گاندھی اور نہرو کا ماڈل ٹوٹ چکا ہے۔ پچھلی دو دہائیوں میں نریندر مودی کے عروج کے ساتھ دلدل مزید گہری ہو گئی ہے۔ اگر کانگریس یا اس کے لیڈران واقعی ملک کو اس دلدل سے نکالنا چاہتے ہیں یا اپنے آپ کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں، تو ان کو ہندوتوا نظریات کے ساتھ سمجھوتہ کرنے والے سوشلسٹوں کے انجام سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔
ابھی حال ہی میں ہندوستان میں حکمران ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے قومی ترجمان سدھانشو ترویدی دور کی کوڑی لاکر ایک پریس بریفنگ میں بتا رہے تھے کہ بابری مسجد کی شہادت، رام مندر کی تعمیر اور ہندوستان کی اقتصادی ترقی کے درمیان براہ راست رشتہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب 1992 میں مسجد کو مسمار کیا گیا، تو ہندوستان میں غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کا حجم ایک بلین ڈالر تھا۔ جب 2003میں محکمہ آثار قدیمہ نے مسجد کے ملبہ تلے کھدائی کرکے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ آیا اس کی تعمیر کسی مندر کے اوپر کی گئی تھی، تو غیر ملکی زر مبادلہ کا حجم 100 بلین ڈالر پہنچ گیا۔ جس وقت سپریم کورٹ نے مسمار شدہ مسجد کی اراضی ہندوؤں کے حوالے کرکے رام مندر کی تعمیر کا راستہ صاف کردیا، تو غیر ملکی کرنسی کا حجم 500 بلین ڈالر ہوگیا، اور جب اس سال کے اوائل میں وزیر اعظم نریندر مودی نے ایودھیا میں اس مسجد کی جگہ عالیشان رام مندر کا افتتا ح کیا، تو غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر 600 بلین ڈالر تک پہنچ گئے۔
یعنی کہ اگر وشو ہندو پریشد کی لسٹ جس میں وہ تقریباً 25 ہزار مساجد کا دعویٰ کرتے ہیں، کو اگر مسمار کرکے مندروں میں تبدیل کیا جاتا ہے، تو ہندوستان کے پاس کرنسی کے اتنے ذخائر ہوں گے کہ ان کو رکھنے کے لیے جگہ بھی کم پڑے گی۔
ایک طرح سے یہ بیان باضابطہ اشتعال دلانے والا اور دیگر عبادت گاہوں کو نشانہ بنانے کی سمت ایک طرح کی ڈائریکشن تھی۔
اگر بی جے پی کو اقتدار میں آنے کے لیے صرف عوام کا ووٹ چاہیے تھا، تو شاید اس میں کوئی حرج نہیں تھا۔ دنیا کے اکثر ممالک میں دائیں بازو کی جماعتیں اقتدار میں آتی رہتی ہیں۔ مگر بی جے پی عوام کی ذہن سازی کرکے ان کے اوپر اپنی نظریاتی چھاپ ڈال کر نفسیاتی برتری چاہتی ہے۔
ہندوستان میں انتخابی حکمت عملی کے ماہر پرشانت کشور کے مطابق، بی جے پی ووٹ لینے کے بعد مطالبہ کرتی ہے کہ اس کی پوجا کرو، کھانے، پہننے اور حتیٰ کہ کس کے ساتھ دوستی کرنی ہے اور کس کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہے، اس میں بھی اس کی ہدایت کی پیروی کرو۔
ہندوستان میں ہندو قوم پرستی کا سفر گو کہ سو سال پرانا ہے۔ مگر اس کو پروان چڑھانے میں سیکولر پارٹیوں یعنی کانگریس اور سوشلسٹوں یعنی جنتا پارٹی وغیرہ کا بھر پور ہاتھ رہا ہے۔
