار) نے خود الزام لگایا تھا کہ اسے 19 مارچ کو رات کے کھانے میں زہر دیا گیا تھا۔’

عمر نے یہ بھی بتایا کہ واقعے سے دو دن قبل جب مختار انصاری کو پیٹ میں درد کی وجہ سے اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا تو انہیں اپنے والد سے ملنے نہیں دیا گیا تھا۔

عمر انصاری نے کہا، ‘مجھے (موت کے بارے میں) میڈیا سے معلوم ہوا۔’ انہوں نے کہا کہ وہ اپنے والد کی موت کا معاملہ قانونی طور پر اٹھائیں گے۔ انہوں نے کہا، ‘یہ تحقیقات کا معاملہ ہے۔’

راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کے لیڈر تیجسوی یادو نے مختار انصاری کی موت کے واقعہ پر تشویش کا اظہار کیا اور آئینی اداروں سے ‘اس طرح کے معاملات’ کا از خود نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔

اس واقعہ پر غم کا اظہار کرتے ہوئے بہار کے سابق نائب وزیر اعلیٰ تیجسوی یادو نے ایک پوسٹ میں کہا، ‘…کچھ دن پہلے انہوں نے شکایت کی تھی کہ  انہیں جیل میں زہر دیا گیا ہے، پھر بھی اسے سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ پہلی نظر میں یہ مناسب اور انسانی نہیں لگتا۔ انہوں نے کہا، ‘آئینی اداروں کو ایسے عجیب و غریب واقعات اور واقعات کا از خود نوٹس لینا چاہیے۔’

اس کے ساتھ ہی سماجوادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو نے سپریم کورٹ کے جج کی نگرانی میں معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا اور الزام لگایا کہ اتر پردیش ‘سرکاری انارکی’ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے۔

انہوں نے ایک پوسٹ میں کہا، ‘ہر حال میں اور ہر مقام پر کسی کی جان کی حفاظت حکومت کی اولین ذمہ داری اور فرض ہے۔سرکاروں پر کسی بھی حالت میں کسی یرغمالی یا قیدی کی موت ہونا، عدالتی عمل پر لوگوں کا اعتماد ختم کر دے گی۔’

انہوں نے کہا، ‘ایسے تمام مشتبہ معاملات میں سپریم کورٹ کے جج کی نگرانی میں تفتیش ہونی چاہیے۔ حکومت جس طرح عدالتی عمل کو نظرانداز کر کے دوسرے طریقے اپناتی ہے وہ سراسر غیر قانونی ہے۔ جو حکومت جان کی حفاظت نہیں کر سکتی اسے اقتدار میں رہنے کا حق نہیں ہے۔ اتر پردیش ‘سرکاری انارکی’ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے۔ یہ یوپی میں ‘امن و امان کا زیرو آور’ ہے۔

وہیں، آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے سربراہ اسد الدین اویسی نے بھی اسی طرح کے جذبات کا اظہار کیا اور انہوں نے انصاری کے بھائی کی طرف سے لگائے گئے الزامات کی طرف اشارہ کیا۔

مختار انصاری کے اہل خانہ سے تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے اویسی نے کہا، ‘غازی پور کے لوگوں نے اپنا محبوب بیٹا اور بھائی کھو دیا۔’

انہوں نے کہا، ‘مختار صاحب نے انتظامیہ پر سنگین الزامات لگائے تھے کہ انہیں زہر دیا گیا ہے۔ اس کے باوجود حکومت نے ان کے علاج پر کوئی توجہ نہیں دی۔ یہ قابل مذمت اور افسوسناک ہے۔’

حال ہی میں کانگریس میں شمولیت اختیار کرنے والے بہار کے سابق ایم پی پپو یادو نے انصاری کی موت کو ‘ادارہ جاتی قتل’ قرار دیا اور عدالت کی نگرانی میں معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

پپو یادو نے کہا، ‘سابق ایم ایل اے مختار انصاری کا ادارہ جاتی قتل… یہ قانون، آئین، قدرتی انصاف کو دفن کرنے جیسا ہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا کو اس کا از خود نوٹس لینا چاہیے۔ عدالت کی نگرانی میں غیر جانبدارانہ تحقیقات ہونی چاہیے۔’

انہوں نے مزید کہا، ‘وہ کئی دنوں سے الزام لگا رہے تھے کہ انہیں سلو پوائزن دیا جا رہا ہے۔ ان کے ایم پی بھائی نے بھی یہ الزام لگایا تھا۔ یہ ملک کے آئینی نظام پر ایک انمٹ داغ ہے۔’

دریں اثنا، بھیم آرمی کے لیڈر چندر شیکھر آزاد نے انصاری کی موت کی مرکزی تفتیشی بیورو سے تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

بہوجن سماج پارٹی کی سربراہ مایاوتی نے بھی معاملے کی اعلیٰ سطحی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے کہا، ‘مختار انصاری کی جیل میں ہوئی موت کے حوالے سے ان کے اہل خانہ کی جانب سے لگائے جانے والے مسلسل خدشات اور سنگین الزامات کی اعلیٰ سطحی تحقیقات کی ضرورت ہے، تاکہ ان کی موت کے اصل حقائق سامنے آسکیں۔ ایسے میں ان کے گھر والوں کا غمزدہ ہونا فطری ہے۔ قدرت انہیں یہ دکھ برداشت کرنے کی ہمت دے۔

دریں اثنا، انصاری کی موت کے پیش نظر پوری ریاست میں سی آر پی سی کی دفعہ 144 کے تحت امتناعی احکامات نافذ کر دیے گئے ہیں اور مقامی پولیس کے ساتھ سنٹرل ریزرو پولیس فورس کی ٹیموں کو باندہ، مئو، غازی پور اور وارانسی میں تعینات کیا گیا ہے۔