ایک آر ٹی آئی درخواست پر وزارت داخلہ نے یہ جواب دیا ہے۔ درخواست میں سی اے اے قوانین کو مطلع کیے جانے کے بعد شہریت کے لیے درخواست دینے والے لوگوں کی تعداد کے بارے میں جانکاری مانگی گئی تھی۔
نئی دہلی: مرکزی وزارت داخلہ نے بانگلہ لوگوں کے حقوق کے لیے کام کرنے کا دعویٰ کرنے والی تنظیم ‘بانگلہ پوکھو’ کی جانب سے دائر کردہ آر ٹی آئی درخواست کے جواب میں کہا ہے کہ 11 مارچ کو مطلع کیے گئے شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) اور اس کے قوانین کے تحت آن لائن دائر کی گئی شہریت کی درخواستوں کے ریکارڈ کو بنائے رکھنے کا کوئی اہتمام نہیں ہے۔
دی ٹیلی گراف کی رپورٹ کے مطابق، اس درخواست میں بانگلہ پوکھو نے سی اے اے کے قوانین کے نوٹیفکیشن کے دو دن بعد — 12 اور 13 مارچ کو وزارت داخلہ کی طرف سے دستیاب کرائی گئی ویب سائٹ کے ذریعے شہریت کے لیے درخواست دینے والوں کی تعداد کے بارے میں جانکاری مانگی تھی۔
مرکزی وزارت داخلہ نے اپنے جواب میں کہا، ‘… شہریت ایکٹ، 1955 اور شہریت (ترمیمی) ایکٹ، 2019 اور اس کے تحت بنائے گئے قوانین میں موصول ہونے والی شہریت کی درخواستوں کے ریکارڈ کو برقرار رکھنے کے لیے کوئی شق نہیں ہے۔ آر ٹی آئی ایکٹ 2005 کے مطابق، سینٹرل پبلک انفارمیشن آفیسر (سی پی آئی او) کو معلومات مرتب کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ اس لیے مانگی گئی جانکاری کو غلط سمجھا جا سکتا ہے۔’
معلوم ہو کہ یہ آر ٹی آئی درخواست ‘بانگلہ پوکھو’ کے محمد شاہین نے دائر کی تھی۔
اس سلسلے میں بانگلہ پوکھو کے جنرل سکریٹری گرگا چٹرجی نے کہا، ‘اس طرح کا ردعمل مضحکہ خیز ہے، کیونکہ سی اے اے کی تمام درخواستیں آن لائن کی جاتی ہیں اور مرکزی طور پر ڈیجیٹل ہوتی ہیں۔’
چٹرجی نے دعویٰ کیا کہ حلف نامہ میں درخواست گزار کے اصل ملک کا اعلان کرنے اور اسے دستاویزی ثبوت کے ساتھ ویب سائٹ پر اپ لوڈ کرنے کی لازمی شرط کی وجہ سے لوگ درخواست دینے سے ہچکچا سکتے ہیں۔
چٹرجی نے دعویٰ کیا کہ متوآ جیسے ہندو بنگالی مہاجرین سمیت ہندوستانی مہاجرین پہلے ہی آدھار، راشن اور ای پی آئی سی کارڈ جیسے دستاویزوں کی بنیاد پر شہریت لے رہے ہیں، اس لیے وہ خود کو غیر ملکی قرار دینے کی کوئی خواہش نہیں رکھتے۔’
انہوں نے کہا کہ سی اے اے ‘کبھی بھی ہندو بنگالی پناہ گزینوں کو ہندوستانی شہریت فراہم کرنے کے لیے نہیں بنایا گیا تھا، بلکہ پاکستانی یا بنگلہ دیشی نژاد ہندو بنگالیوں کی پہچان کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔’ انہوں نے اس پوری قواعد کو ‘دھوکہ’ قرار دیا۔
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے ان الزامات پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے اپوزیشن کی طرف سے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش قرار دیا۔
بی جے پی کے ایم پی اور پارٹی کی مغربی بنگال یونٹ کے ترجمان سمیک بھٹاچاریہ نے کہا، ‘ہر قانون کو ایک بار مطلع ہونے کے بعد پوری طرح سے لاگو ہونے سے پہلے ایک ابتدائی مدت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ وہی وقت ہے۔ چونکہ انتخابات آچکے ہیں، اس لیے ہم نے فی الحال سی اے اے کے لیے درخواست دینے کے لیے لوگوں کی ضروری حوصلہ افزائی نہیں کی ہے۔’
‘موجودہ بنیادی ڈھانچے کی کمی اور ممکنہ درخواست دہندگان تک پہنچنے کے لیے درکار دیگر عوامل’ کا حوالہ دیتے ہوئے بھٹاچاریہ نے کہا کہ بی جے پی انتخابات ختم ہونے کے بعد سی اے اے کے نفاذ کے لیے پوری طاقت لگا دے گی۔
سی اے اے کی مخالفت کرنے والی ترنمول کانگریس نے کہا کہ آر ٹی آئی کا جواب اس معاملے پر حکومت کے موقف کی تصدیق ہے۔
راجیہ سبھا میں ٹی ایم سی کے رکن پارلیامنٹ ساکیت گوکھلے نے کہا، ‘یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ حکومت کے پاس اس بات کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے کہ شہریت کی کتنی درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔’
انہوں نے کہا، ‘اگر کوئی درخواست کسی مخصوص ویب سائٹ پر دی جاتی ہے تو اس کا ریکارڈ ہمیشہ موجود ہوتا ہے۔ سی اے اے ایک سیاسی ٹول کے سوا کچھ نہیں ہے جسے بی جے پی نے انتخابات سے قبل عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے استعمال کیا ہے۔’
قابل ذکر ہے کہ متنازعہ شہریت ترمیمی ایکٹ، جو مذہبی ظلم و ستم اور ہراسانی سے بچنے کے لیے 31 دسمبر 2014 کو یا اس سے پہلے ہندوستان میں داخل ہونے والے بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان کے غیر مسلم اقلیتی تارکین وطن کو شہریت فراہم کرتا ہے، اس وقت مغربی بنگال کے کچھ حصوں اور آسام اور کئی دیگر شمال مشرقی ریاستوں میں اہم انتخابی ایشوز میں سے ایک ہے۔
یہ ایشو خاص طور پر ان علاقوں میں اٹھایا جا رہا ہے جہاں پڑوسی ممالک کے اقلیتی گروپ سی اے اے کو لاگو کرنے کے لیے بی جے پی کے پیچھے اکٹھے ہوئے ہیں۔ اسے دسمبر 2019 میں پارلیامنٹ نے منظور کیا تھا۔ اس کے بعد ملک کے کئی حصوں میں سی اے اے کے خلاف مظاہرے ہوئے تھے۔ اس کے قوانین کو گزشتہ ماہ ہی مطلع کیا گیا تھا، جس سے اس کے نفاذ کی راہ ہموار ہوگئی تھی۔
Categories: خبریں