فکر و نظر

کانگریس کے بعد بائیں بازو کی جماعتوں کو ملا انتخابات سے قبل محکمہ انکم ٹیکس کا نوٹس، کروڑوں کی ادائیگی کا مطالبہ

محکمہ انکم ٹیکس کی جانب سے کانگریس کو 1823 کروڑ روپے کا نوٹس بھیجے جانے کے بعد سی پی آئی نے کہا کہ اسے پرانے پین کارڈ استعمال کرنے کے لیے محکمہ سے نوٹس موصول ہوا ہے۔ وہیں، سی پی آئی (ایم) کو 2016-17 کے ٹیکس رٹرن میں بینک اکاؤنٹ کا اعلان نہ کرنے پر 15.59 کروڑ روپے کا وصولی نوٹس بھیجا گیا ہے۔

فوٹو بہ شکریہ-ڈی ڈی نیوز

فوٹو بہ شکریہ-ڈی ڈی نیوز

کولکتہ: لوک سبھا انتخابات سے قبل محکمہ انکم ٹیکس کی جانب  سے اپوزیشن جماعتوں کو نوٹس بھیجنے کا سلسلہ جاری ہے۔ اسی دن جب کانگریس پارٹی نے کہا کہ اسے گزشتہ برسوں کے ٹیکس گوشواروں میں مبینہ تضادات کے لیے محکمہ انکم ٹیکس نے 1823 کروڑ روپے کا نوٹس دیا ہے،  بائیں بازو کی دو جماعتوں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (سی پی آئی) اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) (سی پی آئی-ایم) پر بھی اسی طرح کی کارروائی کی گئی  ہے۔

سی پی آئی کو محکمہ انکم ٹیکس کی جانب سے 11 کروڑ روپے کے مبینہ واجبات کی ادائیگی کا نوٹس موصول ہوا ہے۔ اس نوٹس میں گزشتہ چند سالوں کے دوران انکم ٹیکس رٹرن داخل کرنے کے دوران پرانے پین کارڈ کا استعمال کرنے کی وجہ سے پارٹی کو 11 کروڑ روپے کی ادائیگی کرنے کو کہا گیا ہے۔

تاہم سی پی آئی اس نوٹس کو عدالت میں چیلنج کرنے پر غور کر رہی ہے۔

سی پی آئی (ایم) کو’15.59’کروڑ روپے کا نوٹس

سی پی آئی (ایم) ک 2016-17 کے ٹیکس گوشواروں میں بینک کھاتوں کا اعلان نہیں کرنے کی وجہ سے 15.59 کروڑ روپے کاجرمانہ وصولی نوٹس بھیجا گیا ہے۔ پارٹی نے بتایاکہ مالی سال 2016-17 کے لیے اس کی ٹیکس چھوٹ واپس لے لی گئی  تھی۔

پارٹی کے ایک ذرائع نے بتایا کہ اسے مالی سال 2016-17 کے لیے دفعہ 148اے کے تحت نوٹس موصول ہوا ہے۔ اس نوٹس میں کہا گیا ہے کہ ‘ٹیکس دہندہ ایک بینک اکاؤنٹ رکھتا ہے، لیکن ٹیکس دہندہ نے انکم ٹیکس رٹرن فائل کرتے وقت اس بینک اکاؤنٹ کو کالم 13(بی) میں ظاہر نہیں کیا ہے۔’

دفعہ  148 اس آمدنی پر نوٹس سے متعلق ہے جو تشخیص سے بچ گئی ہے۔ اس سلسلے میں پارٹی نے بتایا کہ اس نے مرکزی کمیٹی کی سطح پر مالیاتی گوشوارے جمع کرائے تھے اور اس مخصوص بینک اکاؤنٹ کو درج نہ کرنا ایک غلطی تھی۔

پارٹی کے اس جواب کو محکمہ انکم ٹیکس نے 29 جولائی 2022 کو مسترد کر دیا  اور دفعہ 148 کے تحت نوٹس جاری کر تے  ہوئے اس معاملے کو  بار پھرسے کھول دیا  ہے۔

تاہم، پارٹی کا کہنا ہے کہ اس نے محکمہ کی طرف سے وقتاً فوقتاً جاری کیے گئے نوٹس کا جواب دیا ہے۔ گزشتہ سال بھی 13 مئی 2023 کو پارٹی کو وجہ بتاؤ نوٹس موصول ہوا تھا، جس میں تجویز کیا گیا تھا کہ دفعہ 13 اے کے تحت ٹیکس چھوٹ کا دعویٰ مسترد کر دیا جائے۔

اس کے بعد آئی ٹی ڈپارٹمنٹ نے پارٹی سے 226630516 روپے کا مطالبہ کیا اور سی پی آئی (ایم) سے 17 مئی 2023 تک چار دنوں کے اندر وجہ بتاؤ نوٹس کے خلاف جواب دینے کو کہا۔