اس دوران ان پارٹیوں نے اپنی سیاسی زمین فرقہ پرست پارٹیوں کے سپرد کی۔ کہاں وہ بی جے پی، جس کو 1984 کے لوک سبھا انتخابات میں بس دو سیٹیں حاصل ہوئی تھیں اور پھر 2019 تک اس نے بتدریج سوشلسٹوں کا مکمل اور کانگریس کا جزوی صفایا کرکے ایوان میں تین سو نشستیں حاصل کیں۔
معروف صحافی اور بی بی سی کے سابق اینکر اور ہندوستان میں نامہ نگار قربان علی کے تحقیقی مقالوں کے مطابق اگر یہ دو طاقتیں، ہندو فرقہ پرستی کا ہاتھ نہ تھامتی، تو یہ ابھی بھی ہندوستانی سیاست کے حاشیہ پر ہی ہوتی۔
دستاویزوں کا حوالہ دےکر وہ بتاتے ہیں کہ مئی 1950 کو ملک کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے خبردار کیا تھا کہ فرقہ واریت ملک کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ نہرو کا کہنا تھا ملک کو چیلنج پاکستان کی طرف سے اتنا زیادہ نہیں، جتنا اپنے لوگوں کی طرف سے ہے، جو فرقہ وارانہ خطوط پر سوچتے ہیں۔ 1958 میں آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے اجلاس میں نہرو نے اکثریتی طبقہ کی فرقہ پرستی کو ملک کے لیے سب سے خطرناک بتایا تھا۔ مگر جلد ہی اس پارٹی نے اپنے ووٹ بینک کو بچانے کے لیے اکثریتی برادری کے ذہنوں میں ایک فرضی عدم تحفظ کا احساس کروانے کا کام شروع کیا۔
اندرا گاندھی نے اس کو شروع کیا اور ان کے فرزند راجیو گاندھی نے اس کو ایک انتہا تک پہنچادیا۔ اس کا انجام یہ نکلا کہ راجیو گاندھی، کانگریس کے آخری ایسے وزیر اعظم تھے، جنہوں نے اپنے بل بوتے پر ملک پر حکومت کی۔ اس کے بعد کی دو کانگریسی حکومتیں نرسمہا راو اور منموہن سنگھ کی زیر قیادت اتحادیوں کے دم پر قائم ہوئی۔
قربان علی کے مطابق مشہور دلت لیڈر آنجہانی جگجیون رام، جو 1980 کے انتخابا ت میں جنتا پارٹی کے وزارِت عظمیٰ کے امیدوار رتھے، نے نتائج آنے کے بعد کہا کہ اندرا گاندھی نے اقتدار میں آنے کے لیے ہندو کارڈ کا استعمال کیا۔
اندرا اس وقت تک سیکولرازم اور نہرو کے اصولوں سے بہت دور چلی گئی تھی۔ اپنے مقالہ ‘کانگر یس نے راشٹریہ سیوئم سیوک سنگھ یعنی آر ایس ایس کی فرقہ وارانہ سیاست کو کیسے جائزبنایا،’ میں قربان علی بیان کرتے ہیں کہ آر ایس ایس نے مبینہ طورپر 1980 اور 1984 کے انتخابا ت میں کانگریس کو جیتنے میں مدد کی۔
آر ایس ایس ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم ہے۔اس کی درجنوں شاخیں ہیں، جو مختلف میدانوں میں کام کرتی ہیں۔ واضح رہے کہ بی جے پی اس کی سیاسی شاخ ہے۔ 1980 میں جب اندرا گاندھی دوبارہ برسراقتدار آگئی، تو وہ ایک بدلی ہوئی شخصیت تھی۔ اس نے اقتدار میں برقرار رہنے کے لیے مذہب کی بیساکھی کو بھر پور طریقے سے استعمال کرنا شروع کردیا۔ ملک بھر کے مندروں کے دورے کرنے کے ساتھ ساتھ یوگا گورو دھریندر برہمچاری سمیت کئی سادھو سنتوں کو اقتدار کے گلیاروں تک رسائی دی گئی۔ وہ اب ہر کام نجومیوں کے مشوروں سے کرنے لگی تھی۔
کئی سیاسی تجزیہ کاروں کا حوالہ دے کر قربان علی کہتے ہیں کہ اندرا گاندھی کا غریبی ہٹاؤ کا نعرہ افادیت کھو چکا تھا۔ اس لیے ووٹروں کو لبھانے کے لیے کسی نئے نعرے کی ضرورت تھی اور اس کے نتیجے میں اس نے ہندو کارڈ کا استعمال کرنا شرو ع کردیا۔ 1981میں تامل ناڈو کے مقام مینا کشی پورم میں 800 دلتوں نے ہندو اعلیٰ ذاتوں کے مظالم سے تنگ آکر اسلام قبول کرلیا۔
نیو یارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے اندرا گاندھی نے اس واقعے کو خلیج سے آئے پیٹرو ڈالروں سے منسوب کیا۔ اس کا کہنا تھا کہ خلیجی ممالک سے آئے ڈالروں سے غریب ہندوؤں کو مذہب تبدیل کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ 1983میں جموں و کشمیر کے اسمبلی کے انتخابات کے موقع پر اندرا گاندھی نے ہندو کارڈ کا کھل کر استعمال کیا۔ پہلی بار کسی نے ہندو اکثریتی جموں بنام مسلم اکثریتی وادی کشمیر کی پولارئزیشن کر کے سیاسی فائدہ اٹھایا۔
بطور وزیر اعظم انہوں نے کانگریس کے لیےانتخابی مہم کی کمان خود سنبھالی تھی اور نو دن تک جموں میں ان کا قیام رہا۔ اس دوران وزارت اعظمیٰ کا پورا دفتر ہی جموں منتقل ہو گیا تھا۔ 1991میں سوشلسٹ لیڈر مدھو ڈنڈاوتے نے لکھا کہ اندرا گاندھی نے جموں میں ایک جلسہ عام میں ہندو ووٹروں کو کہا کہ ان کی جان و مال کو خطرہ لاحق ہے۔
ان کا واضح اشارہ نیشنل کانفرنس کی طرف تھا۔ ان کا کہنا تھا صرف کانگریس ہی ان کی حفاظت کرسکتی ہے۔ وادی کشمیر کے مسلمانوں کو انہوں نے پیغام پہنچایا کہ ہندوستان کی جمہوریت کے سائے میں ان کا مستقبل محفوظ نہیں ہے۔ ان انتخابات میں جموں کی تمام سیٹیں کانگریس کی جھولی میں گر گئیں، مگر اس کے بعد حالات تیزی کے ساتھ تبدیل ہوتے گئے، جو بعد میں 1989میں عسکری جدو جہد پر منتج ہوگئے۔ اس کی داغ بیل اندرا گاندھی ڈال چکی تھی۔ان انتخابات میں آرایس ایس نے کانگریس کی کھل کر مدد کی۔
اسی طرح 1984میں سکھوں کے مقدس مقام گولڈن ٹیمپل پر فوج کشی کے بعد گڑھوال میں تقریر کرتے ہوئے اندرا گاندھی نے واضح الفاظ میں کہا کہ ہندو دھر م حملے کی زد میں ہے۔ اس نے ہندو سنسکرتی کو مسلمانوں اور سکھوں کے حملوں سے بچانے کی پر زور اپیل کی۔
سال 1980میں اس کی اقتدار میں واپسی کے چند ماہ بعد ہی مراد آباد میں عید کے دن فسادات پھوٹ پڑے، جس میں سو سے زائد مسلمانوں کو موت کی نیند سلایا گیا۔ عین نماز کے وقت عید گاہ میں سور داخل کیے گئے تھے اور وہ اس کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ اس کے بعد تو فرقہ وارانہ فسادات کی ایک لڑی سی لگ گئی۔ بہار شریف، میرٹھ، گجرات کا بروڈہ شہر، ممبئی سے متصل بھیونڈی مسلمانوں کے خون سے رنگین ہو گئے اور ان سبھی جگہوں پر کانگریسی حکومتیں تھیں۔
سال 1983میں آسام کے نیلی کے مقام پر دو ہزار سے زائد مسلمان بنگالیوں کا قتل عام کیا گیا۔ اس قتل عام کے لیے شاید ہی کسی کو سزا ہوئی ہو۔ اندرا کو معلوم تھا کہ 1977کے انتخابات میں مسلمانوں کی وجہ سے ان کو انتخابات میں ہار کا سامنا کرنا پڑا۔ کیا وہ ان سے انتقام لے رہی تھی؟
قربان علی کے مطابق 1982اور 1984کے درمیان اندراگاندھی تین بار آر ایس ایس کے لیڈران سے ملی۔ اسی دوران اس نے آر ایس ایس کی ایک اور شاخ وشو ہندو پریشد کی رام مندر کی مہم کی حمایت کی۔