اس سلسلے میں 16 مئی کو یہ کہتے ہوئے سی پی آئی (ایم) نے جواب کے لیے 29 مئی تک کی توسیع مانگی کہ اسے اپنا تفصیلی جواب داخل کرنے کے لیے حقائق جمع کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن 23 مئی تک محکمہ نے ایک حتمی حکم جاری کیا جس میں کہا گیا کہ سی پی آئی (ایم)نے کوئی جواب داخل نہیں کیا اور 2016-2017 کے مالی سال کے لیے 15.59 کروڑ روپے کا ٹیکس لگا دیا۔

محکمہ انکم ٹیکس کو ہائی کورٹ سے پھٹکار

اس کے بعد پارٹی نے دہلی ہائی کورٹ کا رخ کیا، جہاں ذرائع کا کہنا ہے کہ عدالت نے آئی ٹی ڈپارٹمنٹ کو اس کےاس دعوے پر سرزنش کی کہ اسے وقت میں توسیع کی پارٹی کی درخواست موصول نہیں ہوئی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ایسے معاملوں میں توسیع باقاعدگی سے دی جاتی ہے۔ عدالت نے ہدایت کی کہ جب تک محکمہ آئی ٹی جولائی میں اگلی تاریخ کو جواب نہیں دیتا، پارٹی کو ٹیکس کی رقم ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

ذرائع نے مزید واضح کیا کہ ‘یہ صرف سال 2016-17 کے لیے ہے۔ محکمہ ہر سال ایسا کرسکتا ہے۔’

بتادیں کہ سی پی آئی (ایم) کا ٹیکس تنازعہ 2022 میں شروع ہوا تھا اور اب تک جاری ہے۔ کانگریس اور سی پی آئی کو موصول ہونے والے نوٹس لوک سبھا انتخابات سے پہلے کئی سوال کھڑے کرتے ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ غیر شفاف الیکٹورل بانڈ سسٹم کے خلاف سول سوسائٹی کے دیگر درخواست گزاروں کے بیچ سی پی آئی (ایم) عدالت سے رجوع کرنے والی واحد سیاسی جماعت تھی۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں اس اسکیم کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اسٹیٹ بینک آف انڈیا اور الیکشن کمیشن کو تمام معلومات کو عام کرنے کا حکم دیا تھا۔

سی پی آئی (ایم) ذرائع نے دی وائر کو بتایا کہ ‘اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ یہ نوٹس اپوزیشن پر اثر انداز ہونے کی ایک حکمت عملی ہے لیکن یہ محض اتفاق نہیں ہو سکتا!’

واضح ہو کہ یہ تینوں پارٹیاں کانگریس، سی پی آئی اور سی پی آئی (ایم) اپوزیشن ‘انڈیا’ بلاک کا حصہ ہیں۔ اسی بلاک سے تعلق رکھنے والے عام آدمی پارٹی کے کنوینر اور دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کو بھی حال ہی میں دہلی ایکسائز پالیسی معاملے میں گرفتار کیا گیا تھا، جسے سیاسی طور پر محرک کارروائی کہا جا رہا ہے۔

کیجریوال کو انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) نے گرفتار کیا تھا، جو ان تین مرکزی ایجنسیوں میں سے ایک ہے جس کے بارے میں کارکنوں اور اپوزیشن جماعتوں کا الزام ہے کہ نریندر مودی حکومت ناقدین کو کمزور کرنے کے لیے ان کا بڑے پیمانے پر غلط استعمال کر رہی ہے۔ دو دیگر ایجنسیاں محکمہ انکم ٹیکس اور سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) ہیں۔

کانگریس صدر ملیکارجن کھڑگے نے جمعہ (29 مارچ) کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اس سلسلے میں ایک سوال پوچھتے ہوئے لکھا کہ صرف اپوزیشن کے خلاف ہی یہ غیر منصفانہ کارروائی کرنے کے لیے انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ پر کون دباؤ ڈال رہا ہے؟

کھڑگے نے الزام لگایا ہے کہ حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی پر ‘4600 کروڑ روپے’ کا جرمانہ زیر التواء ہے، جسے ادا کرنے سے اسے استثنیٰ حاصل ہے۔

انہوں نے کہا، ‘اس حقیقت کے باوجود کہ الیکشن کمیشن کی عوامی معلومات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بی جے پی کو1297 لوگوں نے اپنے نام اور پتے کا ذکر کیے بغیر 2017-18 میں 42 کروڑ روپے دیے ہیں۔ اس پر کوئی کارروائی نہیں ہو رہی۔ وہیں 14 لاکھ روپے جمع کرنے پر کانگریس پر 135 کروڑ روپے کا جرمانہ عائد کیا گیا اور اس کا کھاتہ فریز کر دیا گیا۔ لیکن پچھلے 7 سالوں میں بی جے پی کا یہ جرمانہ 4600 کروڑ روپے کے برابر ہے، اس پر کچھ نہیں کیا گیا!’

(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)