صحافی نیرجا چودھری کا حوالہ دے کر قربان علی کہتے ہیں کہ 1986 میں وشوہندو پریشد کے لیڈر اشوک سنگھل نے ان کو بتایا کہ اندرا نے ان کو یقین دہائی کرائی تھی کہ مناسب موقع پر وہ رام مندر کو انتخابی موضوع بنائے گی۔
جنوری 1986کو وزیر اعظم راجیو گاندھی کے دور میں جب بابری مسجد کا تالہ کھول کر وہاں ہندوؤں کو پوجا کرنے کی اجازت دی گئی، تو آر ایس ایس کے سربراہ مرلی دھر دیوراس نے راجیو گاندھی کو ایک خط میں ’ہندوؤں کے دلوں کا بادشاہ’ کے خطاب سے نوازا۔ یہ لقب اب نریندر مودی کو دیا گیا ہے۔
سال 1983میں جب رام مندر مہم کا آغاز کیا گیا تھا، تو اس میٹنگ میں کانگریسی لیڈر داو دیال کھنہ اور گلزاری لال نندہ نے بھی شرکت کی تھی۔ راجیو گاندھی کی حکومت میں بھی ان کے مشیر ارون نہرو کا خیال تھا کہ بابری مسجد کا تالہ کھول کر وہ ہندو ووٹروں کو لبھانے میں کامیاب ہوں گے۔ اس سے قبل مسلمانوں کی منہ بھرائی کے لیے تین طلاق پر سپریم کورٹ کے فیصلہ کے خلاف پارلیامنٹ نے قانون سازی کی تھی۔
ایک متوازن عمل کے بطور اب ہندوؤں کو خو ش کرنے کے لیے کسی قدم کی ضرورت تھی، تو اس کے لیے بابری مسجد کو پوجا کے لیے کھولا گیا۔ اسی طرح سرکاری ٹی وی دوردرشن سے رامائن پر مبنی سیریل شروع کیا گیا۔ جس نے رام مندر تحریک کو جلا بخشی۔ اس وقت کے وزیر اطلاعات و نشریات ایچ کے ایل بھگت نے اس کی بھر پور مخالفت کی تھی اور کہا تھا کہ اس سے فرقہ واریت کا زہر پھوٹ پڑے گا او رایک پنڈورا بکس کھل جائے گا۔
اسی طرح 1989میں رام مندر کا شیلا نیاس یعنی بنیاد آر ایس ایس کی مرضی سے خود راجیو گاندھی کے ہاتھوں رکھی گئی۔ اس تقریب کے موقع پر راجیو گاندھی نے کہا کہ اگر وہ واپس اقتدار میں آتے ہیں، تو رام راجیہ کا اعلان کیا جائے گا۔ مگر کانگریس 414 سے 196 سیٹوں تک سمٹ گئی۔ 1990 میں جب کانگریس کی حمایت یافتہ وزیر اعظم چندرشیکھر کی حکومت نے بابری مسجد قضیہ کا حل ڈھونڈنے کے لیے سنجیدگی کے ساتھ کوششیں کی، تو آر ایس ایس کے لیڈران نے راجیو گاندھی سے پھر ملاقا ت کی اور حکومت سے حمایت واپس لینے پر زور دیا۔
ان کو بتایا گیا کہ اگر یہ قضیہ حل ہوجاتا ہے تو چندر شیکھر تو ہیرو بن جائیں گے۔ آر ایس ایس کا واضح پلان تھا کہ رام مندر تحریک کا سیاسی استعمال کرکے بی جے پی کے لیے سیاسی زمین ہموار کی جائے۔ اگر یہ قضیہ حل ہوجاتا، تو آر ایس ایس کا اصل مقصد فوت ہوجاتا۔
اس دوران اب آر ایس ایس نے کانگریس کی حمایت سے ہاتھ کھینچ کر اپنے سیاسی بازو بی جے پی کو اقتدار میں لانے اور اس کوسیاسی طور پر مضبوط کرنے کا فیصلہ کردیا تھا۔ ان انتخابات میں بی جے پی نے دو سیٹوں سے چھلانگ لگا کر 85سیٹیں حاصل کی تھیں۔
کانگریس کے علاوہ سوشلسٹوں نے بھی آر ایس ایس کی سیاسی آبیاری کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ جب کانگریس اقتدار میں ہوتی تھی تو بطوراپوزیشن سوشلسٹ پارٹیاں ہی اس کو ٹکر دیتی تھی۔ اتر پردیش اور ہریانہ میں چودھری چرن سنگھ اور دیوی لال کی لوک دل ہو یا جنتا پارٹی یا فارورڈ بلاک، سنیوکت سوشلسٹ پارٹی، پرجا سوشلسٹ پارٹی وغیرہ ہی متبادل پارٹیاں ہوتی تھیں۔
ان کا اب نام و نشان بھی باقی نہیں ہے۔
سوشلسٹ تحریک کے سرخیل جے پرکاش نارائن، رام منوہر لوہیا اور کملا دیوی چٹو پادھیائے نے 1948میں مہاتما گاندھی کے قتل کے بعد ہندو فرقہ پرست تنظیموں پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا تھا۔ انہوں نے آر ایس ایس کو برائی کی جڑ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ گاندھی کا قتل ایک غلط نظریہ کی دین ہے اور انہوں نے اس نظریہ اور اس کے ماننے والوں کو سختی کے ساتھ کچلنے کا مطالبہ کیا تھا۔
مگر 1975میں جے پرکاش نارائن کا سر ہی الگ تھا۔ بھارتیہ جن سنگھ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا اگر آر ایس ایس فاشسٹ ہے، تو وہ بھی فاشسٹ ہیں۔ 1998میں آر ایس ایس کی سیاسی شاخ بی جے پی کو اقتدار تک پہنچانے میں سوشلسٹ لیڈر جارج فرنانڈیز کا اہم رول تھا۔ 2014میں بالآخر اس پارٹی نے اپنے بل بوتے پر نریندر مودی کی قیادت میں اقتدار پر قبضہ کیا۔
اس دوران سوشلسٹ تحریک دم توڑ چکی تھی اور اس کے اکثر لیڈران رام ولاس پاسوان، نتیش کمار وغیرہ برسر اقتدار پارٹی کی چوکھٹ پر ناک رگڑ رہے تھے۔ لوہیا نے آر ایس ایس کے ساتھ کام کرنے پر عائد پابندی کو ہٹا دیا، تو جے پرکاش نارائن نے اس کو مکمل طور پر گلے لگا دیا۔ وہ اور ان کے جانشین بالآخر 1977اور 1989میں کانگریس کو اقتدار سے ہٹانے میں تو کامیاب ہوگئے، مگر ملک کو ایک عفریت کے حوالے بھی کر گئے، جس نے بہت ہی کم وقت میں ان کو بھی ہڑپ کر لیا۔ یہ معلوم ہوتے ہوئے بھی کہ یہ عفریت اسی ہاتھ کو ڈستا ہے جو اس کو دودھ پلاتا ہے، سوشلسٹوں اور کانگریسیوں نے ہندو فرقہ پرستوں کو پالا پوسا۔
معروف دانشور انل نوریہ کا حوالہ دے کر قربان علی کا کہنا ہے کہ سیکولرازم صرف قانونی یا آئینی وضاحت کا معاملہ نہیں ہے۔ یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ ہندوستانی سیکولرازم اس وقت بحران کا شکار ہے۔
گاندھی اور نہرو کا ماڈل ٹوٹ چکا ہے۔ پچھلی دو دہائیوں میں نریندر مودی کے عروج کے ساتھ دلدل مزید گہری ہو گئی ہے۔ اگر کانگریس یا اس کے لیڈران واقعی ملک کو اس دلدل سے نکالنا چاہتے ہیں یا اپنے آپ کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں، تو ان کو ہندوتوا نظریات کے ساتھ سمجھوتہ کرنے والے سوشلسٹوں کے انجام سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔
نیز اپنے لیڈران اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کی پالیسیوں کا احتساب کرکے حقیقی سیکولرازم، یگانگت اور تنوع کو مدنظر رکھ کر ایک متبادل نظریہ پر مبنی سیاست کرنی چاہیے۔
ورنہ فرقہ واریت کا عفریت ان کوہڑپنے اور ہضم کرنے کے لیے تیارکھڑا ہے اور مودی کا کانگریس مکت ہندوستان کا خواب شرمندہ تعبیر ہونے کا اندیشہ ہے۔
Categories: الیکشن نامہ, فکر و نظر